مفتی محمد انتخاب ندوی
ناظم تعلیمات دارالعلوم فیض محمدی مہراج گنج گورکھپور
مؤرخہ٤/جنوری ٢٠٢١بعدنمازفجرمسجداصلاح المسلمین شیل پھاٹک ممبئ میں مقیم امیرجماعت انجینئر واصف سے ملاقات ہوئ اور بعد ازعلیک سلیک ومختصرگفتگو انھوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے ایک مولانا ہیں جنھیں دیکھ کر سلف صالحین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے،چنانچہ راقم کو ملاقات کا شوق ہوا اور پھر انھوں نےحضرت مولانا سے بذریعہ موبائل گفتگو کرکے بعدنمازمغرب ملاقات کا وقت طےکیا،اور پھر راقم وقت متعین پر مسجداحد کے دروازہ پر کھڑے حضرت کا انتظارکرنے لگا اورلوگ قطار در قطار نمازمغرب ادا کرنے کےلئےمسجد میں حاضر ہوتے رہے اور راقم ہرایک کا بغور مطالعہ کرتا رہا مگر کسی کی شخصیت جاذب نظر ثابت نہیں ہورہی تھی،کہ اچانک مسجد کے دروازہ پر ایک اسکوٹر رکی جسپر دوشخص سوار تھے،ایک کالی پینٹ اور دھاری دار شرٹ زیب تن کئے ہوۓ تھا جبکہ دوسرے کے سر پر کالی پیچ دار پگڑی،آنکھوں پر قیمتی چشمہ،دمکتا،چمکتا چہرہ،بدن پرمٹیالاعبا،پیرمیں نوابی جوتی،پان چپاتے لکھنوی چال کے ساتھ مسجد تشریف لاۓ،مؤذن کی صدا فضامیں باز کشت کرہی تھی،حضرت نماز پڑھانے کے لئے آگے بڑھے اور بعداز اقامت مؤذن تلاوت شروع کی،بلامبالغہ راقم اپنے آپ کو برونائ کی جامع مسجد میں محسوس کرہاتھا اور دل ہی دل میں کہ رہا تھا اور پڑھیں اور پڑھیں،کیا اواز میں کشش تھی،اور کیا سوز وگداز تھا،مگر مغرب کی نماز کو طول دینا بھی تو بہتر نہ تھا،حضرت نے نماز مکمل کی اور اداۓ سنت کے کچھ دیر بعد راقم نے اپنے کو بحیثیت ادنی متعلم حضرت کے سامنے پیش کیا اور سلام ومصافحہ کے بعد گفتگو شروع ہوئ اور پھر وہ راز کھلا جسکا میں منتظرتھا چنانچہ حضرت نے اپنی کہانی خود یوں بیان کی جسکا خلاصہ اور ماحصل راقم اپنی تحریر میں مندرجہ رقم کررہا ہے
حضرت مولانا کا وطن اصلی سرزمین لکھنو میں واقع لال باغ ہے جہاں ایک علمی،فکری،دینی،اور دعوتی خاندان میں نشو نما پایا پھر سرزمین بھوپال کی طرف اہل خانہ نے ھجرت کی اور اسی کو اپنا ملجاوماوی بنایا جہاں پیرطریقت سیداحمدسعیدی مجددیؒ چشمہ صافی سے ہزاروں لوگ اپنی تشنگی کا سامان فراہم کررہے تھے،جنانچہ آپ نے بھی اپنے والد محترم کی خواہش پر پیرطریقت کے حضور اسطرح حاضر ہوۓ کہ انہیں کہ ہوگئے اور پیرصاحب کے خانوادے کے جزولاینفک بن گئے،پیرطریقت کے انتقال کے آپ اپنے کو بےیار ومددگار محسوس کرنے لگے اور یتیمی کی پرملال ساعتیں کاٹنے لگے اور اسی کے ساتھ ساتھ اللہ کے حضور آنسو کے قطرات بہاتےرہے اور نعم البدل کی جستجو میں لگے رہے،یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ دعاؤں کوشرف قبولیت سے نوازا اورپیر طریقت مولانا طلحہ نقشبندی کی شکل میں نعمت غیرمترقبہ سے سرفراز کیااور تاحال انھیں کے آب حیات اپنے چمن قلب ودماغ کی سینچائ کررہے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج راقم کے مشاہدہ کے مطابق اس چمن کا ہرپھول ایک جہان کے قلوب کومعطر کررہا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں