تازہ ترین

جمعہ، 7 نومبر، 2025

زہران ممدانی: ایک مختلف سیاسی آواز

زہران ممدانی: ایک مختلف سیاسی آواز
 از قلم: دانش اصلاحی

زہران ممدانی کے نیویارک کے میئر منتخب ہونے کی خبر نے امریکی سیاست میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
یہ کامیابی محض ایک شخص کی نہیں بلکہ سیاسی تنوع، فکری جرأت اور اصولی سیاست کی علامت ہے۔
مجھے ان کی کامیابی پر خوشی ہے، کیونکہ یہ جیت اس بات کا ثبوت ہے کہ سچائی، دیانت اور انصاف پسندی کے ساتھ بھی عوام کا اعتماد جیتا جا سکتا ہے۔

تاہم، یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں زہران ممدانی کی حمایت اس لیے نہیں کر رہا کہ وہ مسلمان ہیں یا بھارتی نژاد؛ بلکہ میں ان کے انصاف پسند موقف کی تائید کر رہا ہوں — وہ موقف جو مظلوموں کے ساتھ اور ظالموں کے خلاف کھڑا ہے۔
ایسے سیاست دان، خواہ کسی مذہب، قوم یا ملک سے تعلق رکھتے ہوں، عزت و تحسین کے مستحق ہیں۔

بے شک زہران ممدانی کے بعض نظریات سے میرا اختلاف اپنی جگہ موجود ہے — خصوصاً وہ نظریات جو خاندانی نظام، ہم جنس پرستی اور جنسی شناخت کی تبدیلی جیسے معاملات میں اسلامی اور مشرقی اقدار سے متصادم ہیں۔

لیکن ان اختلافات کے باوجود، یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ زہران ممدانی ایک جری، دیانتدار اور ضمیر کی آواز رکھنے والے سیاست دان ہیں — اور یہ خصوصیات آج کے سیاسی منظرنامے میں نہایت کمیاب اور قیمتی ہو چکی ہیں۔

زہران ممدانی نے فلسطین کے معاملے پر غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کو کھل کر نسل کشی (Genocide) قرار دیا۔

انہوں نے امریکی قانون ساز ادارے میں “Not On Our Dime” (ہمارے پیسوں سے نہیں) کے عنوان سے ایک بل پیش کیا، جس کا مقصد ان امریکی تنظیموں کی فنڈنگ روکنا تھا جو غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کی مدد کرتی ہیں۔

یہ قدم محض ایک سیاسی اعلان نہیں بلکہ اخلاقی استقلال کی مثال ہے۔
وہ BDS تحریک (بائیکاٹ، سرمایہ نکالنے اور پابندیاں لگانے) کے بھی واضح حامی ہیں — جو امریکی سیاست میں ایک نایاب اور دبنگ موقف سمجھا جاتا ہے۔

زہران ممدانی کی سیاست ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اقتدار صرف نعروں، مفادات یا لابنگ سے نہیں بلکہ اصول، شفافیت اور ضمیر کی طاقت سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ہمارے اپنے ملک، ہندوستان کے وہ سیاست دان جو مذہب، نفرت اور بنیاد پرستی کے ذریعے عوام کو تقسیم کر کے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ زہران ممدانی جیسے رہنماؤں سے سبق لیں۔

قوم کی خدمت کے لیے تعصب، جھوٹ اور منافقت نہیں بلکہ انصاف، امانت اور جرأتِ اظہار کی ضرورت ہے۔
اگر سیاست اصولوں سے جڑ جائے تو اقتدار خدمت بن سکتا ہے، اور خدمت سے قوم کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔

زہران ممدانی اسلام کے نمائندہ نہیں، مگر انسانی ضمیر کے نمائندہ ضرور ہیں۔
اور شاید یہی وہ وصف ہے جو آج کے زمانے میں سب سے نایاب اور قیمتی ہے —

جہاں طاقتور کے خلاف بولنا اور مظلوم کے حق میں کھڑا ہونا ایک خطرناک جرأت سمجھا جانے لگا ہے۔
ان کا یہ مؤقف اس بات کی علامت ہے کہ انسانیت کی حمایت مذہب یا قوم کی حدود سے بالاتر ہونی چاہیے۔

زہران ممدانی کا میئر بننا امریکی سیاست کے لیے ایک علامتی موڑ ہے —یہ اس بات کا اعلان ہے کہ نظریاتی اختلاف کے باوجود سچائی، انصاف اور انسانی وقار کی حمایت ممکن ہے۔
اگر ہم اپنے زاویۂ نظر کو تعصب سے پاک کر کے صرف انصاف کے اصول پر سوچنا شروع کریں، تو یقیناً دنیا ایک بہتر سمت میں بڑھ سکتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad