محمد عباس دھالیوال
غزہ یونیورسٹی میں پھر سے تعلیمی سرگرمیاں شروع
کسی بھی قوم کی مضبوطی کی بنیاد ان کی اچھی و معیاری درسگاہوں پہ منحصر ہوا کرتی ہے.
کسی ملک میں موجود درسگاہیں سکول کالج یونیورسٹیاں اس ملک کو مضبوطی استحکام دینے میں اپنا اہم و خاص رول ادا کرتے ہیں.
اس ضمن میں دنیا کی مختلف یونیورسٹیاں سماجی ترقی، فکری آزادی، تحقیق، فرهنگ اور مستقبل کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتی نہیں۔ مگر جب ہم غزّہ یونیورسٹی کی بات کرتے ہیں تو اس کا کردار محض تعلیمی ادارے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف علم و تحقیق کا مرکز ہے بلکہ فلسطینی قوم کی مزاحمت، استقامت اور امید کی علامت بھی ہے۔
مسلسل محاصرے، جنگوں اور انسانی بحران کے
باوجود غزّہ یونیورسٹی نے اپنے قیام کے بعد سے علم کے چراغ کو روشن رکھا، جس کی روشنی نے ہزاروں نوجوانوں کے مستقبل کو سنوارا۔
تقریباً دو سال کی اسرائیلی کی طرف غزہ میں کی گئی نسل کشی اور خونریزی کے بعد جس طرح سے ایک بار پھر سے یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ میں تعلیم کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے یقیناً یہ ایک حوصلہ افزا اور خوش آئند بات ہے تقریباً دو سال گزشتہ دنوں پھر سے جامعہ میں مختلف کلاسز کا باقاعدہ آغاز ہوگیا.
یہاں قابل ذکر ہے کہ جامعہ اسلامیہ کا شمار عرب دنیا کی بہترین جامعات میں ہوتا ہے۔ فلسطین کی وہ دوسری بہترین دانش گاہ ہے۔ انسانی عقل کو حیران کر دینے والے ہیروز زیادہ تر یہیں کے تربیت یافتہ ہیں۔ چاہے شہید قائد اسما عیل ہنیہ ہوں یا صحافی صالح جعفراوی۔ اس جامعہ نے بے شمار ہیرے تراشے ہیں۔
جنگ بندی نفاذ کے بعد جامعہ نے ان عمارتوں کی فوراً مرمت شروع کی تھی، جو جزوی طور پر اس تباہی سے بچ گئیں، جس نے زیادہ تر انتظامی اور تعلیمی عمارتوں کو ملبے میں تبدیل کر دیا۔
جامعہ کی نو اہم عمارتوں میں سائنس لیبارٹریز، انتظامی عمارت اور سات عمارتیں جو طلباء کے لیے کلاس رومز اور دیگر امور کے لیے مختص تھیں، مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ تاہم چار عمارتیں انجینئرنگ کے لحاظ سے قائم ہیں، حالانکہ وہ بھی اسرائیلی حملوں سے متاثر ہوئیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق
جنگ نے ہزاروں طلباء کو بنیادی اور اعلیٰ تعلیم سے محروم کر دیا تھا۔ جامعہ اسلامیہ، جو 1970 کی دہائی کے آخر میں قائم ہوئی۔ یہ عمارت 105 دونم رقبے پر محیط ہے، اس میں جنگ سے پہلے تقریباً 14,700 طلباء زیر تعلیم تھے۔ ڈاکٹر العوینی کے مطابق، جنگ کے باوجود بھی 4 تعلیمی سیشن مکمل ہوئے اور تقریباً 5,000 طلباء نے آن لائن تعلیم کے ذریعے اپنی ڈگریاں مکمل کیں۔
مذکورہ رپورٹ میں آگے بتایا گیا ہے کہ
اس جنگ نے جامعہ کی 80 فیصد عمارتیں اور وسائل تباہ کر دیئے، بشمول لیبارٹریز اور آلات۔ خان یونس میں اس کا دوسرا کیمپس شدید تباہ ہوا اور اسرائیلی کنٹرول کے تحت تھا۔ مرمت کے دوران بھی اسرائیلی پابندیوں اور حصار نے مواد کی فراہمی مشکل بنا دی۔ 1,500 کلاس روم کے بجائے صرف 150 سیٹیں فراہم کی جا سکیں، کیونکہ سیمنٹ کی قیمت فی الحال بہت زیادہ ہے۔
اسی رپورٹ میں آگے
ڈاکٹر العوینی کہتے ہیں: "زندگی موت سے جنم لیتی ہے اور جامعہ نے نئے طلباء کے لیے داخلہ کھول دیا ہے۔ فرح ابو عابد جو انجینئرنگ کی پانچویں سال کی طالبہ ہیں، دوبارہ کلاس روم میں تعلیم کی خوشی محسوس کر رہی ہیں، حالانکہ مشکلات اور نقل و حمل کے مسائل باقی ہیں۔
ڈاکٹر اسماعیل الثوابتہ کے مطابق، غزہ میں تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہوئی اور تعلیمی اداروں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا تاکہ فلسطینی علمی اور ثقافتی شناخت مٹائی جا سکے۔ تقریباً 95 فیصد تعلیمی ادارے متاثر ہوئے، 165 کالجز اور یونیورسٹیاں مکمل تباہ ہوئیں اور 392 جزوی طور پر۔
جامعہ اسلامیہ کی تباہی بھی منصوبہ بندی شدہ تھی تاکہ فلسطینی علمی اور فکری بنیادیں کمزور ہوں۔ اسرائیلی جنگ نے تعلیم کے شعبے کو تقریباً 4 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا اور 193 سے زائد اساتذہ و محققین شہید ہوئے، جبکہ تقریباً 785,000 طلباء تعلیم سے محروم ہوئے۔ اس سب کے باوجود، جامعہ اسلامیہ اور دیگر فلسطینی جامعات نے فوری طور پر ترمیم و تعمیر شروع کر دی، تاکہ ثابت ہو کہ فلسطینی علم اور تعلیم کو ختم نہیں کیا جا سکتا اور یہ مسلسل جاری رہے گا۔
وہیں ایک دوسری رپورٹ کے مطابق غزہ میں اسلامی یونیورسٹی اور دیگر ادارے پہلے سے موجود تھے، لیکن بڑھتی ہوئی آبادی، تعلیمی دباؤ، مقامی ضروریات اور جدید علوم کی دستیابی کے لیے ایک نئے اور ہمہ جہت ادارے کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ اسی ضرورت کے پیشِ نظر غزّہ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی۔
یونیورسٹی نے ابتدائی چند برسوں میں محدود وسائل کے باوجود تیزی سے ترقی کی۔ اس کے مختلف شعبہ جات، فیکلٹیز، تحقیقی مراکز اور تعلیمی پروگراموں نے غزہ کے تعلیمی نقشے میں ایک نئی روح پھونک دی۔
بات اگر غزّہ یونیورسٹی کی اہمیت کی اہمیت کی کریں تو
غزہ میں جنگ اور معاشی ناکہ بندی کے باعث طلبہ کے لیے باہر جا کر تعلیم حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ ایسے حالات میں غزّہ یونیورسٹی نے مقامی سطح پر جدید تعلیم کی سہولت فراہم کی۔
یہاں مندرجہ ذیل نمایاں فیکلٹیز قائم کی گئیں:
انجینئرنگ اور ٹیکنالوجیکمپیوٹر سائنس اور آئی ٹی
بزنس و معاشیات تعلیم و تدریس
میڈیکل اور پیرامیڈیکل سائنسز سماجی علوم و قانون
یہ تمام شعبے غزہ کی معاشی، سماجی اور تکنیکی ضروریات کا گہرا ادراک رکھتے ہیں۔
غزہ دنیا کے اُن چند علاقوں میں شمار ہوتا ہے جہاں متعدد جنگیں، بمباری، محاصرے اور تباہی روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ ان حالات میں تعلیمی سرگرمیوں کا برقرار رہنا کسی معجزے سے کم نہیں۔
غزّہ یونیورسٹی نے آن لائن کلاسز
ہائبرڈ نظام ہنگامی نصاب رضاکارانہ تدریسی خدمات
کے ذریعے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
یونیورسٹی کئی بار تباہ بھی ہوئی، لیکن ہر بار نئے عزم کے ساتھ دوبارہ کھڑی ہوئی۔ یہی چیز اسے ’’علم کی مزاحمت‘‘ کا استعارہ بناتی ہے۔
غزہ میں سب سے بڑی مشکلوں کی بات کریں تو صاف پانی کی قلت ماحولیاتی مسائل صحت اور غذائیت کے بحران نفسیاتی تکلیف اور ٹراما
زراعت اور وسائل کی کمی ہیں۔ غزّہ یونیورسٹی ان تمام موضوعات پر سائنسی، تکنیکی اور سماجی تحقیق کرتی ہے۔
ریسرچ سینٹرز میں ایسی تحقیقات کی جاتی ہیں جو عالمی معیار کے ساتھ ساتھ غزہ کے مخصوص حالات کے مطابق ہوں۔ مثال کے طور پر:
سمندری پانی کے تحلیے کے کم خرچ طریقے
ٹراما کونسلنگ کے نئے ماڈل
محدود توانائی میں جدید ٹیکنالوجی
یہ تحقیقات صرف علمی مشق نہیں بلکہ مقامی زندگی کی بہتری کا ذریعہ ہیں۔
اس کے علاوہ
غزہ یونیورسٹی فلسطینی زبان، ادب، تاریخ، سیاسیات اور کلچر کے فروغ میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔
یہاں کے مطالعاتِ فلسطین اور عربی ادب کے شعبے فلسطینی نوجوانوں میں تاریخِ قوم کا شعور بیدار کرتے ہیں۔ ثقافتی سرگرمیوں، ادبی سیمینارز، مشاعروں اور مباحثوں کے ذریعے فلسطینی روایت اور مزاحمت کو نئی نسل تک منتقل کیا جاتا ہے۔
اگر بات
غزّہ یونیورسٹی میں خواتین کی شرح داخلہ کی کریں تو یہاں قابلِ فخر ہے۔ یہاں کی لڑکیاں
طب تعلیم ٹیکنالوجی بزنس سماجی علوم
میں نمایاں کارکردگی دکھا رہی ہیں۔
اس طرح یونیورسٹی غزہ کی خواتین کو بااختیار بنانے اور معاشرتی ترقی میں ان کے کردار کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بن رہی ہے۔
یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ غزہ میں سرکاری اداروں، اسپتالوں, میڈیا, بینکنگ، آئی ٹی، انجینئرنگ اور تعلیم کے شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
یہ عمل غزہ کے مجموعی سماجی ڈھانچے کو مضبوط کر رہا ہے اور معاشی استحکام میں بھی مدد دے رہا ہے۔
غزہ یونیورسٹی کو کئی سنگین چیلنجز درپیش ہیں
عمارتوں اور لیبارٹریوں کی تباہی جدید آلات کی عدم فراہمی مالی وسائل کی کمی
اساتذہ اور طلبہ کی شہادت بجلی، پانی اور انٹرنیٹ کا بحران محاصرے کی وجہ سے بیرونی تعاون میں رکاوٹ
اس کے باوجود یونیورسٹی اپنی محدود ترین
استطاعت میں بھی تعلیم کا پرچم بلند رکھے ہوئے ہے۔
آخر میں ہم کہہ سکتے ہیں غزّہ یونیورسٹی محض ایک درسگاہ نہیں، بلکہ امید کی درسگاہ ہے۔
یہ ادارہ دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ
“جب قومیں علم سے جڑ جائیں تو کوئی محاصرہ، کوئی تباہی، کوئی تاریکی ان کے مستقبل کو چھین نہیں سکتی۔”
غزّہ یونیورسٹی آج فلسطینی عوام کی فکری آزادی، سائنسی تحقیق، ثقافتی شناخت اور روشن مستقبل کی علامت بن چکی ہے۔ اس کی جدوجہد نہ صرف غزہ بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک مثال ہے کہ علم کا چراغ سب سے تاریک مقامات میں بھی جل سکتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں