تازہ ترین

جمعہ، 28 اگست، 2020

فراق گورکھپوری کی یومِ پیدائش 28 اگست کے ضمن میں خصوصی پیشکش

از: عباس دھالیوال
مالیر کوٹلہ،پنجاب۔
رابطہ:9855259650 
Abbasdhaliwal72@gmail.com 
"ایک مدت سے تیری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تمہیں ایسا بھی نہیں"

 ادب میں جب بھی بیسویں صدی کے نمائندہ شعراء کا تذکرہ ہوتا ہے تو اردو زبان میں پہلی بار گیان پیٹھ انعام حاصل کرنے والے فراق گورکھپوری کا نام سرِ فہرست آتا ہے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ انہوں نے اردو اور ہندی اور انگریزی زبان کے ذخیرہ کو بطور ادیب اور نقاد اپنی بیش قیمتی تخلیقات کے سے مالا مال کیا۔
فراق  28اگست 1896کو اتر پردیش کے گورکھپور میں پیدا ہوئے۔آپ کا اصل نام رگھوپتی سہائے تھا۔لیکن ادبی دنیا میں فراق گورکھپوری کے نام سے مشہور ہوئے۔

اپنی محنت و قابلیت کے صدقہ فراق گورکھپوری کا انتخاب بطور پی سی ایس اور آئی سی ایس (انڑین سول سروس) کے لئے ہوا تھا۔لیکن اسی دوران مہاتما گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون کی حمایت کے چلتے استعفی دے دیا۔جس کے نتیجے میں انہیں جیل بھی جانا پڑا۔

اس کے بعد آپ نے الہ آباد یونیورسٹی میں بطور انگریزی لیکچرر کے اپنی خدمات انجام دیں۔ بے شک آپ انگریزی زبان کے معلم تھے لیکن اس کے باوجود جو آپ کو اردو زبان سے لگاؤ اور وابستگی تھی اس کے متعلق آپ ایک شعر میں کچھ اس انداز میں رقمطراز ہیں کہ:

میری گھٹی میں پڑی تھی ہو کے حل اردو زباں
جو بھی میں کہتا گیا حسن بیاں ہوتا گیا
آپ طلباء کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ اپنے شعر کہنے کی راہ پر بھی بدستور گامزن رہے۔

اپنی ایک کتاب"اردو غزل گوئی" کے دیباچہ میں عہد حاضر کی غزل کی تصویر پیش کرتے ہوئے فراق لکھتے ہیں کہ" اس دور کی غزل سنجیدہ اور ہموار ضرور ہے خیالات و جذبات میں صداقت ہ خلوص اور بسا اوقات جدت تو ضرور ملتی ہے  لیکن وجد آفرینی،کیفیت،گھلاوٹ،تاثیر،ترنم،آفاقیت،گہرائی و بلندی نظر نہیں آتی۔شاعر کی پوری شخصیت کسی حقیقت میں تحلیل ہو جائے ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔سپردگی غزل کی جان ہے اور محویت غزل کا ایمان ہے۔اس دور کی غزل گوئی یہ دونوں چیزیں ذرا کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔،"

جبکہ ایک دوسری جگہ ترقی پسند تحریک  شاعری کی تعریف میں لکھتے ہیں کہ"ترقی پسند ادب کی تحریک نے کچھ شاعروں کوترقی پسند غزلیں لکھنے کی طرف مائل کیا۔ایسی غزلوں کا کامیاب تغزل کبھی کبھی نظر آتا ہے۔لیکن اس دور کی غزلوں میں بہت بڑی تعداد ایسے اشعار کی ملتی ہے جو اچھے بھی ہیں اور اس دور کے نظریات حیات اور مسائل حیات کی کامیاب ترجمانی بھی کرتے ہیں۔"

 ان کی شاعری کو جب ہم مطالعہ میں لاتے ہیں تو وہ ہمارے ذہن کو تسکین اور روح کو تازگی دیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ زندگی کی دشواریوں کا بیان کرتے ہوئے نہایت سادہ الفاظ میں کہتے ہیں کہ:
تمہیں کیوں کر بتائیں زندگی کو کیا سمجھتے ہیں
سمجھ لو سانس لینا خود کشی کر نا سمجھتے ہیں

جبکہ حیات کے تعلق سے اپنے مختلف تجربات و مشاہدات کا بیان کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ:
موت کا بھی علاج ہو شاید
زندگی کا کوئی علاج نہیں
اسی طرح ایک دوسرے مقام پر رقمطراز ہیں کہ:
بہت پہلے سے آہٹ ان کی ہم پہچان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
 ایک جگہ فراق کے تغزل کی خوبصورتی دیکھیں کہ:
بھلا دیں ایک مدت کی جفائیں اس نے یہ کہہ کر
تجھے اپنا سمجھتے تھے تجھے اپنا سمجھتے ہیں
فراق اس گردش ایام سے کب کام نکلا ہے
سحر ہونے کو بھی ہم رات کٹ جانا سمجھتے ہیں

ایک اور شعر جو میں سمجھتا ہوں فراق کے سگنیچر اشعار میں سے ایک ہے کہ:
ایک مدت سے تیری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تمہیں ایسا بھی نہیں

فراق کو اپنی شاعری پر ناز تھا یہی وجہ ہے کہ وہ ایک جگہ خود کہتے ہیں:
غالب و میر مصحفی
ہم بھی فراق کم نہیں

ایک جگہ اپنے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
اک عمر کٹ گئی ہے تیرے انتظار میں
ایسے بھی ہیں کہ کٹ نہ سکی جن سے ایک رات

محبوب کے معصوم و دھوکو ں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
جو ان معصوم آنکھوں نے دیئے تھے
وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں
کم سے کم موت سے ایسی مجھے امید نہیں
زندگی تونے تو دھوکے پہ دیا ہے دھوکہ
ایک جگہ جدا ہونے والے دوست سے شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
میں مدتوں جیا ہوں کسی دوست کے بغیر
اب تم ساتھ چھوڑ نے کو کہہ رہے ہو خیر

ایک جگہ ہندوستان کے وجود میں آنے کی تعریف واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
سر زمین ہند پر اقوام عالم کے فراق
قافلے بستے گئے ہندوستان بنتا گیا
عشق کے ضمن میں اپنے قدیم سلسلوں کا بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
سنتے ہیں عشق نام کے گزرنے ہیں اک بزرگ
ہم لوگ بھی فقیر اسی سلسلے کے ہیں

روز ابد سے الجھی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
جو الجھی تھی آدم کے ہاتھوں
وہ گتھی آج تک سلجھا رہا ہوں

اس طرح ان کے بہت سے ایسے اشعار ہیں جو آج ضرب الامثل کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔بطور شاعر انہوں نے اردو شاعری کی ہر صنف سخن جیسے کہ غزل، نظم، رباعی اور قطعہ وغیرہ سبھی میں طبع آزمائی کی۔
انھوں نے اردو نظم کی ایک درجن سے زائد جلدیں ترتیب دیں ہیں ساتھ ہی اردو نثر کی بھی نصف درجن سے زائد جلدیں مرتب کی ہیں اس کے علاوہ فراق نے ہندی اور انگریزی ادبی ثقافتی موضوعات پر متعدد فراق نے متعدد جلدیں تحریر کیں ہیں. جن سے اہل ادب آج بھی مستفید ہو رہے ہیں. 

فراق دیکھنے میں بے شک نہایت سنجیدہ قسم کے روکھے پھیکے سوکھے شخص نظر آتے تھے لیکن جن سے ان کا  واسطہ پڑتا تھا وہ  فراق کی ظرافت کے قائل تھے. آج ہم یہاں مختلف مواقع پر فراق کے ہمراہ دوسرے ادباء کے ساتھ رونما ہونے والے چند لطائف کا تذکرہ بھی کرنا چاہیں گے تاکہ قارئین کو فراق کی شخصیت کے اس پہلو سے بھی روبرو ہونے کا موقع ملے. چنانچہ مرتبہ کسی مشاعرے میں ہر شاعر اپنا کلام کھڑے ہوکر سنارہا تھا۔ فراق صاحب کی باری آئی تو وہ بیٹھے رہے اور مائیک ان کے سامنے لاکر رکھ دیاگیا۔ 

مجمع سے ایک شور بلند ہوا: '’کھڑے ہوکر پڑھئے...کھڑے ہوکر پڑھئے۔‘‘ 
جب شور ذرا تھما تو فراق صاحب نے بہت معصومیت کے ساتھ مائیک پر اعلان کیا: "میرے پائجامے کا ڈورا ٹوٹا ہوا ہے (اتنا سننا تھا کہ ایک قہقہہ پڑا) کیا آپ اب بھی بضد ہیں کہ میں کھڑے ہوکر پڑھوں؟‘‘ 
مشاعرہ قہقہوں میں ڈوب گیا۔

اسی طرح فراق  کے طالب علمی کے زمانہ میں ان کی حاضر جوابی کا ایک اور قصہ بہت مشہور ہے. آگرہ میں فراق انٹر سائنس کے طالب عالم تھے۔ تمام مضامین میں تو وہ اچھے نمر‘ حاصل کرتے لیکن فزکس میں اکثرفیل ہوجاتے۔ ایک روز کالج کے پرنسپل نے انہیں بلاکر پوچھا: ’’بھئی کیا بات ہے، باقی مضامین میں تو تمہارا نتیجہ بہت اچھا رہتا ہے لیکن فزکس میں کیوں فیل ہوجاتے ہو؟‘‘ 

فراق نے برجستہ جواب دیتے ہوئے کہا، ’’جناب اس لیے کہ میں فزیکلی کمزور ہوں۔‘‘ 
 الہ آباد کے ایک مشاعرے میں جو واقع پیش آیا وہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے یہاں الہ آباد میں فراق کو اپنی عادت کے خلاف کافی دیر بیٹھنا پڑا اور دوسرے شاعروں کو سننا پڑا۔ فراق صاحب کی موجودگی میں جن شاعروں نے پڑھا وہ سب اتفاق سے پاٹ دار آواز اور گلے باز تھے۔ وہ باری باری آئے اور پھیکی غزلوں کو سرتال پرگا کر چلے گئے۔جب فراق صاحب مائیک پرآئے۔ ان شاعروں کی طرف ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی اور اعلان کیا "حضرات!آپ اب تک قوالی سن رہے تھے اب شعر سنئے۔‘‘ 

کانپور کے ایک مشاعرے میں جب ایک شاعر اپنا کلام پڑھ رہے تھے تو نشور واحدی نے ان کو ٹوکا۔’’شعر میٹر سے بے نیاز ہیں۔‘‘ فراق نے جواب دیا۔’’پڑھنے دو‘ یہ زمانہ میٹر کا نہیں‘ کلو میٹر کا ہے۔‘‘ 
آزادی سے پہلے کا ایک بہت دلچسپ واقعہ بھی بہت مشہور ہے جب ایک مرتبہ جوش ملیح آبادی الہ آباد یونیورسٹی گئے۔ ادبی تقریب میں ڈائس پر جوش کے علاوہ فراق بھی موجود تھے۔ جوش نے اپنی طویل نظم’’حرف آخر‘‘ کا ایک اقتباس سنایا۔ اس میں تخلیق کائنات کی ابتداء میں شیطان کی زبانی کچھ شعر ہیں۔ جوش شیطان کے اقوال پر مشتمل اشعار سنانے والے تھے کہ فراق نے سامعین سے کہا۔’’سنئے حضرات، شیطان کیا بولتا ہے۔‘‘اور اس کے بعد جوش کو بولنے کا اشارہ کیا۔ 

فراق کی معروف تصانیف گل نغمہ،گل رعنا،مشعل،روح کائنات، روپ،شبستان، سر غم،بزم زندگی رنگ شاعری
فراق کو ان کی ادبی خدمات کے بدلے میں مختلف مواقع پر درج ذیل اعزازات عطا کیے گئے ان میں سے۔1960: ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ1968: پدم بھوشن1968: سویت لینڈ نہرو ایوارڈ1969: گیان پیٹھ انعام، اردو شاعری میں پہلا گیان پیٹھ انعام 1981: غالب اکیڈمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔

اردو ادب کا یہ درخشندہ ستارہ فراق آخر کار لمبی علالت کے بعد 3 مارچ 1982ء کو 85 سال کی عمر میں نئی دہلی میں ہمیشہ ہمیش کے لئے اس فانی جہان کو الودع کہہ گیا۔انتقال کے بعد فراق کی میت کو الہ آباد لے جایا گیا. جہاں دریائے گنگا و جمنا کے سنگم پر ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ آخر میں ہم فراق کو ان کے ہی ایک شعر کے ذریعے خراج عقیدت پیش کرنا چاہیں گے کہ:

آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصروں
جب بھی ان کو دھیان آئے گا تم نے فراق کو دیکھا ہے. 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad