تازہ ترین

ہفتہ، 29 نومبر، 2025

حکیم وسیم احمد اعظمی — ایک زندہ دل، علم پرور اور محبت سے لبریز شخصیت

حکیم وسیم احمد اعظمی — ایک زندہ دل، علم پرور اور محبت سے لبریز شخصیت
نازش احتشام اعظمی

طبِ یونانی کی دنیا میں کچھ شخصیات ایسی بھی ہیں جو صرف اپنی علمی مہارت، حذاقت اور تصنیفی خدمات کے باعث نہیں پہچانی جاتیں، بلکہ اپنے اخلاق، خلوص، نرم خوئی، مزاجِ شگفتہ اور انسان دوستی کی خوشبو سے بھی دلوں پر نقش چھوڑ جاتی ہیں۔ ایسے اساتذہ کے زیرِ سایہ تربیت پانے والا نہ صرف بہتر طبیب بنتا ہے بلکہ زیادہ باشعور، مہربان اور متوازن انسان بھی بنتا ہے۔ انہی نفیس، وقار یافتہ اور دلوں پر راج کرنے والی شخصیات میں حکیم وسیم احمد اعظمی کا نام نہایت احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کی شخصیت کا ہر زاویہ اخلاص، محبت، علم دوستی اور انسان نوازی سے جگمگاتا ہے۔

میری ان سے پہلی ملاقات اُس وقت ہوئی جب میں مدرسۃ الاصلاح سے فراغت کے بعد دہلی آیا اور ہمدرد میں طبِ یونانی کی باضابطہ تعلیم کا آغاز کیا۔ یہ مرحلہ میرے لیے نیا بھی تھا، پرکشش بھی، اور چیلنجوں سے بھرپور بھی۔ ایک طرف دہلی کی تیز رفتار زندگی، سخت مقابلہ آرائی اور نئے ماحول کی گھٹن تھی؛ تو دوسری طرف کچھ کر گزرنے کی آرزو، علم کی پیاس اور عملی میدان میں مقام بنانے کی جستجو بھی تھی۔ ایسے وقت میں اگر کوئی رہنما، کوئی مخلص اور صاحبِ دل مل جائے تو وہ حقیقی معنوں میں نعمتِ غیر مترقبہ ہوتا ہے—اور مجھے یہ نعمت حکیم وسیم احمد اعظمی کی صورت میں عطا ہوئی۔

پہلی ہی ملاقات نے دل پر نقش قائم کر دیا۔ ان کی روشن پیشانی، نرم مسکراہٹ، محبت بھرا لہجہ اور گفتگو میں جھلکتا ہوا علمی وقار—یہ سب کچھ ایسا تھا کہ طالب علم ان کے سامنے صرف سمجھتا ہی نہیں تھا بلکہ ان جیسا بننے کی خواہش بھی دل میں جاگ اٹھتی تھی۔

وقت گزرتا گیا اور ان کی محفل میں بیٹھنے کے مواقع بڑھتے چلے گئے۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ محض صاحبِ تجربہ نہیں، بلکہ زندہ دل، بے تکلف، شفیق اور دل آویز شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کی گفتگو شگفتگی سے بھی پر ہوتی، گہرائی سے بھی، اور محبت کے لمس سے بھی لبریز۔

ان کی مجلس میں بیٹھتے ہی اعتماد کی کیفیت طاری ہو جاتی؛ پیچیدہ موضوعات آسان لگنے لگتے اور طبی اصول ذہن میں از خود ترتیب پانے لگتے۔ ہر سوال توجہ اور احترام سے سنتے، مثالوں سے واضح کرتے، اور اگر بات پیچیدہ ہو جاتی تو اپنے گہرے تجربات کے خزانے سے ایسے نکات پیش کرتے کہ دل کھل جاتا۔

ایک یادگار واقعہ آج بھی ذہن میں ویسے ہی تروتازہ ہے۔ ایک دن میں کلاس سے نکل رہا تھا کہ دیکھا حکیم وسیم احمد اعظمی اپنی موٹرسائیکل پر حکیم توحید کبریا صاحب کے ساتھ گزر رہے ہیں۔ میں نے سلام کیا۔ انہوں نے فوراً گاڑی روک دی، نہایت محبت سے حال احوال پوچھا۔ جب گفتگو کے دوران میں نے بتایا کہ میں اعظم گڑھ سے ہوں تو حکیم توحید کبریا صاحب نے مرحوم حکیم نعمان احمد کا ذکر کیا۔ میں نے عرض کیا کہ وہ میرے بڑے بھائی تھے۔ یہ سنتے ہی حکیم وسیم صاحب کے چہرے پر حیرت اور محبت کی ایک عجیب سی چمک دوڑ گئی۔ بہت شفقت سے بولے: “آپ کل ضرور ملاقات کے لیے آئیے۔”

اگلے روز جب میں ان سے ملا تو انہوں نے محبت بھری سرزنش اور اپنائیت کے ساتھ بتایا کہ ان کا میرے بھائی سے گہرا تعلق تھا۔ اس لمحے مجھے شدت سے احساس ہوا کہ کچھ رشتے کاغذ کے نہیں ہوتے، دل کی مٹی سے گندھے ہوتے ہیں۔ اس دن کے بعد ہمارے درمیان محبت، رہنمائی اور دعا کا سلسلہ اور مضبوط ہوتا چلا گیا۔

حکیم وسیم احمد اعظمی کی مجلس تعلیم و تعلم سے بھی بھری ہوتی، زندگی کے سلیقے سے بھی، اور انسانیت کی خوشبو سے بھی۔ ان کی گفتگو میں حکمت ہوتی، لہجے میں نرمی، اور الفاظ میں اثر۔ وہ صرف طب ہی نہیں بتاتے تھے؛ وہ زندگی جینا سکھاتے تھے۔ ان کا درس جامع، مرتب، مختصر اور مقصدیت کا آئینہ دار ہوتا۔

طبِ یونانی کی علمی دنیا میں ان کی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ترتیب، تحقیق اور تصنیف—ہر میدان میں انہوں نے اپنی انفرادیت کا واضح نقش چھوڑا۔ ان کی درسی کتابیں جیسے معالجات اول تا چہارم، امراضِ نسواں، کلیاتِ ادویہ، امراضِ اطفال، مرکبات، حفظانِ صحت اور ادویہ مفردہ آج بھی طلبہ کے لیے قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان کتابوں کی سب سے نمایاں خصوصیت آسان زبان، مضبوط حوالہ جات، جامع انداز اور طلبہ کی ذہنی سطح کا خیال ہے، جس کے باعث پیچیدہ مباحث بھی سہولت کے ساتھ ذہن نشین ہو جاتے ہیں۔

یہیں وہ معلومات نہایت قدرتی انداز میں شامل ہوتی ہیں جو آپ نے فراہم کیں:
حکیم وسیم احمد اعظمی کی طبی قلم ریزی بنیادی طور پر یونانی طب، طبِ نبوی اور صحتِ عامہ کے موضوعات کے گرد گھومتی ہے۔ ان کی معروف کتاب Mualijat (1992) طبی امراض اور ان کے علاج پر مفصل رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح Amraz-e-Uzan-o-Anf-o-Halq (1990) کان، ناک اور گلے کے امراض کی تشخیص و علاج پر مبنی ایک اہم تصنیف ہے۔ ان کی ایک اور قابلِ قدر کتاب Amraz-e-Niswan خواتین کے مخصوص امراض اور طبّی ضروریات کے حوالے سے نہایت اہم اور مفید ذخیرہ ہے۔

 مزید برآں، Kulliyat-e-Adviya ادویۂ مفردہ اور مرکبات کی تفصیلی فہرست، خواص اور استعمالات کا ایسا مجموعہ ہے جس نے طلبہ و اساتذہ دونوں کو یکساں طور پر فائدہ پہنچایا ہے۔

طبِ نبوی سے ان کی قلبی وابستگی بھی نمایاں ہے۔ Ahadees-e-Nabwi Mein Sabziyon Ka Tazkira اس بات کی واضح مثال ہے کہ وہ طب، اسلامی روایت اور صحتِ عامہ—تینوں کو ایک ہم آہنگ فکری رشتے میں پروتے ہیں۔ ان کی تصانیف اردو بولنے والے طبی حلقوں کے لیے اس پل کا کام کرتی ہیں جس پر سے گزر کر یونانی، اسلامی اور جدید طبی نظریات باہم ملتے اور نئی فہم کو جنم دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ ان کی تحقیقی و تجزیاتی تصانیف—مثلاً اطباء ہند و پاک، طبی رسائل و جرائد کا تنقیدی مطالعہ، احادیثِ نبویہ میں پھلوں اور سبزیوں کا تذکرہ—ان کے علم کی وسعت اور طب سے گہرے عشق کی روشن دلیل ہیں۔ اردو ادب، تحقیق، تاریخ، تذکرہ نگاری اور اسلامیات میں بھی ان کی نظر غیر معمولی طور پر پختہ اور وسیع تھی۔ مئو کی تذکرہ نگاری ہو، غالب کے مکتوب الیہ کا مطالعہ، شبلی نعمانی اور معاصر اطباء پر تحقیق ہو یا علمِ مخطوطات—ہر موضوع پر ان کی تحریریں لائقِ تحسین ہیں۔

ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو انکساری اور محبت ہے۔ نہ شہرت کا دعویٰ، نہ اپنی عظمت کا اظہار—صرف خلوص، محبت اور تعلقات نبھانے کا سلیقہ۔ ان کے دروازے پر کسی ضرورت مند کا سوال بے قدر نہیں ہوتا، بلکہ وہ خاموشی سے اس کی مدد کرتے، اور اکثر اوقات مجھ سے بھی کراتے، جبکہ ان کے لہجے یا طرزِ عمل میں کبھی تکبر کی رمق تک نہیں ہوتی۔

آج جب ماضی کی حسین یادوں پر نظر ڈالتا ہوں تو ان کی مسکراہٹ، محبت بھری سرزنش، علمی گفتگو اور شفقت آمیز لہجے کی روشنی ایک چراغ کی طرح دل میں روشن دکھائی دیتی ہے۔ ان کے ساتھ گزرا ہوا ہر لمحہ میری علمی اور شخصی تعمیر کا حصہ ہے—ایک ایسا سرمایہ جس کی قیمت وقت بڑھاتا جا رہا ہے۔
اب معاملہ یہ ہے کہ اگر ایک ہفتہ بھی گفتگو نہ ہو تو دونوں جانب ایک عجیب سی کمی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہماری باتیں کبھی گھریلو امور پر، کبھی علمی مباحث پر، اور اکثر کتابوں، پروگراموں، سیمیناروں اور مضامین پر ہوا کرتی ہیں۔ اور ہر گفتگو پہلے سے زیادہ دلچسپ، مفید اور تربیتی پہلو لیے ہوتی ہے۔

بلاشبہ، حکیم وسیم احمد اعظمی طبِ یونانی کا فخر ہیں۔ ان کی زندگی علم، محبت، خدمت، اخلاص اور انسانیت کا حسین مجموعہ ہے۔ انہوں نے صرف کتابیں نہیں لکھیں بلکہ دلوں کو روشن کیا؛ صرف درس نہیں دیا بلکہ کردار تراشے۔ ان کی علمی اور اخلاقی وراثت آنے والی نسلوں کے لیے روشنی کا مینار ہے۔

ان کا نام علم کے ساتھ محبت کا استعارہ ہے، اور طب کے ساتھ انسانیت کا پیغام—
اور یہی کسی بڑے استاد کی اصل پہچان ہوا کرتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad