تازہ ترین

اتوار، 24 اگست، 2025

اردو صحافت کا ملک کی ترقی اور پیش رفت میں کردار

اردو صحافت کا ملک کی ترقی اور پیش رفت میں کردار
نازش احتشام اعظمی 

اردو صحافت کی تاریخ، دراصل ہندوستان کی اجتماعی شعور کی تاریخ ہے۔ یہ محض اخباروں اور رسالوں کی داستان نہیں بلکہ اس پورے عہد کی فکری بیداری کا مرقع ہے جس نے غلامی کی زنجیروں کو توڑا، قوم کو اپنے وجود کا احساس دلایا اور جدید ہندوستان کی بنیاد رکھی۔ اردو صحافت، اپنی ہمہ جہتی اور وسعتِ دامن کے سبب صرف خبروں کی ناقل نہیں رہی بلکہ خیالات و افکار کی ترجمان، قوم کے جذبات کی نباض اور سیاسی و سماجی شعور کی معمار بھی بنی۔ برصغیر کی وسیع و عریض سرزمین پر جب انگریز سامراج اپنی جڑیں مضبوط کررہا تھا، اس وقت اردو صحافت نے عوام کو بیدار کیا اور انہیں احساسِ غلامی سے نجات کی طرف مائل کیا

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اردو زبان نے ہندوستان کی تمام برادریوں—ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی—کو ایک لڑی میں پرونے کا کام کیا اور صحافت اس رشتے کو مزید گہرا کرتی رہی۔ پہلا اردو اخبار ایک ہندو برہمن نے شائع کیا، جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ زبان کسی ایک طبقے کی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی مشترکہ میراث ہے۔ یوں اردو صحافت ہندوستانی عوام کی روح کی صدائے بازگشت ہے، جو آج بھی قومی ترقی اور فکری افزائش میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔


*اردو صحافت کی ابتدائی جڑیں*
اردو صحافت کی بنیاد 1822ء میں کلکتہ سے شائع ہونے والے اخبار "جام جہاں نما" سے پڑی۔ اگرچہ یہ ابتدا فارسی میں ہوئی مگر بہت جلد اردو نے اپنی جگہ بنالی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے برصغیر میں صحافتی سرگرمیوں کا محور بن گئی۔ اس کے پندرہ برس بعد 1837ء میں "دہلی اردو اخبار" منظر عام پر آیا جسے مولوی محمد باقر نے جاری کیا۔ یہی اخبار آگے چل کر تحریکِ آزادی کی ایک عظیم الشان آواز ثابت ہوا اور اس کے ایڈیٹر کو 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران انگریزوں نے توپ کے دہانے پر باندھ کر شہید کیا۔

یوں اردو صحافت کی تاریخ خون اور قربانی سے لکھی گئی ہے۔ انیسویں صدی کے وسط تک جب ہندوستان سیاسی و سماجی انتشار کا شکار تھا، اردو اخبارات عوامی رائے کی تشکیل اور اصلاحی تحریکوں کے فروغ کا ذریعہ بنے۔ "اودھ اخبار" لکھنؤ سے نکلتا تھا اور اپنے ادبی و سیاسی مضامین کے سبب بے حد مقبول ہوا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب صحافت نے محض خبر رسانی سے آگے بڑھ کر عوام کی زبان بننے کا فریضہ سنبھالا۔

*تحریک آزادی میں اردو صحافت کا کردار*
اردو صحافت کی سب سے تابناک اور درخشندہ پہچان اس کا تحریک آزادی میں کردار ہے۔ انگریز سامراج کے خلاف یہ اخبارات ہی تھے جو عوام کے دلوں میں بغاوت کی آگ بھڑکاتے اور ان کے اندر آزادی کی تڑپ پیدا کرتے۔
*مولانا محمد باقر کا دہلی اردو اخبار:* 1857ء میں اس اخبار نے برطانوی مظالم کے خلاف ایسی بےباک تحریریں شائع کیں کہ ایڈیٹر کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یہ قربانی اردو صحافت کے ماتھے کا جھومر ہے۔

*مولانا ظفر علی خان کا زمیندار:* اگرچہ لاہور سے نکلتا تھا لیکن پورے ہندوستان میں اس کی گونج سنائی دیتی تھی۔ اس کے اداریے عوامی جوش و خروش کو مہمیز دیتے اور سیاسی شعور بیدار کرتے۔

*مولانا ابوالکلام آزاد کا الہلال اور البلاغ:* یہ اخبارات محض صحافت نہیں بلکہ فکری انقلاب کی آواز تھے۔ ان میں اسلامی احیاء، قومی اتحاد اور انگریز مخالف جذبہ ایک ساتھ جھلکتا تھا۔ انگریز حکومت نے بارہا انہیں بند کیا مگر مولانا کے قلم کی گھن گرج نے پورے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا۔

*مولانا محمد علی جوہر کا کامریڈ :* ان میں ایسی بےباک تحریریں شائع ہوئیں جنہوں نے ہندوستانی عوام کو متحد کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔
یوں آزادی کی جنگ میں اردو صحافت ایک ہتھیار تھی جس نے بندوق کے بغیر معرکہ آرائی کی۔ یہ اخبارات قلعۂ آزادی کے مینار تھے جن کی گونج سے عوامی بیداری کی لہریں اٹھی اور غلامی کی زنجیریں ڈھیلی ہوئیں۔

*عوامی شعور اور سماجی اصلاحات*
اردو صحافت نے صرف سیاست تک اپنے دائرے کو محدود نہیں رکھا بلکہ سماجی اصلاحات کی تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

*تعلیم:* اخبارات نے قوم کو تعلیم کی اہمیت بتائی، مدارس و اسکول قائم کرنے پر زور دیا اور خواتین کی تعلیم کے دروازے کھولے۔

*اصلاح معاشرت:* رسالہ "تہذیب الاخلاق" (سر سید احمد خان) نے ہندوستانی معاشرے میں علمی و فکری بیداری پیدا کی، جہالت، توہم پرستی اور سماجی برائیوں کے خلاف محاذ بنایا۔

*ہندو مسلم اتحاد:* اردو اخبارات میں اکثر مضامین ایسے شائع ہوتے جن میں دونوں برادریوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کی جاتی۔ یہ صحافت کی وسیع النظری اور شمولیت پسندی کا روشن ثبوت ہے۔

*ادبی اور فکری خدمات*
اردو صحافت نے ادب و ثقافت کے فروغ میں بھی یادگار کردار ادا کیا۔ اخبارات کے ادبی صفحات نے نئی شاعری اور افسانہ نگاری کو فروغ دیا۔ فنون، ادب لطیف، نقوش جیسے رسائل نے اردو ادب کو ایک نئی جہت بخشی۔

اس کے علاوہ اردو صحافت نے فلسفیانہ اور فکری مباحث کو بھی عوامی سطح پر عام کیا۔ سیاست، تاریخ، فلسفہ، سائنس اور مذہب پر لکھے گئے مضامین نے قوم کے ذہنی ارتقا میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یوں اردو صحافت محض خبروں کا دفتر نہ رہی بلکہ دانش و حکمت کا خزانہ ثابت ہوئی۔

*ہندوستان کی تعمیر نو میں اردو صحافت*
آزادی کے بعد بھی اردو صحافت ہندوستان کی ترقی میں شریکِ سفر رہی۔ جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے، عوام کو حکومت کی پالیسیوں سے باخبر رکھنے اور اقلیتوں کے مسائل اجاگر کرنے میں اس نے فعال کردار ادا کیا۔

اردو اخبارات جیسے سیاست (حیدرآباد)، منصف، رہنمائے دکن، انقلاب (ممبئی) اور دیگر نے نہ صرف خبروں کی فراہمی کی بلکہ اقلیتوں کے لیے انصاف، تعلیم اور روزگار کے مواقع کے حصول میں آواز بلند کی۔ آج بھی جنوبی ہند سے شمالی ہند تک اردو اخبارات عوامی مسائل کو اجاگر کرنے اور جمہوری اقدار کو زندہ رکھنے میں مصروفِ عمل ہیں۔

*چیلنجز*
جدید دور میں اردو صحافت کو کئی چیلنجز درپیش ہیں:

*1. ڈیجیٹل انقلاب:* انگریزی اور ہندی میڈیا کے دباؤ کے سبب اردو اخبارات اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
*2. معاشی مشکلات:* اشتہارات کی کمی اور اشاعتی اخراجات میں اضافہ بڑی رکاوٹ ہے۔
*3. سنسنی خیزی و زرد صحافت:* معیار پر سمجھوتہ کرکے محض مقبولیت کے حصول نے اردو صحافت کو نقصان پہنچایا ہے۔

*4. قومی سطح پر پالیسی کی کمی:* اردو زبان کو وہ سرکاری سرپرستی حاصل نہیں جو ہندی یا انگریزی کو ہے۔

*مستقبل کی جہات*
مستقبل میں اردو صحافت کے سامنے امکانات کی نئی دنیا کھلی ہوئی ہے۔ اگر یہ زبان ڈیجیٹل میڈیا سے ہم آہنگ ہو، آن لائن پلیٹ فارم اپنائے اور نوجوان نسل کو اپنی طرف متوجہ کرے تو اس کا دائرہ مزید وسیع ہوسکتا ہے۔ اردو پوائنٹ، بی بی سی اردو، اور جنگل نیوز جیسی ویب سائٹس اس بات کی مثال ہیں کہ اردو قارئین آج بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں اور علمی و تحقیقی مواد پڑھنے کے متمنی ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو صحافت اپنی سنجیدگی، غیر جانبداری اور اخلاقی قدروں کو برقرار رکھتے ہوئے نئے تقاضوں کے مطابق ڈھل جائے۔ یوں یہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں اردو پڑھنے والوں کے لیے ایک موثر آواز بن سکتی ہے۔

*نتیجہ*
اردو صحافت ہندوستان کی ترقی اور پیش رفت میں محض ایک شریک نہیں بلکہ ایک رہنما قوت ہے۔ اس نے آزادی کی جنگ میں عوامی شعور جگایا، سماجی اصلاحات کو فروغ دیا، ادب و ثقافت کو نئی جہت دی اور آج بھی جمہوریت کی بقا اور عوامی مسائل کے حل میں سرگرمِ عمل ہے۔ اگرچہ اسے کئی چیلنجز کا سامنا ہے مگر اس کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ وقت کی آندھیاں بھی اسے متزلزل نہیں کرسکتیں۔

یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اردو صحافت ایک دریائے حیات ہے جس کی روانی ہندوستان کے فکری، سماجی اور ثقافتی منظرنامے کو سیراب کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad