تازہ ترین

اتوار، 2 نومبر، 2025

قیلولہ: اسلامی نقطہ نظر، طبی فوائد اور علی گڑھ کی تہذیبی روایت

قیلولہ: اسلامی نقطہ نظر، طبی فوائد اور علی گڑھ کی تہذیبی روایت
نازش احتشام اعظمی 

آج کی تیز رفتار اور ہنگامہ خیز زندگی میں جہاں بیداری کو محنت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور آرام کو سستی قرار دیا جاتا ہے، قیلولہ، یعنی دوپہر میں کھانے کے بعد لیا جانے والا مختصر آرام یا جھپکی، ایک ایسی سنت ہے جو جسمانی سکون اور تجدیدِ توانائی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ یہ تصور محض جسمانی آرام تک محدود نہیں بلکہ روحانی طمانیت، فکری تازگی اور ذہنی نظم و ضبط کا باعث بھی ہے۔

اسلامی تعلیمات میں قیلولہ کی روایت نہ صرف سنتِ نبوی ﷺ ہے، بلکہ علمی و ثقافتی تاریخ سے اس کا گہرا رشتہ ہے، خصوصاً علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تہذیبی معاشرت میں یہ روایت بڑی اہم جگہ رکھتی ہے ۔وہاں قیلولہ کا ایسا اہتمام ہے کہ ظہرانے کے بعد ساری سرگرمیاں معطل ہو جاتی ہے، حتیٰ کہ بہت ضروری ملاقاتیں بھی عصر تک کے موقوف ہوجاتی ہے ۔ بزرگ علیگیرین کے یہاں اس وقت کسی کے یہاں جانا بے ادبی اور اور تہذیب کے برعکس تصور کیا جاتا ہے ۔

اسلامی نقطہ نظر :  لفظ قیلولہ (قَیْلُولَۃ) عربی زبان سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے دوپہر کے وقت مختصر آرام یا نیند لینا۔ یہ وقفہ عام طور پر ضحیٰ اور ظہر کے درمیانی وقت کا ہے۔اسلامی نقطہ نظر سے قیلولہ محض آرام کا عمل نہیں بلکہ سنتِ نبوی ﷺ ہے، جسے جسمانی تازگی، روحانی سکون اور رات کی عبادت یعنی تہجد کی تیاری کے لیے تجویز کیا گیا۔  احادیثِ نبوی میں قیلولہ کے بارے میں متعدد ارشادات ملتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:  ’’قیلولہ کرو، کیونکہ شیطان قیلولہ نہیں کرتے۔‘‘  (طبرانی)  یہ ارشاد اپنے اندر ایک گہرا پیغام رکھتا ہے کہ مومن کا آرام بھی عبادت کا حصہ بن سکتا ہے، بشرطیکہ وہ اعتدال، نیت، اور روحانی تیاری کے ساتھ ہو۔

صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کی زندگیوں میں بھی قیلولہ ایک معمول کا حصہ تھا۔ وہ اسے سستی نہیں بلکہ جسم و ذہن کی تازگی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ نبی ﷺ کی روزمرہ زندگی میں عبادت، غور و فکر، محنت، اور مختصر آرام کے لمحات ہم آہنگ توازن کی مثال ہیں—جو آج کے جدید  ’وِلنس(wellness) ‘  نظریے سے بھی ہم آہنگ ہے۔

کلاسیکی اسلامی فکر:  اسلامی تہذیب کے علمی دور میں علماء و اطباء نے قیلولہ کو خاص اہمیت دی۔  امام غزالیؒ نے اپنی شہرہ  آفاق تصنیف ’احیاء علوم الدین ‘میں لکھا کہ قیلولہ جسمانی صحت، ذہنی وضاحت، اور عبادت میں توجہ کو بڑھاتا ہے۔ یہ شام کی عبادت، مطالعہ اور غور و فکر کے لیے تیاری کا ذریعہ بنتا ہے۔
اسی طرح ابنِ سیناؒ نے اپنی مشہور طبی کتاب’ القانون فی الطب ‘  میں قیلولہ کے فزیولوجیکل 

 (phisiological) فوائد کی وضاحت کی ہے۔  اس کے مطابق دوپہر کا مختصر آرام ہاضمے کو بہتر کرتا ہے، دماغی کارکردگی بڑھاتا ہے، اور اعصاب کو تقویت دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیداری اور آرام کا توازن طویل عمر اور ذہنی کارکردگی کے لیے ضروری ہے۔  فقہاء نے بھی معاشرتی زندگی میں قیلولہ کے عملی پہلو پر زور دیا۔ اسلامی شہروں میں ضحیٰ کے بعد کاروبار اور مدارس میں مختصر وقفہ کر کے لوگ قیلولہ کرتے تھے تاکہ نمازِ ظہر کے بعد نئے جوش و جذبے کے ساتھ کام کا آغاز کر سکیں۔ یہ طرزِ زندگی ، اعتدال کے اسلامی اصول کی بہترین عکاسی تھی۔

قیلولہ کے سائنسی و طبی فوائد:  جدید سائنس اب اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ قیلولہ کے  وہی فوائد ہیں جن کی طرف اسلام نے صدیوں پہلے رہنمائی کی۔ ہارورڈ یونیورسٹی اور ناسا میں ہو نے والی تحقیقات کے مطابق 15 سے 30 منٹ کا  نَیپ(nap)ذہنی ہوشیاری میں اضافہ کرتا  ہے ، یادداشت بہتر کرتا، اور موڈ کو بہتر بناتا ہے۔ طویل نَیپ کے برعکس مختصر آرام جسمانی رِدھم  (circadian rhythm) کو متوازن رکھتا ہے۔  اس سلسلے میں چند ایک حقائق ذیل میں پیش ہیں:

 .1 دماغی کارکردگی اور یادداشت میں اضافہ:  تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ قیلولہ لینے والے افراد میں سیکھنے، یاد رکھنے، اور فیصلہکر سکنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔ طلبہ، محققین، اور علمی مصروفیات رکھنے والوں کے لیے یہ نَیپ ذہنی توانائی کو بحال کرتا ہے، جس سے مطالعہ میں توجہ اور فہم میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔
 .2دل کی صحت اور تناؤ میں کمی:  مختصر  نَیپ خون کے دباؤ اور تناؤ کے ہارمون (کورٹیسول) کو کم کرتا ہے۔ 2019ء کی ایک طبی تحقیق کے مطابق جو لوگ ہفتے میں دو سے تین بار قیلولہ کرتے ہیں، ان میں دل کے امراض کا خطرہ نمایاں طور پر کم ہوتا ہے۔ یہ نبوی تعلیم’’اعتدال میں برکت ہے ‘‘  کا عملی ثبوت ہے۔


 .3موڈ،فعالیت، اور تخلیقی صلاحیت میں بہتری:  قیلولہ سے توانائی بحال ہوتی ہے، چڑچڑاپن کم ہوتا ہے، اور ذہنی ارتکاز بڑھتا ہے۔ کئی کمپنیوں اور تحقیقی اداروں نے  ’ پاور نیپ زون  ) (powernap zones‘  قائم کیے ہیں تاکہ ملازمین تازہ دم ہو کر زیادہ مؤثر کارکردگی دکھا سکیں۔

 .4 روحانی و جذباتی توازن:  جسمانی فوائد کے ساتھ قیلولہ عبادت میں خشوع، دعا میں یکسوئی، اور فکر میں گہرائی پیدا کرتا ہے۔ یہ انسان کو یاد دلاتا ہے کہ صحت، عبادت اور فکر—تینوں ایک ہی روحانی زنجیر کے اجزاء ہیں۔

 یونانی طب کی تعلیم ہمیشہ سے اس حقیقت پر زور دیتی آئی ہے کہ صحت کا دار و مدار جسمانی، ذہنی، اور روحانی توازن پر ہے۔  یونانی اصولِ صحت اسبابِ ستہ ضروریہ (چھ بنیادی عوامل)—ہوا، خوراک، حرکت و سکون، نیند و بیداری، نفسی کیفیت، اور اخراج—میں نیند کو ایک بنیادی ضرورت قرار دیتے ہیں۔ قیلولہ، اس نظریے کے مطابق، نیند و بیداری کے توازن کو برقرار رکھ کر جسم کی فطری توانائی کو بحال کرتا ہے۔  اس طرح، علی گڑھ کی یونانی طبی روایت اور نبوی تعلیمات ایک مشترکہ نکتے پر ملتی ہیں— آرام اور تحصیل علم،  ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ 

علی گڑھ کی تہذیبی روایت :  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (AMU) کی فکری و ثقافتی روایت اسلامی توازن اور جدید تعلیم کے امتزاج کی شاندار مثال ہے۔ اس ماحول میں قیلولہ کی روایت، اگرچہ غیر رسمی طور پر، ایک گہرے تہذیبی مفہوم کے ساتھ موجود ہے۔
سر سید احمد خانؒ  جو  جدید تعلیم کے علمبردار تھےانسانی نشوونما کو ذہن، جسم، اور روح کی ہم آہنگی پر مبنی سمجھتے تھے۔  ان کے نزدیک تعلیم صرف کتابی علم نہیں بلکہ نظم و ضبط، آرام، اور اخلاقی توازن کا امتزاج ہے۔ اے۔ایم۔یو۔ میں قیلولہ کا تصور انہی اصولوں سے ہم آہنگ ہے۔

ابتدائی دور میں علی گڑھ کے اساتذہ اور طلبہ اپنی علمی مشغولیات کے دوران دوپہر کے وقت مختصر آرام کو معمول بناتے تھے۔ بجلی کے عام ہونے سے پہلے، مطالعہ اکثر رات گئے تک جاری رہتا تھا، لہٰذا دن کے وقت تھوڑا آرام لازمی سمجھا جاتا تھا۔ یہ عمل ذہنی تازگی، توجہ، اور طویل مطالعے کے لیے ضروری تھا۔ اے ایم یو کے ہوسٹلوں کی تہذیب، جہاں وقت کی پابندی، نماز، مطالعہ اور آرام کے مخصوص اوقات مقررکرتی ہے ، نبی ﷺ کی متوازن زندگی کی جھلک محض  ہے۔ اس یونیورسٹی کی روزمرہ زندگی،  اس بات کا عملی اظہار ہے کہ اسلامی اقدار اور جدید تعلیمی نظام کس طرح ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ 

    آج کے ڈیجیٹل دور میں، جہاں طلبہ رات دیر تک آن لائن مصروف رہتے ہیں اور مسلسل ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، قیلولہ ایک قدرتی علاج کی حیثیت رکھتا ہے۔  آج طلبہ میں نیند کی کمی، اضطراب، اور تھکن عام ہیں، جس سے کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ اگر اے ایم یو یا دیگر تعلیمی ادارے اپنے روزمرہ نظام میں قیلولہ کے مختصر وقفے کو شامل کریں، تو نہ صرف صحت بہتر ہوگی بلکہ تعلیمی کا معیار بھی بڑھے گا۔  یہ عمل سر سید کے اُس خواب کی تعبیر ہے جو  ’متوازن تعلیم‘کی بنیاد پر قائم تھااورجہاں ذہن کی تربیت کے ساتھ جسم و روح کی پرورش بھی ہوتی تھی۔

ایمان، صحت، اور نظم و ضبط:  قیلولہ دراصل ایک عبادت نما عادت ہے۔ اسلام سکھاتا ہے کہ نیت خالص ہو تو معمولی عمل بھی عبادت بن جاتا ہے۔ اگر قیلولہ اس نیت سے کیا جائے کہ اس سے عبادت، مطالعہ، یا کام کاج میں قوت ملے، تو یہ عمل ثواب کا باعث بنتا ہے۔ نبی ﷺ کی سیرت یہ سبق دیتی ہے کہصلاحیت میں بہتری کا راز مسلسل سرگرمی میں نہیں بلکہ اعتدال میں ہے۔ متوازن آرام شکر گزاری، توجہ، اور عمل کی قوت پیدا کرتا ہے۔

نتیجہ:  قیلولہ اس بات کی روشن مثال ہے کہ اسلامی حکمت اور جدید سائنسی تحقیق ایک دوسرے سے متصادم نہیں بلکہ معاون ہیں۔

نبی ﷺ کی سنت، ابنِ سینا کی طبی بصیرت، امام غزالی کی فکری رہنمائی، اور علی گڑھ کی علمی روایت ؛سب کا پیغام ایک ہی ہے:  ’’پر سکون دماغ ہی علم و ایمان کی روشنی کو جذب کر سکتا ہے۔‘‘  قیلولہ کو اپنانا ، دراصل ایک سنت کی تجدید ہے  جو نہ صرف صحت بلکہ فکری و روحانی ارتقا کا ذریعہ ہے۔   یہ وہی توازن ہے جو اسلامی تہذیب اور علی گڑھ کی علمی روح کی بنیاد ہے،جہاں علم، عبادت، اور صحت ایک ہی وحدت میں ڈھل جاتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad