آفتاب اظہرؔ صدیقی
کشن گنج ۸؍ مارچ (نامہ نگار) صوبۂ بہار تعلیمی و ترقیاتی اعتبار سے ملک کے پسماندہ صوبوں میں سے ایک ہے؛ بہار کے کچھ خطوں کی حالت حد درجہ ناگفتہ بہ ہے، یہاں تعلیم، روزگار اور ترقی کی کمی کے باعث یہاں کے 75؍ فیصد مرد حضرات اپنے گھر بار کو چھوڑ کر دوسرے صوبوں اور شہر وں کا رخ کرتے ہیں، اس لیے کہ بہار میں حکومتوں کی کرسیوں پر بیٹھنے والے نام نہاد مسیحاؤں نے یہاں کی پسماندگی کو دور کرنے اور روزگار مہیا کرنے کا کام انجام نہیں دیا، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے نوجوانوں کی اکثریت اپنے بیوی بچوں اور والدین سے دور رہ کر ان کی روزی روٹی کا انتظام کرتی ہے اور یہ مہاجرین روزگار سال میں ایک مرتبہ ہی اپنے گھر کا رخ کرتے ہیں، سرکار کو بہت جلد اس طرف توجہ دینی چاہیے اور بہار میں کارخانوں کا قیام عمل میں لانا چاہیے۔ یہی حالت بہار کے علمائے کرام کی ہے، علمائے بہار کی بھی اکثریت اپنے علاقوں کو چھوڑ کر دور دراز علاقوں اور شہروں میں جاکر دینی تعلیم کی اشاعت کا فریضہ انجام دیتے ہیں، ان کا بھی مقصد صرف اور صرف اپنے روزگار کا صحیح انتظام ہوتا ہے، جبکہ خود یہاں کی تعلیمی حالت بہت خراب ہے، بے دینی اور بے راہ روی عام ہے، قال اللہ وقال الرسول کی صداؤں سے بستیاں محروم ہیں، ضرورت ایسی ہے کہ ہر بستی میں ایک مکتب اور ہر قصبے میں ایک مدرسہ ناکافی ہو؛ لیکن ان ہی بستیوں کے فارغین مدارس اپنے گھر کی فکر کیے بغیر شہروں میں جاکر صرف دو چار ہزار کی زائد آمدنی کی بناپر تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں، علمائے کرام بتائیں کہ اپنے گاؤں محلے کو بے دینی کے عالم میں چھوڑ کر ہزاروں کلومیٹر دور جاکر دین کی اشاعت و تبلیغ میں لگے رہنا کیا پڑوسیوں کے حقوق کے خلاف نہیں؟ آخر یہ چراغ تلے اندھیرا کب تک رہے گا؟ آخر کب ہم اپنے گاؤں اور محلے کی فکر کریں گے! ہوش کی نگاہوں سے اپنے گاؤں اور بستی کا جائزہ لیجیے، مسلم بچیوں کی تعلیم ، لباس اور بے راہ روی کی طرف اصلاحی نظر ڈالیے اور خود اپنے ضمیر سے سوال کیجیے کہ آپ ملت کی نسلوں کو کس کے حوالے کر رہے ہیں؟ کیا آپ کی اپنے علاقے سے یہ بے نیازی جائز ہے؟ بہار سے تعلق رکھنے والے سبھی علمائے کرام سے درخواست ہے کہ اپنے مسکن کو ہی تعلیمی خدمت کا میدان بنائیں، ضروری نہیں کہ آپ مکتب یا مدرسہ ہی کھولیں، آپ ایک جدید طریقے کا موڈرن اسکول بھی چلاسکتے ہیں جس میں دینی ماحول اور دینی نصاب کی آمیزش کے ساتھ اسکولی تعلیم دے کر قوم مسلم کے نونہالوں کو ترقی کے بام عروج تک پہنچنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، سوچیے اور فیصلہ کیجیے، ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ آل انڈیا مجلس صدائے حق کے جنرل سکریٹری مولانا آفتاب اظہرؔ صدیقی نے یہ مندرجۂ بالا بیان جاری کیا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں