تازہ ترین

منگل، 5 دسمبر، 2017

نقاب پوش عورتیں اب بازار کی زینت !


نقاب پوش عورتیں اب بازار کی زینت !
تحریر محمدآبشارالدین‎
نقاب جسے کبھی عورتوں کی آبرو کہا جاتا تھا آج وہی نقاب عورتوں کے لیئے زحمت بن چکا ہے اور اس کی ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ یہ عورتیں خود ہیں پہلے جب کبھی نقاب پوش عورتیں نظر آتی تھیں توان سے شرافت جھلکتی تھی لیکن اب وہی نقاب پوش عورتیں نظر آتی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ روڈ پر لگی ایک دوکان ہے جس کا ہر ایک راہ گیر مول بھاؤ کررتاہے ایسا کیوں ہورہا ہے کیوں کہ یہ نقاب اب پردہ کے لیئے نہیں جسم کے نشونمادیکھانے کے لیئے پہنا جاتا ہے اور اوباش قسم کے لڑکے کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیئے جو ان کو سرراہ چھیڑ اوران آنکھ مچولی کرسکے جب ہم پارک کی طرف رخ کرتے ہیں تو یہی صاحبزادیاں پارکوں میں نقاب ملبوس کرکے غیر محرم سے گل چھرے نظر آتی ہے مجھے اس بات سے اختلاف نہیں ہے کہ وہ گل چھرے کیوں اڑارہی ہے مجھے اختلاف اس بات سے ہے کہ آپ کسی کے کلچر کو کیوں بدنام کرہی ہیں اور یہ جنس پینٹ والی لڑکی پر طنز بھی کستی ہیں آپ ان پر نہ ہسیں کیونکہ وہ کسی کلچر کو بدنام نہیں کررہی ہے وہ ہمیشہ دائرے میں رہتی ہیں اور ان کا لباس آپ کے مقابل زیادہ مہذب ہوتاہے آپ پورے کپڑے پہن کر بھی ننگی نظر آتی ہیں بحرکیف جب آپ یونیورسٹی کے راستےمیں نظرآتی ہیں تو آپ نقاب سے ملبوس ہوتی ہیں جیسے ہی آپ کیمپس میں داخل ہوتی ہیں تو دوسروں کے بالمقابل آپ سب سے بے پردہ نظر آتی ہیں اور آپ دوسروں کے مقابل پڑھائی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سب سے زیادہ عشق بازی کا کھیل کھیلتی ہیں اور آپ کے عشق کا دائرہ بھی اتنا گراہوا ہے کہ جو سب سے زیادہ لوفر ہوتاہے اسی سے آپ کی آنکھ ملتی ہیں اور اس میں آپ اتنی سیکولر ہوجاتی ہیں کہ آپ اپنے مذہب تک کا بھی خیال نہیں رکھتی آپ نقاب کو بحیثیت آلہ کار کے اپناتی ہے تاکہ سماج آپ کو پہچان نہ سکے کسی زمانے میں ہوٹلوں میں طوائفوں کا ذکر ہوا کرتا تھااب ہوٹلوں میں نقاب پوشوں کا اور یہ بات حقیقت کاغمازبھی ہے اور یہ اپنا ذاتی مشاہدہ بھی ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad