نفرت سے اپنائیت تک- قلب انسانی کی ایک دلآویز روداد
نازش احتشام اعظمی
یہ دنیا دراصل دلوں کی کیمیائی کیفیتوں کا حسین مجموعہ ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں، اپنے رجحانات، اپنی پسند و ناپسند کا خود مختار و مالک ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے باطن میں ایک ایسی نادیدہ قوت کارفرما رہتی ہے جو کبھی ایک لمحے میں زاویہ نگاہ بدل دیتی ہے، کبھی برسوں کی کدورت کو ایک مسکراہٹ سے دھو ڈالتی ہے،
اور کبھی نفرت کے بنجر میدان میں محبت کے چشمے جاری کر دیتی ہے۔ انسانی دل کی اس لطیف مگر طاقتور حقیقت کو میں نے اپنے ایک نہایت قریبی دوست کی داستان میں یوں مجسم دیکھا کہ حیرت بھی ہوئی اور مسکرا بھی دیا۔
یہ دوست ہمارے لیے محض رفیقِ باوفا نہیں بلکہ ایک طرح کے استادِ محترم ہیں۔ ان کے تجربات، ان کی بصیرت، ان کے افکار ہم سب کے لیے چراغ رہنمائی ہیں۔ مگر ان کی شخصیت کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جسے ہم برسوں سمجھ نہ سکے۔ اور وہ تھا علی گڑھ سے ان کا شدید، غیرمتزلزل اور غیرمعمولی بغض۔ ہم نے بارہا دیکھا کہ جیسے ہی علی گڑھ کا نام لیا جاتا، ان کی پیشانی پر شکنیں ابھر آتیں، لہجہ سخت ہو جاتا، اور باتوں میں ایک شدید تلخی در آتی۔ کسی مشورے میں علی گڑھ کا حوالہ آ جائے یا گفتگو میں محض اس کا تذکرہ ہو جائے، وہ فوراً دفاعی انداز میں کچھ نہ کچھ تیکھا کہہ دیتے۔ ہم سوچتے کہ آخر اس شہر نے ان کے تئیں ایسا کیا قصور کیا ہے کہ وہ اس کا نام سننابھی گوارا نہیں کرتے۔ لمحے بھر کے لیے محسوس ہوتا کہ شاید انہیں کوئی واقعی برا تجربہ ہوا ہوگا،
مگر پھر اندازہ ہوتا کہ یہ بات صرف تجربے تک محدود نہیں؛ اس سے بڑھ کر کوئی نفسیاتی گتھی یا پرانی غلط فہمی ہے جو دل کے نہاں خانوں میں ناسور کی طرح پنپ رہی ہے۔
یہ کیفیت صرف ان کی گفتگو تک محدود نہ تھی، بلکہ ان کی چہرہ شناسی میں بھی نمایاں دکھائی دیتی تھی۔ معمولی سا ذکر ان کے حواس میں بیچینی پیدا کر دیتا۔ ہم میں سے کسی نے کبھی ہنسی میں کہا کہ اگر انہیں اختیار ہوتا تو شاید وہ علی گڑھ کو دنیا کے نقشے سے ہی مٹا دیتے۔ خود ان کی گفتار میں ایسی شدت تھی کہ کبھی کبھی ہمیں خوف ہوتا کہ کہیں یہ بغض وقت کے ساتھ بڑھ کر ان کا مستقل مزاج ہی نہ بن جائے۔
مگر تقدیر کے راستے انسانی راستوں سے ہمیشہ مختلف ہوتے ہیں۔ انسان اپنی سمجھ کے مطابق نقوش کھینچتا ہے، مگر قلمِ قدرت ان نقوش پر پل بھر میںخط تنسیخ کھینچ دیتاہے۔ زندگی میںاکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہی دروازہ جس پر ہم نے تالا لگا دیا تھا، حالات کی اِک خاموش دستک سے خود بخود کھل جاتا ہے۔ وہی راستہ جس سے ناپسندیدگی کی بنا پر ہم کترا کے گزر جاتے ہیں، وقت ہمیںاسی راستے پر لے جا کھڑا کرتا ہے۔
ایسا ہی ایک لمحہ اس وقت آیا جب ہمارے حلقے میں خبر پھیلی کہ ہمارے اُسی دوست کی شادی شہر علی گڑھ میں ہی طے ہو گئی ۔
شروع میں تو ہمیں یقین ہی نہ آیا؛ لگا شاید کسی نے مذاق کیا ہے، یا ہوائی چھوٹی ہے۔ مگر جب یہ بات حقیقت ثابت ہوئی تو ہمارا تعجب ، ایک خوشگوار حیرت اور قہقہوں میں بدل گیا۔ کوئی شوخی سے کہتا، ’قدرت نے بھی کیا خوب چال چلی ہے!‘؛ کوئی ہنستے ہوئے بول اٹھتا، ’علی گڑھ شہرنے فیصلہ کر لیا ہے کہ اس ہٹ دھرم شخص کو اپنا داماد بناکر ہی مانے گا۔‘ اور ہم سب ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا دیتے کہ انسان جو نفرت کی بنا پر اپنے تصور کو حرفِ آخر سمجھ بیٹھتا ہے، تقدیر اُسے کس طرح چند دنوں میں الٹ کر رکھ دیتی ہے۔
پھر شادی کے بعد تو صورت حال بالکل ہی بدل گئی۔ وہی شخص جو علی گڑھ کے ذکر پر برافروختہ ہو جاتا تھا، اب اُسی شہر کا نام لیتا تو لہجے میں نرمی گھلی ہوتی، آواز میں مٹھاس ہوتی، اور چہرا شگفتہ ہو جاتا جیسے ذکریار کر رہے ہوں۔ کبھی خوش ہو کے اطلاع دیتے کہ ’ہم کل علی گڑھ جا رہے ہیں، کچھ ضروری کام ہے‘…اس وقت ان کے چہرے کی شادابی بس دیکھنے لائق ہوتی اور ہم محو حیرت اُنہیںدیکھتے رہ جاتے۔ کبھی خوش دلی سے بتاتے،’ابھی علی گڑھ سیآ رہا ہوں، بہت اچھا وقت گزرا!‘ اور ان جملوں میں جو مسرت، جو فخر اور جو اپنائیت ہوتی، وہ ہمارے لیے کسی عجوبے سے کم نہ ہوتی۔
آج یہ حال ہے کہ ان کی گفتگو میں علی گڑھ کا ذکر اس طرح شامل ہو چکا ہے جیسے وہ شہر کا نہیں، کسی عزیز کا ذکر خیر کر رہے ہوں۔ وہ علی گڑھ کی گلیوں کی آہستہ خرامی بیان کرتے ہیں، وہاں کے قیلولے کی خوشگوار روایت کا تذکرہ کرتے ہیں، لوگوں کی طبیعتوں کی شگفتگی، دوپہروں کی ہوا کا مزاج، اور شہرکی پر سکون سکون لطافت کو یوں بیان کرتے ہیں کہ سننے والا محسوس کرے گویا یہ سب انہیں شہر میں برسوں کی سکونت کی بنا پر حاصل ہواہے۔
اب تو کیفیت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اپنے آبائی وطن سے زیادہ علی گڑھ ان کے دل میںگھر کر گیاہے۔ وہ شہر جو کبھی ان کی نفرتوں کے نشانے پر تھا،
اب محبت اور چاہت کا مرکز بن چکا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ علی گڑھ کی صبحوں میں کچھ ایسا رچاؤہے جو روح کو بالیدہ کرتا ہے، وہاں کی شاموں میں ایسی لطافت ہے جو ذہن کو سکون بخشتی ہے، اور مکینوںکا کیا کہنا، ان میں ایسی سادگی ، ایسی مہمان نوازی ہے جو دلوں پر اپنا نقش ضرار چھوڑ تی ہے۔
زندگی کی اس داستان میں ایک بڑا سبق پوشیدہ ہے۔ انسان کبھی کبھی اپنی ناپسندیدگی کو بھی حقیقت سمجھ بیٹھتا ہے، حالانکہ وہ محض ایک ذہنی گمان ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ تجربے، رشتے اور حالات انسان کے دل میں وہ نرمی پیدا کر دیتے ہیں جس کے آگے برسوں کی سختی پانی ہو جاتی ہے۔ دل میں موجود کدورتیں، غلط فہمیاں اور تعصبات آہستہ آہستہ تحلیل ہو کر محبت، وسعتِ نظر اور حسنِ فہم میں بدل جاتے ہیں۔
ہمارے یہ دوست جب علی گڑھ سے لوٹ کر قصے سناتے ہیں اور چہرے پر وہ مخصوص چمک لیے اپنے تجربات بیان کرتے ہیں تو ہم چھیڑتے ہوئے کہتے ہیں،’استادِ محترم، ایک زمانے میں آپ علی گڑھ کا نام سن کرہی بھڑک اٹھتے تھے، اور آج… ایسا لگتا ہے جیسے اس شہر سیا آپ کا رشتہ برسوں ںپراناہو، جیسے علی گڑھ نے آپ کے دل میں مستقل ٹھکانہ بنارکھا ہو!‘ اور وہ بس خاموشی سے مسکرا دیتے ہیں—ایسی مسکراہٹ جس میں محبت بھی ہوتی ہے، نرمی بھی، شکر گزاری بھی اور وہ لطیف سی شرارت بھی جو بڑوں کے لہجوں میں چھپی ہوتی ہے۔ ان کی یہ خاموش مسکراہٹ دراصل اس بات کا اعتراف ہوتی ہے کہ زندگی نے انہیں محبت کی زبان میں بھی کچھ سبق سکھایا ہے۔
یہ داستان ہمیں سکھاتی ہے کہ دل کا سفر کتنا لطیف اور کتنا غیر متوقع ہوتا ہے۔ انسان جس جگہ نفرت کا حکم لگا دیتا ہے، ہو سکتا ہے وہیں اس کی تقدیر کی سب سے قیمتی شے چھپی ہو۔ اور وہ راستہ جس سے انسان گریز کرتاہے، بہت ممکن ہے، وہی اس کی اصل منزل تک جاتا ہو۔ نفرت سے اپنائیت تک کا یہ سفر دراصل انسانی روح کی خوبصورت ترین تبدیلی ہے—ایک ایسی تبدیلی جو صرف الفاظ نہیں بدلتی، زندگی ہی بدل دیتی ہے اور انسان کو ایک نئے باطن، ایک نئی بصیرت اور ایک نئے عشق سے آشنا کراتی ہے۔
یہی زندگی کا حسن ہے؛ یہی دلوں کا سفر ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں