تازہ ترین

بدھ، 18 مارچ، 2020

دیوبند میں کورونا وائرس سے ڈرے بنا خواتین کا احتجاج 52ویں روز بھی رہا جاری۔

دیوبند:دانیال خان(یواین اے نیوز18مارچ2020)شہریت ترمیمی ایکٹ،این پی آر اور مجوزہ این آر سی کے خلاف دیوبند کے عیدگاہ میدان میں جاری خواتین کے ستیہ گرہ کے 52ویں دن بھی ہزاروں کی تعداد میں بلا مذہب و ملت خواتین،لڑکیوں اور طالبات نے شرکت کی اور یہ پیغام دیا کہ قومی شہریت ترمیمی قانون،این آر سی اور این پی آر دستور کی صریح خلاف ورزی ہے اور کسی بھی حال میں نا قابل قبول ہے۔دختران ملت نے آج کے اس احتجاج کے دوران اپنی تقاریر،نعروں اور انقلابی شاعری کے ذریعہ سب کو متاثر کیا۔لکھنؤ سے تشریف لائی جن مہیلا سمیتی کی صدر سروج ورما اور مدھو گرگ نے جائے احتجاج پہنچ کر خواتین کے اس احتجاج کو تاریخی اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے دستور کو بچانے کے لئے خواتین کا یہ اقدام قابل ستائش ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ قوانین نہ صرف ملک کو بانٹ رہے ہیں بلکہ کمزور بھی کر رہے ہیں اگر ایک جملہ میں کہا جائے تو یہ قوانین غیر ملکی کو ملکی اور ملکی کو غیر ملکی بنا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہلی فساد میںہوئی 53افراد کی اموات کے ذمہ دار بھی یہی سیاہ قوانین ہیں اور انہیں قوانین کی وجہ سے ہی جامعہ ملیہ کے طلبہ پر مظالم،علیگڑھ کے طلبہ پر مصیبتوں اور اتر پردیش میں 23لوگوں کی جان انہیں قوانین کی وجہ سے گئی ہیں،ملک کے کئی شہروں میں ان سیاہ قوانین کی وجہ سے ہی لوگ سڑکوں پر اتر ے اور لاکھوں خواتین احتجاج پر مجبور ہوئیںہیں۔اگر یہ قوانین نہ ہوتے تو احتجاج نہ ہوتا،معصوم لوگوں کی جانیں نہ جاتی،ہزاروں افراد کے خلاف مقدمات نہ ہوتے،نہ چوراہوں پر انکے پوسٹر لگائے جاتے اور نہ ہی لوگوں کے گھر اور دکانات کو جلایا جاتا۔ممبئی سے تشریف لائی متعدد مسلم خواتین تنظیموں سے وابستہ محترمہ محفوظہ اور عائشہ نے کہا کہ یہ ملک ہر مذہب کے ماننے والوں کا ہے اور جو لوگ مذہب کو نہیں مانتے ان کا بھی ہے،ملک کی جدو جہد آزادی میں سب نے رول ادا کیاہے،انہوں نے کہا کہ ہندو،مسلم، سکھ،عیسائی سب برابر ہیں ملک کا دستور ماتھے پر تلک لگانے والے کو جو اختیار دیتا ہے سر پر ٹوپی،چہرہ پر داڈھی رکھنے اور سر پر پگڑی باندھنے والے کو بھی وہی اختیار دیتا ہے،ہمارا شکوہ اور شکایت یہ ہے کہ دوسرے درجہ کے شہری کی طرح ہم سے سلوک روا رکھا گیا ہے۔

 جبکہ ہم بھی اس ملک کے اول درجہ کے شہری ہیں،ہمیں فخر ہے کہ ہم مسلمان ہیں،انہوں نے کہا کہ ہمیں صرف مسلمان کی نظر سے نہ دیکھا جائے بلکہ ہندوستانی مسلمان کی نظر سے دیکھا جائے۔ متحدہ خواتین کمیٹی کی صدر آمنہ روشی،ارم عثمانی،سلمہ احسن،فوزیہ سرور،فریحہ عثمانی،زینب عرشی،عرفی انصاری اور شبانہ خان نے کہا کہ جب ہم اپنے حق کی بات کرتے ہیں تو گولی مار و جیسے نعرے لگائے جاتے ہیں،ہمیں ملک کا غدار اور اور پاکستان جانے کو کہا جاتا ہے جبکہ ہم ملک کے وفادار ہیں اور ضرورت پڑیگی تو اس ملک کے لئے اپنی جان نچھاور کرنے کے لئے کل بھی تیار تھے اور آج بھی تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ این پی آر کی کوئی دستوری حیثیت نہیں ہے یہ غیر قانونی ہے جس کا شہریت قانون 1995میں بالکل ہی تز کرہ نہیں کیا گیا ہے،انہوں نے متنازع قوانین کو دلت،پسماندہ،قبائلی طبقات،لسانی و مذہبی اقلیتوں اور خو اتین و غریب ہندوؤں پر راست حملہ قرار دیتے ہوئے اس پر روک لگانے کا مطالبہ کیا۔اس دوران خواتین بڑی تعداد میں عیدگاہ میدان میں موجود رہیں جنہوں نے انقلابی نعروں کے ساتھ حکومت سے غیر آئینی فیصلے واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad