اعظم گڑھ کو پھر سے آگ میں ڈھکیلنے کی رچی جا رہی ہے سازش،اپنی قیادت کو مظبوط کرنے میں ہی ہے ہماری بھلائی
تحریر،محمد اشرف اصلاحی
2008 میں جس طرح اعظم گڑھ ضلع کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تھے،آتنک کے نام پر ضلع کے نوجوانوں کو گرفتار کیا جانے لگا تھا،ہر طرف ڈر خوف کا ماحول تھا،رشتہ دار کسی کو اپنا رشتہ دار کہنے سے بھاگتا تھا،سنجرپور سمیت پورے اعظم گڑھ کو آتنکواد کی نرسری بتایا جا رہا تھا،ہر طرف لوگ اعظم گڑھ باشندوں کو آتنکوادی کہنے لگے تھے،ایسے میں مولانا عامر رشادی مدنی صاحب ضلع کے درد کو لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور علماء کونسل نامی تنظیم بنا کر لوگوں کو حوصلہ دیا اور ضلع کے ماتھے پر لگے داغ اور نوجوانوں کے کھوئے ہوئے حوصلے کو واپس دلانے کے لئے لڑائ لڑی۔دلی سے لے کر لکھنئو تک علماء اکسپریس نامی اسپیشل ٹرین لے جاکر سرکاروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے ضلع کی بات رکھی اور کہا کہ ہمارا ضلع نہیں یہاں کی سرکاریں آتنکوادی ہیں۔اور اس قدر آواز بلند کی کہ سرکاروں کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے اور گرفتاریاں روک دیں۔تب سے اب تک کئ دفعہ اعظم گڑھ کا ماحوک خراب کرنے کی کوشش کی گئ پر آپ کی اپنی قیادت ایک مظبوط دیوار کی طرح ہمیشہ کھڑی رہی۔اور ہر بری سازشوں کو ناکام بنا دیا۔افسوس آج ایک بار پھر ہمارے اپنوں کا کندھا استعمال کر دشمن آگ میں ڈھکیلنے کی کوشش میں لگ گئے ہیں۔اس سنجر پور جس کے لئے مولانا نے پہلی آواز اٹھائ تھی وہیں کا ایک شخص آپ کی اپنی مظبوط مستحکم قیادت کو کمزور کرنے کیلئے مردمجاہد قائد محترم مولانا عامر رشادی صاحب کے اوپر فرضی مقدمہ درج کرایا تو وہ دشمن جماعتیں جو طاق لگائے بیٹھی تھیں وہ یہ دیکھ کر باہر آگئیں اور اس نا سمجھ کے سر میں سر ملاتے ہوئے مولانا کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ان سب معاملات میں پولس کا رویہ بھی اطمئنان بخش نظر نہیں آرہا اور باطل طاقتوں کے دباؤ میں کام کرتی نظر آرہی ہے۔آپ کو معلوم ہی ہے کہ ادھر قائد (مولانا عامر رشادی ) اور قیادت (علماء کونسل) کو الجھانے اور کمزور کرنے کی کوششیں ابھی شروع ہی کی گئی تھیں کہ باطل طاقتیں اعظم گڑھ کے نوجوانوں کو ڈسنے کے لئے اپنا پھن پھیلائے کھڑی ہو گئیں ہیں۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اسی سنجرپور کے کچھ نوجوانوں کو پولس پکڑنے کے لئے اک بار پھر حرکت میں آگئیں ہیں۔کچھ نوجوانوں کی ہشٹری شیٹ کھولی گئ ہے اور انکا لوکیشن تلاش کیا جا رہا ہے۔یہ بھی ہے کہ ان کے رشتہ داروں کے یہاں بھی دبش/کھوج بین ہوگی۔(امراجالا)۔
آج اگر عامر رشادئ کمزور ہوتے ہیں تو آپ کمزور ہونگے،آپ کا اتحاد کمزور ہوگا،اعظم گڑھ کمزور ہوگا۔اور جب ہم سب کمزور ہونگے تو ظالموں کو طاقت ملے گی اور ان کے ظلم بڑھیں گے۔اب فیصلہ ہم اور آپ کو کرنا ہوگا۔آج اگر عامر رشادی کو ہماری ضرورت ہے تو ہمیں بھی عامر رشادی کی ضرورت ہے۔اگر آج علماء کونسل کو ہماری ضرورت ہے،جامعتہ الرشاد کو ہماری ضرورت ہے تو ہمیں بھی اس تحریک کی ضرورت ہے اور اگر آج ہم متحد ہوکر عامر رشادی کے لئے نہیں کھڑے ہوئے تو کل ہمارے لئے کوئ عامر رشادی نہیں کھڑا ہوگا کیونکہ اس کے سامنے یہ تاریخ ہوگی اور پورا ملک کہہ رہا ہوگا کہ
گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں