فلسطین اور خطے کی نئی صورتِ حال کا ایک جامع جائزہ
ترجمہ وتلخیص
دانش اصلاحی
فلسطین اس وقت اپنی تاریخ کے ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ غزہ میں مسلسل بمباری، تباہی اور مکمل محاصرے کے باوجود فلسطینی مزاحمت قائم ہے اور اسرائیلی فوج شدید نفسیاتی و اخلاقی بحران کا شکار نظر آتی ہے۔ دوسری طرف مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کو غیر مؤثر کرنے کی منظم کوشش جاری ہے تاکہ فلسطینیوں کے سیاسی ڈھانچے کو توڑ کر زمین پر قبضے اور آہستہ آہستہ جبری بے دخلی کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔ یہ محض زمین پر قبضے کا معاملہ نہیں بلکہ فلسطینی عوام کی اجتماعی سیاسی شناخت کو مٹانے کی کھلی کوشش ہے۔
بین الاقوامی تناظر
عالمی سطح پر اسرائیل پر نسل کشی کے الزامات لگ رہے ہیں اور متعدد رپورٹس اس کے اقدامات کو بے نقاب کر رہی ہیں، تاہم امریکہ کی غیر مشروط حمایت اسرائیل کو کسی بھی عملی رکاوٹ سے محفوظ رکھے ہوئے ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل اپنی اخلاقی ساکھ کھوتے ہوئے بھی اپنے توسیعی منصوبے پر بلا روک ٹوک عمل پیرا ہے۔
خطے کی حساسیت اور اردن کا دباؤ
فلسطین کی صورتِ حال کا سب سے زیادہ اثر براہِ راست اردن پر پڑ رہا ہے۔ عمان کھل کر آہستہ آہستہ بے دخلی اور سیاسی سودے بازی کو رد کر رہا ہے، لیکن علاقائی اور بین الاقوامی دباؤ اسے مشکل فیصلوں پر مجبور کر رہا ہے۔ اردن کے لیے فلسطین محض ایک ہمسایہ مسئلہ نہیں بلکہ براہِ راست قومی سلامتی اور وجود کا سوال ہے۔
عرب دنیا کی بکھری ہوئی حالت
مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن اسرائیل کے حق میں جھکتا جا رہا ہے۔ شام طویل خانہ جنگی کے نتیجے میں کمزور ہے، لبنان سیاسی و اقتصادی اور اجتماعی طور پر مفلوج ہے، عراق اندرونی تقسیم کا شکار ہے، جبکہ امریکہ شدت پسند گروہوں کو فعال رکھ کر خطے کو مزید غیر مستحکم کر رہا ہے۔ اس خلا کو اسرائیل آہستہ آہستہ پُر کر رہا ہے۔
اہم عرب ریاستیں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر عملی طور پر خاموش ہیں۔ ان کی بے عملی اور سردمہری نے فلسطینی عوام کو مزید تنہا کر دیا ہے اور اسرائیل کے منصوبوں کو آسان بنا دیا ہے۔
عوامی سطح پر امکان
اگرچہ عرب عوام معاشی دباؤ، روزگار کے مسائل اور پابند میڈیا کے زیرِ اثر ہیں، لیکن ان کے اجتماعی حافظے میں فلسطینی مزاحمت کی یاد اب بھی زندہ ہے۔ یہی یاد کسی بھی وقت ایک بڑے عوامی دباؤ میں بدل سکتی ہے جو خطے کے توازن کو یکسر بدل دے۔
نتیجہ
مجموعی طور پر اسرائیل اس وقت شدید اخلاقی دباؤ میں ہے، لیکن خطے کی بکھری ہوئی سیاسی صورتِ حال اور عرب قیادت کی بے عملی نے اسے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ اگر عالمی و علاقائی سطح پر کوئی بامعنی اتحاد اور عوامی تحریک نہ اٹھی تو پلڑا اسرائیل کے حق میں جھکتا رہے گا، چاہے اسے بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی کیوں نہ سہنی پڑے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں