دیوبند:دانیال خان(یو این اے نیوز 15فروری 2020)قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف دیوبند کے عیدگاہ میدان میں بے معیادی دھرنے پر بیٹھی خاتون مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لئے دہلی کی جامیہ ملیہ یونیورسٹی سے آنے والی طالبات نے کہا کہ ہم سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کے خلاف آپ کی تحریک کی حمایت کرنے اور آپ کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر چلنے آئی ہیں۔جامیہ ملیہ یونیورسٹی کی طالبہ اور شاہین باغ مظاہرہ شروع کرانے میں اہم رول ادا کرنے والی نداء پروین اور لدیدہ فرزانہ نے کہا کہ شاہین باغ اور دیوبندکے عیدگاہ میدان میں بیٹھی خاتون مظاہرین نے پورے ملک کی خواتین کو اپنے حق کے تئیں، اپنے ملک اور اپنے دستور کے تئیں جگا دیا ہے،ہم ان خواتین کو سلام کرنے آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم دیوبند کی خواتین کو یہ بتانے کے لئے آئی ہیں کہ وہ خود کو اکیلا نہ سمجھیں پورے ملک کی خواتین ان کے ساتھ ہیں اور ان کے کاز کی حمایت کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون سے صرف مسلمان متاثر نہیں ہوں گے بلکہ ہر کمزور طبقہ متاثر ہوگا۔ اسی لئے ہر طبقہ کو اس قانون کے خلاف میدان میں آنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی لیڈران کی جانب سے انتہائی ہتک آمیز اور اشتعال انگیز بیانات آئے دن منظر عام پر آ رہے ہیں جن سے برادران وطن اور بالخصوص مسلمانوں کے کے جزبات کو جس طرح سے ٹھیس پہنچائی جا رہی ہے وہ لائق صد مذمت اور اور نا قابل معافی ہے،انہوں نے کہا کہ حکومت ایسے لیڈران پر قدغن لگانے کے بجائے ان کی پشت پناہی کر رہی ہے اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ملک کا بیڑا غرق ہونا یقینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ملک کے عوام ایک غیر آئینی قانون کے خلاف سڑکوں پر ہیں اور مائیں،بہنیں اور بچے انصاف کی آواز اٹھا رہے ہیں لیکن حکومت ہٹ دھرمی اور ضد پر تلی ہوئی ہے وہ مظاہرین سے بات کرنے کو بھی تیار نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت دستور کے بنیادی ڈھانچہ کو بگاڑنا چاہتی ہے جو ملک کے شہریوں کے دستوری حقوق پر ایک کاری ضرب ہے۔
جامیہ ملیہ یونیورسٹی کی طالبہ و اسٹوڈینٹ لیڈر عائشہ رنانے کہا کہ تین طلاق، دفعہ 370 کے خاتمے، بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے غیر منصفانہ فیصلہ کے خلاف مسلم خواتین سڑکوں پر نہیں اتریں، حالانکہ تین طلاق مسلم عورتوں کے گھر برباد کرنے کے جیسا قانون ہے، لیکن اب معاملہ ملک کا ہے، ہندوستانی آئین کی حفاظت کا ہے، سماجی ہم آہنگی کا ہے تو مسلم خواتین سڑکوں پر اتری ہیں اور اپنے حق کو لے کر رہیں گی۔ انہوں نے موجودہ حکومت کی مطلق العنانیت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کوئی حکومت کبھی مستقل نہیں رہتی اور اگر یہ حکومت مستقبل رہنے کا خواب دیکھ رہی ہے تو سخت مغالطہ میں ہے۔ اس کو بھی جانا ہوگا، کیونکہ اب ہندوستانی عوام جاگ چکے ہیں۔انہوں نے مرکزی حکومت کی بے حسی کی طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا کہ یہاں خواتین ستیہ گرہ پر بیٹھی ہیں لیکن حکومت کا کوئی نمائندہ ان کی کھوج خبر لینے نہیں آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی حادثہ پیش آجائے تو پھر کس کی ذمہ داری ہوگی۔
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کہیں مظاہرہ ہورہا ہو، یا بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوں اور حکومت اپنا نمائندہ نہ بھیجے۔ انہوں نے حکومت کے درمیان تال میل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے مودی امت شاہ ایک رائے قائم کرلیں، انہوں نے ملک کو مذاق کا موضوع بنا دیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ جس طرح یوگی اترپردیش کو تباہ کر رہا ہے اسی طرح مودی ملک کو تباہ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسوقت ثابت قدم ہو کر اس کا مقابلہ نہیں کیا تو پھر یہ موقع کبھی نہیں ملے گا۔عائشہ رنانے مزید کہا کہ موجودہ حکومت سیکولر اصولوں پر چلنے کے بجائے ایک ایسا قانون لیکر آئی ہے جس سے ملک میں نفرت اور انارکی کا ماحول پیدا ہو جائے،حکومت ملک کو بے روزگاری،بھکمری اور اقتصادی بدحالی سے نکالنے کے بجائے متنازع قوانین لاکر ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے کہ ملک ٹوٹ جائے اور برباد ہو جائے لیکن ملک کی عوام ایسا نہیں ہونے دیگی اس حکومت کو ان قوانین کو واپس لینا ہوگا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں