تعلیمی بیداری مہمات اور گاؤں کے مکاتب کی صورتِ حال: ایک جائزہ
فیض الرحمان اقدس اصلاحی
اگر کبھی قوموں کی قسمتیں ان کے اسکولوں میں لکھی جاتیں تو ہمارا دیہی معاشرہ، آج روشن مستقبل کی نوید لے کر اُفق پر طلوع ہوتا۔ لیکن افسوس کہ ہمارا دیہاتی ہندوستان آج بھی شبِ جہالت کی اس گھاٹی میں بھٹک رہا ہے جہاں علم ایک مقدّس خواب تو ہے، مگر بیداری کا لمحہ نہیں۔ تعلیم کا سورج ابھی ان چھوٹی بستیوں کی دیواروں پر پوری طرح نہیں چمکا، جہاں مٹی سے لت پت بچے خواب تو دیکھتے ہیں، مگر تعبیر کا دروازہ بند پاتے ہیں۔
یہ مضمون اسی بند دروازے پر ایک دستک ہے — ایسی دستک جو صرف علم کی اپیل نہیں کرتی، بلکہ قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے۔ یہ اس صحیفۂ فکر کی تمہید ہے، جو مکتب کے فرشِ خاکی سے اُٹھتی ہے اور قومی تعلیمی پالیسوں کے آسمان تک رسائی چاہتی ہے۔
مکتب: وہ چراغ جسے ہوا نہیں چھو سکتی تھی مکتب… لفظ چھوٹا ہے، مگر اس کے دامن میں وہ روحانی عظمت ہے جو کسی یونیورسٹی کی بلند عمارتوں میں بھی نظر نہیں آتی۔ یہ مسجد کے پہلو میں ایک فرشِ خاکی پر بیٹھے استاد اور معصوم شاگرد کا وہ تعلق ہے، جس کی بنیاد ایمان، اخلاق، ادب اور تربیت پر رکھی گئی۔
مگر آج سوال یہ ہے کہ:
وہ مکتب، جو بستی کا چراغ تھا، اب کیوں بجھ رہا ہے؟ وہ درس گاہ، جہاں علم و حکمت کی پہلی سیڑھی چڑھائی جاتی تھی، آج کیوں شکستہ دیواروں میں دم توڑ رہی ہے؟
جواب واضح ہے — ہم نے ترقی کا مفہوم عمارتوں، سیمیناروں اور ڈگریوں تک محدود کر دیا۔ تربیت، کردار، تہذیب، اور روحانیت کو ہم نے پرانے دور کی باقیات سمجھ کر جھاڑ پونچھ کر رکھ دیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے زوال نے آغاز کیا، اور گاؤں کے مکاتب زوال کی پہچان بن گئے۔
تعلیمی بیداری مہمات:
نعرہ بلند، عمل سست یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ حکومتیں اور تنظیمیں دیہی تعلیم کے فروغ کے لیے ’تعلیمی بیداری مہمات‘ چلا رہی ہیں۔ اسکیمیں بن رہی ہیں، کتابیں بانٹی جا رہی ہیں، مہماتی پرچے چھپ رہے ہیں، بینر لگ رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ:
کیا یہ سب کچھ روح میں تبدیلی لا رہا ہے؟ کیا یہ بیداری محض تعداد بڑھانے کا ہنر ہے، یا ضمیر جگانے کی کوئی تحریک بھی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ ان مہمات میں "مکتب" کا کوئی نمایاں کردار متعین نہیں۔ جب کہ دیہی ہندوستان میں جہاں آج بھی لاکھوں بچوں کی تعلیم کی پہلی منزل یہی مکتب ہے، وہاں ان اداروں کو تعلیمی پالیسوں میں محض ایک غیر متعلق سی حاشیہ آرائی بنا دیا گیا ہے۔
*مکاتب کی موجودہ حالت:*
اساتذہ کی کمی: ایسے افراد جو تدریس کے اسرار و رموز سے ناآشنا ہیں، ان کی ذمہ داری پر مکتب چلتا ہے۔ عمارتیں خستہ، سہولیات ناپید: کچھ مکاتب تو محض مسجد کے ایک گوشے میں چلتے ہیں، جہاں نہ روشنی، نہ فرنیچر، نہ بیت الخلا۔ نصاب محدود: صرف حفظ اور دینی احکام، جدید علوم کا کہیں ذکر نہیں۔ حکومتی بے اعتنائی: کوئی فنڈنگ، کوئی تربیتی ورکشاپ، کوئی ادارہ جاتی تعاون نہیں۔
معاشی دباؤ: والدین، جو دو وقت کی روٹی کے لیے جتن کرتے ہیں، بچوں کو اسکول کی بجائے کھیتوں میں بھیجتے ہیں۔
یہ سب نہ صرف مکاتب کے وجود کو متزلزل کر رہے ہیں بلکہ ایک ایسی نسل پروان چڑھ رہی ہے جو نہ پوری طرح دینی تعلیم یافتہ ہے، نہ عصری تقاضوں سے آشنا۔ گویا ہم ایک ایسی دیوار کھڑی کر رہے ہیں جس کی اینٹیں دونوں طرف سے کھوکھلی ہیں۔
تعلیم کا اسلامی تصور اور مکاتب کی مرکزی حیثیت یہاں ایک منطقی سوال پیدا ہوتا ہے — کیا مکاتب اب غیر ضروری ہو چکے ہیں؟
جواب ہے: نہیں! بلکہ آج کے دور میں مکاتب کی افادیت اور بڑھ گئی ہے۔
اسلامی تصورِ تعلیم میں علم کا مقصد محض معلومات کا انبار جمع کرنا نہیں، بلکہ فکر، بصیرت، اخلاق اور تزکیۂ نفس ہے۔ یہی وہ مقاصد ہیں جو مکتب کی روح میں پیوست ہیں۔ اگر ہم سید مودودیؒ کی تعبیر کو اپنائیں تو تعلیم وہ عمل ہے جو فرد کے شعورِ عبدیت کو بیدار کرے اور اسے معاشرے میں ایک صالح عنصر بنائے۔ ایسے میں مکاتب کی اہمیت مسلم ہے، بشرطیکہ ہم انہیں دوبارہ احیا کریں، جدید سانچوں میں ڈھالیں، اور ان کی روشنی کو پھیلنے دیں۔
*اصلاحات:* نئی زندگی کا آغاز اب سوال یہ ہے کہ اس انحطاط سے مکاتب کو نکالنے کا راستہ کیا ہے؟
*1. نصاب میں توازن:*
قرآن، حدیث، اخلاقیات کے ساتھ ساتھ سائنس، ریاضی، اور زبانیں بھی پڑھائی جائیں تاکہ طالبعلم یک جہتی کی دنیا سے نکل کر ہمہ جہتی کی دنیا میں قدم رکھے۔
*2. اساتذہ کی تربیت:*
اساتذہ صرف معلومات پہنچانے والے نہیں، بلکہ فکر بیدار کرنے والے ہوں۔ ان کے لیے قلیل مدتی کورسز، تربیتی ورکشاپس، اور وظیفے لازمی کیے جائیں۔
*3. ادارہ جاتی معاونت:*
سرکاری اسکیمیں مکاتب کو بھی شامل کریں، مالی و تکنیکی معاونت فراہم کریں، مگر مذہبی خودمختاری کو مجروح نہ کریں۔
*4. خواتین اساتذہ کی تقرری:*
دیہی معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم اسی وقت ممکن ہے جب خواتین اساتذہ موجود ہوں، جو والدین کو اعتماد بخش سکیں۔
*5. ڈیجیٹل وسائل کا استعمال:*
اسمارٹ فون، تعلیمی ایپس، اور آڈیو-ویژول ذرائع کو مکاتب میں شامل کر کے سیکھنے کے عمل کو دلکش اور مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔
*بیداری مہمات اور مکاتب*
ایک ہم آہنگی کی ضرورت تعلیمی مہمات کو چاہیے کہ مکاتب کو اپنے مرکز میں لائیں، ائمہ و اساتذہ کو تربیت دیں، اور بستیوں میں علم و کردار کی تحریک کو اسی مرکز سے شروع کریں جہاں سے تہذیب نے ہمیشہ آغاز لیا۔
اگر ہم مکتب کو چھوڑ کر تعلیم کی کوئی تحریک چلانا چاہتے ہیں، تو یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم جڑ چھوڑ کر شاخوں پر پانی ڈالنے کی کوشش کر رہے ہوں۔
*اختتامیہ*
بیداری صرف اعداد کا کھیل نہیں، روح کی روشنی ہے یہ وقت ہے کہ ہم تعلیم کو روحانی احیا، اخلاقی تربیت، اور فکری نجات کا ذریعہ بنائیں۔ گاؤں کا مکتب ایک ایسا منبر ہو سکتا ہے جہاں علم صرف پڑھا نہ جائے، بلکہ جِیا جائے۔ جہاں بچوں کو محض ڈگری نہ ملے، بلکہ شعور، بصیرت، اور دردِ دل ملے۔
اگر ہم مکاتب کو دوبارہ زندہ نہ کر سکے، تو سمجھ لیجیے کہ ہم نے اپنے ماضی کی روحانی عظمت کو دفن کر دیا۔ اور اگر ہم نے انہیں جدید خطوط پر استوار کر لیا، تو یقین کیجیے کہ یہی مکتب ایک بار پھر اس قوم کی فکری تحریک کا مرکز بنے گا۔
آئیے! قوم کے سب سے چھوٹے، مگر سب سے اہم ادارے—یعنی مکتب—کو نئی زندگی، نئی زبان، اور نئی روشنی دیں۔ اسی میں ہماری نجات ہے، اور اسی میں قوم کا مستقبل۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں