اردو زبان اور جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی
نازش احتشام اعظمی
اردو، وہ دلنواز اور دلنشیں زبان جو اپنی مٹھاس، آہنگ، نرمی اور جاذبیت کی بنا پر صدیوں سے برصغیر کے کروڑوں دلوں پر حکمرانی کرتی آئی ہے، آج ایک نئے دوراہے پر کھڑی ہے۔ یہ زبان جس نے کبھی درباروں میں شائستگی کی صورت اختیار کی، کوچہ و بازار میں عوامی بول چال کا پیرہن اوڑھا، شعری محفلوں میں درد و سوز کی ترجمان بنی اور انقلابی ترانوں میں مزاحمت کا علم بلند کیا، وہی زبان آج ڈیجیٹل دنیا کی اسکرینوں پر جلوہ گر ہے۔
سوال مگر یہ ہے کہ کیا انفارمیشن ٹیکنالوجی اردو کو اس کے اصل حسن و عظمت کے ساتھ زندہ رکھ پائے گی یا یہ بھی انگریزی و چینی زبانوں کے سیلاب میں بہہ کر محض حاشیے کی زبان بن کر رہ جائے گی؟ اس سوال کا جواب محض جذبات سے نہیں بلکہ عقل، تدبر اور عملی کوششوں سے دینا ہوگا۔
اردو کا سفر محض چند صدیوں پر محیط نہیں بلکہ تہذیبی آمیزش کا ایک طویل قصہ ہے۔ قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں جب ترک و مغل فاتحین فارسی زبان ساتھ لائے، جب مقامی ہندوی بولیاں اپنی روزمرہ کی شیرینی کے ساتھ بست و کشاد پیدا کر رہی تھیں، اور جب تہذیبوں کا میل جول ایک نئی صورت گری میں مصروف تھا، تبھی ایک ایسی زبان نے جنم لیا جسے ابتدا میں لشکری کہا گیا مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ اردو کے نام سے پہچانی جانے لگی۔
یہ زبان محض اظہار کا وسیلہ نہ رہی بلکہ ایک زندہ تہذیب، ایک بھرپور ثقافت اور ایک نازک جمالیاتی احساس کی صورت اختیار کر گئی۔ اس کا رسم الخط، نستعلیق، اپنی پیچیدگی اور حسن میں دنیا کی کسی بھی تحریری شکل سے کم نہیں۔ یہ محض لکھائی نہیں بلکہ مصوری ہے، یہ صرف الفاظ نہیں بلکہ ایک رقصاں جمالیات ہے جس نے اردو کو کتابت سے لے کر خطاطی تک ہر سطح پر ممتاز کیا۔
اردو کی ادبی روایت میں غالب کا فکری کمال، اقبال کا انقلابی پیام اور فیض کا انسانی درد شامل ہے۔ یہ زبان کبھی عشق کی نازکی بیان کرتی ہے تو کبھی آزادی کے نعرے بلند کرتی ہے۔ یہ زبان اپنے اندر ماضی کی تہذیبی عظمت اور مستقبل کی روشن اُمید کو یکجا کیے ہوئے ہے۔ مگر وقت کا پہیہ ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ اردو جو کبھی مخطوطات اور کتابوں کے ذریعے زندہ رہی، آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے نئی دنیا میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ داخلہ اردو کے لیے مواقع بھی لایا ہے اور مشکلات بھی۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سب سے پہلے اردو کو اشاعت اور رسائی کے میدان میں نئی زندگی دی۔ ماضی میں اردو کے کلاسیکی ذخیرے تک رسائی محدود تھی، مگر آج ریختہ جیسے پلیٹ فارم نے غالب سے فیض تک اور میر سے جگر تک ہر شاعر اور ادیب کو ایک کلک کی مسافت پر رکھ دیا ہے۔ مشاعروں کی وہ محفلیں جو کبھی صرف لکھنؤ اور دہلی میں منعقد ہوتی تھیں، اب یوٹیوب اور انسٹاگرام پر عالمی سطح پر منعقد ہو رہی ہیں۔
ہیش ٹیگز کی دنیا میں اردو شاعری نے ایک نئی محفل بسا لی ہے جہاں برطانیہ، امریکہ اور خلیج کے نوجوان بھی اسی طرح داد دیتے ہیں جیسے کبھی محفلوں میں "واہ واہ" کی صدائیں گونجا کرتی تھیں۔
یہی نہیں، آڈیو بکس اور پوڈکاسٹس نے اردو کے سماعتی حسن کو محفوظ کیا ہے۔ آج کوئی شخص گاڑی چلاتے ہوئے اقبال کے خطبات سن سکتا ہے، کوئی نوجوان رات کے سنّاٹے میں فیض کے اشعار کو اپنی سماعت میں انڈیل سکتا ہے۔ یہ سہولت ماضی میں ممکن نہ تھی۔
اردو کی ترقی میں ٹیکنالوجی کا دوسرا بڑا اثر زبان کی پروسیسنگ اور سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ میں ہے۔ ان پیج نے اردو کو ڈیجیٹل نستعلیق میں زندہ کیا۔ موبائل کی بورڈز نے اردو میں لکھنا آسان بنایا۔ گوگل ٹرانسلیٹ نے اگرچہ مکمل کمال حاصل نہیں کیا مگر زبانوں کے درمیان پل بنایا۔
مصنوعی ذہانت اب اس سمت بڑھ رہی ہے کہ اردو کو اسپیچ ریکگنیشن اور ٹیکسٹ ٹو اسپیچ کے ذریعے نئی دنیا سے ہم آہنگ کر دے۔ مگر یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ ترقی اردو کے وقار اور نزاکت کو قائم رکھتے ہوئے آگے بڑھے گی یا سہولت کی خاطر اس کے جمالیاتی خدوخال کو قربان کر دیا جائے گا؟
تعلیم کے میدان میں بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اردو کو ایک نیا افق دیا ہے۔ ڈوولنگو جیسی ایپس نے غیر ملکی طلبہ کو اردو سکھانا آسان بنا دیا۔ یوٹیوب پر اردو گرامر کے ہزاروں لیکچر دستیاب ہیں۔ اردو ڈیجیٹل لائبریری نے ہزاروں کتابیں ہر اس شخص کی پہنچ میں دے دیں جو پہلے کتابوں کی دکانوں اور لائبریریوں تک رسائی نہیں رکھتا تھا۔ گویا اب ایک غریب طالب علم بھی محض ایک اسمارٹ فون کے ذریعے غالب اور اقبال کو پڑھ سکتا ہے۔ یہ تبدیلی اردو کو محض ایک زبان نہیں بلکہ علم و آگہی کا سرمایہ بنا رہی ہے۔
ورثے کے تحفظ میں بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اردو کی خدمت کی ہے۔ برٹش لائبریری ہو یا نیشنل ڈیجیٹل لائبریری آف انڈیا، نایاب مخطوطات اب ڈیجیٹل شکل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو چکے ہیں۔ یوں جسمانی زوال کا خوف جاتا رہا اور آنے والی نسلیں ان علمی ذخائر سے فیض یاب ہو سکیں گی۔
لیکن یہ تصویر صرف خوش رنگ نہیں۔ اردو کو ڈیجیٹل دنیا میں کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ سب سے پہلا مسئلہ رسم الخط کا ہے۔ نستعلیق کی نزاکتیں اور پیچیدگیاں ڈیجیٹل رینڈرنگ کے لیے دشواری پیدا کرتی ہیں۔ زیادہ تر پلیٹ فارمز نسخ کو اپناتے ہیں جس سے اردو کا اصل حسن گہنا جاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک مصور کی رنگین تصویروں کو سادہ سیاہ و سفید خاکے میں بدل دیا جائے۔ اردو کا حسن اس کے خطاطی کے اسلوب میں ہے، اگر یہ قربان ہو جائے تو زبان کی روح کو نقصان پہنچے گا۔
دوسری رکاوٹ محدود ڈیجیٹل انفراسٹرکچر ہے۔ اردو دنیا کی بڑی زبانوں میں شامل ہے مگر ویب پر اس کا مواد صرف ۰.۱ فیصد ہے۔ مشینی ترجمہ اور این ایل پی ٹولز میں بھی اردو پیچھے ہے۔ جہاں انگریزی میں چیٹ بوٹس انسانی لہجے کی مشابہت رکھتے ہیں، وہاں اردو کے لیے ابھی ابتدائی سافٹ ویئر بھی دستیاب نہیں۔ یہ ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے کہ سو ملین سے زائد بولنے والوں کی زبان کو عالمی ڈیجیٹل گفتگو میں جگہ نہ ملے؟
تیسری رکاوٹ ڈیجیٹل تقسیم ہے۔ اردو بولنے والے علاقوں میں دیہی اکثریت انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز سے محروم ہے۔ جب تک یہ سہولت عام نہ ہوگی، اردو کی ڈیجیٹل ترقی محدود ہی رہے گی۔
چوتھا چیلنج ثقافتی ہے۔ انگریزی کی بالادستی نے نئی نسل کو رومن اردو اور انگریزی پر مائل کر دیا ہے۔ یہ رجحان اگر یونہی بڑھتا رہا تو اردو کی اصل ساخت اور تہذیبی جڑیں کمزور ہو جائیں گی۔
ان تمام مشکلات کے باوجود امید کا دامن چھوڑنا درست نہیں۔ اردو کا مستقبل اب بھی تابناک ہو سکتا ہے بشرطیکہ ہم اجتماعی کوشش کریں۔ ہمیں سب سے پہلے اردو کے لیے جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ نستعلیق فونٹس اور مضبوط رینڈرنگ سسٹمز پر کام ضروری ہے تاکہ اردو اپنا جمالیاتی وقار نہ کھوئے۔ دوسری ضرورت یہ ہے کہ حکومتیں اور غیر سرکاری ادارے اردو بولنے والے علاقوں میں ڈیجیٹل خواندگی کو فروغ دیں تاکہ عام انسان بھی اردو کے ڈیجیٹل مواد تک رسائی حاصل کر سکے۔ تیسری ضرورت یہ ہے کہ اعلیٰ معیار کا اردو مواد تخلیق کیا جائے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ اردو زندہ رہے تو اسے صرف ماضی کی یادوں کے سہارے زندہ نہیں رکھا جا سکتا بلکہ جدید دور کی زبان بنانا ہوگا۔ بلاگز، وی لاگز، پوڈکاسٹس، ای بکس—یہ سب اردو کے نئے محاذ ہیں۔
اہم ترین پہلو نستعلیق کا تحفظ ہے۔ یہ محض ایک خط نہیں بلکہ اردو کی روح ہے۔ اوپن سورس لائبریریاں اور ڈویلپر ٹولز کے ذریعے نستعلیق کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر معیار کے ساتھ زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اردو کمیونٹی کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ہم سب وکی پیڈیا، ڈیجیٹل لائبریریوں اور آن لائن پلیٹ فارمز پر اردو کا حصہ بڑھائیں گے تو یہ زبان عالمی سطح پر جگہ بنا سکے گی۔
نتیجتاً کہا جا سکتا ہے کہ اردو آج ایک تاریخی موڑ پر کھڑی ہے۔ ایک طرف اس کے پیچھے صدیوں کا ادبی ورثہ ہے، دوسری طرف آگے ڈیجیٹل دنیا کی وسعتیں ہیں۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے محض ماضی کی یادگار رہنے دیتے ہیں یا اسے مستقبل کی زبان بناتے ہیں۔ اگر ہم نے بے عملی دکھائی تو اردو وقت کے سیلاب میں بہہ جائے گی۔
لیکن اگر ہم نے سنجیدہ قدم اٹھایا تو یہی زبان جو عشق و محبت کی زبان ہے، مزاحمت و حریت کی زبان ہے، شاعری اور فلسفے کی زبان ہے، آنے والے دور میں ڈیجیٹل دنیا کی بھی زبان بنے گی۔ اور تب اردو محض ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیبی پیغام ہوگی جو دنیا کو بتائے گی کہ زبانیں محض الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتیں بلکہ ایک قوم کی روح اور اس کی شناخت ہوتی ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں