عالمی درجہ حرارت کا بحران: ہیٹ اسٹروک سے نمٹنے میں ٹیکنالوجی اور پالیسی کا کردار
نازش احتشام اعظمی
زمین اس وقت غیر معمولی حدت اور بدلتے موسمی حالات کا سامنا کر رہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی، جو صنعتی سرگرمیوں، جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور شہری آبادیوں کے پھیلاؤ کا نتیجہ ہے، نے دنیا بھر میں گرمی کی شدت کو ناقابلِ برداشت حد تک بڑھا دیا ہے۔
اب یہ مسئلہ کوئی خیالی خطرہ نہیں رہا، بلکہ ایک حقیقی اور فوری عوامی صحت کا بحران بن چکا ہے۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں جو سب سے سنگین مسئلہ سامنے آیا ہے، وہ "ہیٹ اسٹروک" ہے۔ یہ ایک جان لیوا کیفیت ہے جو خاص طور پر ان طبقات کو نشانہ بناتی ہے جو جسمانی طور پر کمزور یا سماجی طور پر محروم ہیں۔ ایسے میں جدید ٹیکنالوجی اور دانشمندانہ پالیسیوں کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔
*ہیٹ اسٹروک: ایک ماحولیاتی بیماری*
ہیٹ اسٹروک گرمی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں سب سے زیادہ خطرناک تصور کی جاتی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان طویل مدت تک شدید گرمی کی زد میں رہتا ہے اور جسم کا درجہ حرارت قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔ اگر ہوا میں نمی بھی زیادہ ہو تو جسم کی قدرتی کولنگ کا نظام ناکام ہو جاتا ہے، اور ہیٹ اسٹروک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اس کی نمایاں علامات میں جسم کا درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو جانا، ذہنی الجھن، دل کی تیز دھڑکن، پسینہ بند ہو جانا، اور بعض اوقات بے ہوشی یا کوما شامل ہیں۔
سب سے زیادہ خطرے میں بزرگ، بچے، کھلی جگہوں پر کام کرنے والے مزدور، دائمی امراض میں مبتلا افراد اور کھلاڑی ہوتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں دنیا کے درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا، افریقہ، مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکہ جیسے خطے بار بار شدید ہیٹ ویوز کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔ ان ہیٹ ویوز کا اثر خاص طور پر ان افراد پر زیادہ ہوتا ہے جو کم آمدنی والے علاقوں میں رہتے ہیں یا جنہیں بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہوتیں۔
*مؤثر حکمتِ عملی: ایک جامع نقطۂ نظر*
ہیٹ اسٹروک جیسے مہلک خطرے سے نمٹنے کے لیے محض کسی ایک پہلو پر انحصار کافی نہیں۔ اس کے لیے ایک ہمہ جہتی حکمت عملی درکار ہے جس میں ٹیکنالوجی، پالیسی سازی، صحت عامہ کا نظام اور عوامی شعور کا کردار شامل ہو۔ حکومتوں، نجی اداروں اور عوامی کمیونٹیز کو مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف انسانی جانیں بچائی جا سکیں بلکہ صحت کے نظام پر بڑھتے دباؤ کو بھی کم کیا جا سکے۔
*ٹیکنالوجی کا کردار*
1. ابتدائی انتباہی نظام اور ہیٹ میپنگ
جدید موسم شناسی کے نظام، سیٹلائٹ ڈیٹا، اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایسے سسٹمز تیار کیے گئے ہیں جو ہیٹ ویوز کی پیشگی اطلاع دے سکتے ہیں۔ یہ انتباہی نظام موبائل ایپس، ریڈیو، ٹی وی اور دیگر ذرائع سے عوام تک فوری پیغام پہنچاتے ہیں، جن کی مدد سے لوگ وقت پر احتیاطی تدابیر اختیار کر سکتے ہیں۔
ہیٹ میپنگ کے ذریعے شہروں میں ان مقامات کی نشاندہی کی جاتی ہے جہاں گرمی کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔ ان معلومات کی بنیاد پر شہری منصوبہ بندی میں تبدیلی کی جا سکتی ہے تاکہ ان علاقوں میں سبزہ، سایہ دار مقامات اور ہوا کی گردش کے لیے جگہیں مہیا کی جا سکیں۔
*2. پہننے کے قابل طبی آلات*
سمارٹ گھڑیاں، فٹنس بینڈز اور دیگر پہننے والے آلات جو جسمانی درجہ حرارت، دل کی دھڑکن اور پانی کی کمی کو مانیٹر کرتے ہیں، ہیٹ اسٹروک کے ابتدائی آثار ظاہر ہوتے ہی خبردار کر دیتے ہیں۔ یہ خاص طور پر ان افراد کے لیے مفید ہیں جو کھلے آسمان تلے کام کرتے ہیں۔ اگر حکومتیں ان آلات کو سبسڈی کے تحت فراہم کریں تو یہ ایک مؤثر صحت عامہ کی پالیسی بن سکتی ہے۔
*3. سمارٹ کولنگ انفراسٹرکچر*
بعض شہروں میں ایسے کولنگ سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں جو شمسی توانائی سے چلتے ہیں۔ اسی طرح، عمارتوں کی چھتوں پر چمکدار رنگ یا آئینہ دار پرت چڑھا کر گرمی کم کی جا رہی ہے۔ عمودی باغات اور ٹھنڈک فراہم کرنے والے تعمیراتی مواد کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔
مزید یہ کہ، ایسے ٹیکسٹائل تیار کیے جا رہے ہیں جو جسم کا درجہ حرارت کم رکھنے میں مدد دیتے ہیں، اور یہ خاص طور پر مزدوروں اور فوجی جوانوں کے لیے نہایت مفید ہیں۔
*4. مصنوعی ذہانت پر مبنی ہنگامی ردعمل*
اے۔آئی۔ AI کی مدد سے پیشگوئی کی جا سکتی ہے کہ کن علاقوں میں کس وقت ہیٹ اسٹروک کا خطرہ زیادہ ہے۔ اس سے حکومتوں کو بروقت اقدامات کرنے میں آسانی ہوتی ہے، جیسے پانی کی فراہمی، موبائل کلینکس اور ایمرجنسی رسپانس ٹیموں کی تعیناتی۔
*پالیسی: حکومتی ذمے داری کا محور*
ٹیکنالوجی تبھی مؤثر ہوتی ہے جب اس کے ساتھ مضبوط اور دوراندیش پالیسی بھی ہو۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ایسے قواعد و ضوابط بنائیں جو ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کو یقینی بنائیں۔
*1. قومی ہیٹ ایکشن پلانز*
بھارت، امریکہ اور دیگر ممالک نے قومی سطح پر ہیٹ ایکشن پلانز (HAPs) متعارف کروائے ہیں۔ ان میں عوامی انتباہات، صحت کے عملے کی تربیت، آفات سے نمٹنے والے اداروں کا تعاون اور کولنگ سینٹرز کا قیام شامل ہے۔ ان منصوبوں کو مقامی ضروریات کے مطابق ڈھالا اور باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کیا جانا چاہیے۔
*2. مزدوروں کا تحفظ*
تعمیراتی، زرعی اور دیگر کھلے میدانوں میں کام کرنے والے افراد کے لیے مخصوص پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ ان میں وقفہ، سایہ، پانی کی دستیابی اور کام کے اوقات میں لچک شامل ہونی چاہیے۔ اگر آجر اپنے مزدوروں کو ٹھنڈک فراہم کرنے والا لباس یا سمارٹ آلات دیں تو حکومت انہیں مراعات دے سکتی ہے۔
*3. شہری منصوبہ بندی میں اصلاحات*
شہر سازی میں درختوں کی شجرکاری، سبز چھتیں، چمکدار فرش اور دیواریں، سایہ دار راہداریاں اور پانی کے فوارے جیسے عناصر کو شامل کیا جائے تاکہ شہری ماحول گرمی کو کم کر سکے۔
*4. صحت کے نظام کی تیاری*
ہسپتالوں اور کلینکس میں ہیٹ ایمرجنسیز سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ عملہ اور ضروری طبی سامان موجود ہونا چاہیے۔ دیہی علاقوں اور کچی آبادیوں میں موبائل ہیلتھ یونٹس تعینات کیے جائیں تاکہ بروقت طبی امداد فراہم کی جا سکے۔
*عوامی شعور اور مقامی سطح پر اقدامات*
جدید ٹیکنالوجی اور عمدہ پالیسی صرف اسی وقت مؤثر ہو سکتی ہے جب عوام ان سے واقف اور ان پر عمل پیرا ہوں۔ ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کی کلید عوامی آگاہی میں ہے۔
*مہمات درج ذیل نکات پر مرکوز ہوں:*
• ہیٹ ایگزاوشن اور ہیٹ اسٹروک کی علامات کی شناخت• زیادہ پانی پینے اور دھوپ میں نکلنے سے پرہیز• ہلکے، کھلے اور سفید رنگ کے لباس کا استعمال
• کولنگ سینٹرز اور دیگر عوامی سہولیات سے فائدہ اٹھانا۔
ایسے علاقے جہاں شرح خواندگی کم ہو یا انٹرنیٹ کی رسائی محدود ہو، وہاں مقامی رہنما، اساتذہ، مساجد، اسکول، کمیونٹی سینٹرز اور رضاکار تنظیمیں عوامی آگاہی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
*عالمی تعاون اور ماحولیاتی انصاف*
ہیٹ ویوز کا مسئلہ عالمی ہے، مگر اس کے اثرات سب پر یکساں نہیں۔ ترقی پذیر اور غریب ممالک، جو ماحولیاتی آلودگی میں سب سے کم کردار ادا کرتے ہیں، سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری کو ماحولیاتی انصاف کے اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اجتماعی اقدامات کرنے چاہئیں۔
ترقی یافتہ ممالک کو چاہیے کہ وہ مالی، تکنیکی اور افرادی امداد فراہم کریں تاکہ کمزور ممالک اپنی استعداد بڑھا سکیں۔ بین الاقوامی اداروں جیسے WHO، UNDP، اور ورلڈ بینک کو چاہیے کہ وہ شراکت داری کو فروغ دیں اور پائیدار ترقی کے لیے وسائل مہیا کریں۔
ہیٹ اسٹروک کو عالمی سطح پر ایک سنجیدہ ماحولیاتی صحت کے خطرے کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے تاکہ اس کے تدارک کے لیے مناسب فنڈنگ اور منصوبہ بندی کی جا سکے۔
*نتیجہ: فوری عمل کی ضرورت*
درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ اب کوئی امکان نہیں بلکہ موجودہ حقیقت ہے۔ ہیٹ اسٹروک جیسے مہلک نتائج سے بچنے کے لیے ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی، پالیسی، طبی نظام اور عوامی شعور جیسے موثر ذرائع موجود ہیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم ان وسائل کو درست وقت پر، منصفانہ انداز میں اور دوراندیشی کے ساتھ بروئے کار لائیں۔
اگر ہم اب بھی غفلت برتیں گے تو آنے والے برسوں میں صورتحال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ مگر اگر ہم متحد ہو کر وقت پر قدم اٹھائیں، تو لاکھوں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں اور ہماری زمین ایک بہتر، محفوظ اور رہنے کے قابل جگہ بن سکتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں