تازہ ترین

منگل، 5 دسمبر، 2017

دہلی سے متصل صاحب آبادمیں جامعہ خلفائے راشدین میں جلسہ سیرت النبیﷺ کا انعقاد


دہلی سے متصل صاحب آبادمیں جامعہ خلفائے راشدین میں جلسہ سیرت النبیﷺ کا انعقاد 
پیغمبر اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت ضروری ہے:قاری شمیم احمد
نئی دہلی،رپورٹ:ذاکر حسین(یواین اےنیوز5دسمبر2017) صاحب آباد علاقے میں واقع جامعہ خلفائے راشدین محی الدین پور کناونی میں آج ایک جلسہ سیرت النبی کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت قاری محمد شمیم عالم نے کیا اور نظامت مولانا شمشاد احمد قاسمی نے کیا ۔پر وگرام میں خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا علما ء کونسل کے قومی صدر اعجاز احمد رزاقی نے کہا کہ قرآن کریم کی مختلف آیات کریمہ اور متعدد احادیث شریفہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کو اللہ سبحانہ وتعالی، سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام سے بے انتہا محبت کرنی چاہیے۔ در حقیت یہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص اللہ تعالی سے محبت کرے، مگر اس کے پیارے رسول محمد سے محبت نہ کرے یا اس کے بھیجے ہوئے دین اسلام سے محبت نہ کرے، یا اللہ کے رسول سے محبت کرے اور اللہ تعالی اور دین اسلام سے محبت نہ کرے، اس جز میں ہم ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت‘‘ کیوں کہ آپ سے محبت کرنا واجب ولازم ہے اور کمال ایمان اسی پر موقوف ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ کے نبی ورسول ہونے کے ساتھ ساتھ، اللہ تعالی نے آپ کو ایک ایسا انسان بنایا تھا جوکسی بھی طرح کے نقص سے پاک تھا، آپ کو من جانب اللہ حسن وجمال، لیاقت وکمال اوراحسان ونوال کا اتنا وافر حصہ ملاتھا کہ آپ کے علاوہ کسی شخص کو میسر نہیں ہوا۔ آپ اس دنیا کے کامل ومکمل انسان اور افضل البشر تھے، پھر آدمی آپ سے محبت کیوں نہ کرے !۔مولانا موصوف نے کہا کہ محبت کی اصل یہ ہے کہ (دل) کسی ایسی چیز کی طرف مائل ہوجو مرغوب وپسندیدہ ہو،پھر (دل کا) میلان کبھی ایسی چیز کی طرف ہوتا ہے جس میں انسان لذت محسوس کرتا ہواور اسے حسین سمجھتا ہو، جیسے حسن صورت اور کھانا وغیرہ اور (دل کا) میلان کبھی ایسی چیز کی طرف ہوتا ہے جس کی لذت باطنی وجوہ کی بنا پر اپنی عقل سے معلوم کرتا ہو جیسے صلحا، علماء اور اہل فضل کی مطلق محبت اور کبھی دل کا میلان کسی کی طرف اس کے احسان اور اس سے کسی تکلیف دہ اور ناپسندیدہ چیزوں کودور کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ مسلمان کو اللہ سبحانہ وتعالی، سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام سے بے انتہا محبت کرنی چاہیے۔مولانا رزاقی نے کہا کہ دل کا تعلق اورمیلان کسی چیز کی طرف ہونا، اس تصور سے کہ اس میں کو ئی کمال اور خوبی وعمدگی ہے، اس طرح کہ وہ شخص اپنے رجحان اورآرزووخواہش کا اظہار اس چیز میں کرے جو اس کو اس سے قریب کردے ۔انہوں نے کہا کہ الحب اورالمحب یہ دونوں (عربی کے) الفاظ ایسے معنی کو ادا کرتے ہیں جس کا تعلق قلب سے ہے، جو دوسری صفات کے مقابلہ میں اپنے اندر ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے اور اپنی تاثیر کے اعتبار سے، سب سے زیادہ عظیم ہے کیوں کہ اس میں دل کا میلان اور محبوب کی طرف کھچاؤ پایا جاتا ہے اور وہ انسان کی طبیعت میں ایسا شعور اور سلوک کا جذبہ پیدا کردیتا ہے کہ کبھی یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے بل کہ اپنے محبوب کی محبت میں، وہ اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہوجاتا ہے اور اپنی صفات چھوڑ کر محبوب کی صفات اختیار کرلیتا ہے ، (محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایمان میں سے ہے۔مولانا غیور احمد قاسمی نے کہا کہ قرآن کریم میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے حوالے سے ارشاد خداوندی ہے ایمان والوں کیلئے یہ نبی ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں۔نبی مومنین کے ساتھ تو ان کے نفس اور ذات سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں کیوں کہ انسان کا نفس تو کبھی اس کو نفع پہونچاتا ہے، کبھی نقصان کیوں کہ اگر نفس اچھا ہے، اچھے کاموں کی طرف چلتا ہے؛ تو نفع ہے اور برے کاموں کی طرف چلنے لگے تو خود اپنا نفس ہی اپنے لیے مصیبت بن جاتا ہے، بخلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ آپ کی تعلیم نفع ہی نفع اور خیر ہی خیر ہے اور اپنا نفس اگر اچھا بھی ہو اور نیکی ہی کی طرف چلتا ہو، پھر بھی اس کا نفع، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نفع کے برابر نہیں ہوسکتا، کیوں کہ اپنے نفس کو تو خیر وشر اور مصلحت ومضرت میں مغالطہ بھی ہوسکتا ہے اور اس کو مصالح ومضار کا پورا علم بھی نہیں، بخلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ آپ کی تعلیمات میں کسی مغالطہ کا خطرہ نہیں اور جب نفع رسانی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری جان اور ہمارے نفس سے بھی زیادہ ہیں تو ان کا حق ہم پر ہماری جان سے زیادہ ہے اور وہ حق یہی ہے کہ آپ کی ہر کام میں اطاعت کریں اور آپ کی تعظیم وتکریم تمام مخلوقات سے زیادہ کریں ،ایک دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ ہواور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہوتم کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہوں تو تم منتظر رہویہاں تک کہ اللہ تعالی اپنا حکم (سزائے ترک ہجرت کا) بھیج دیں اور اللہ تعالی بے حکمی کرنے والے لوگوں کو، ان کے مقصود تک نہیں پہنچاتا۔اس آیت کریمہ کے تحت پس قرآن مجید کی اس پر جلال آیت کا تقاضا اور مطالبہ بھی یہی ہے کہ ایمان والوں کو اپنی تمام قابل محبت چیزوں سے زیادہ، اللہ ورسول کی اور اس کے دین کی محبت ہونی چاہیے، اس کے بغیر اللہ کی رضا اور اس کی خاص ہدایت حاصل نہیں ہوسکتی اور ایمان کامل نہیں ہوسکتا ۔قاری اظہر قاسمی نے کہا کہ کھلی ہوئی بات ہے کہ جس کو یہ دولت نصیب ہوجائے، اس کیلئے ایمان کے سارے تقاضوں کا پورا کرنا اور اللہ ورسول کے احکام پر چلنا آسان ہوجاتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad