حسن مدنی ندوی
وہ فکر جس نے معتدل مزاجی اور علمی پختگی سے ہمیں روشناس کرایا، قدیم صالح اور جدید نافع کا یہ سنگم کمزور ضرور ہوا مگر ناپید نہیں، خامیاں ضرور ہے مگر یہ امانت ہے جس کی حفاظت ابنائے ندوہ کی ذمہ داری ہے، ان پر ندوہ کے بے شمار احسانات ہیں، اور اگر خدانخواستہ کل کو ادارے پر کچھ آنچ آتی ہے تو اس کے ذمہ دار وہ ندوی ہونگے جنہوں نے اس مشکل وقت میں ندوہ اور ندوی فکر کا ساتھ دینے کے بجائے ندویت سے کنارہ کشی کرنے کا فیصلہ کیا، یہ قوم کس مرض کی دوا ہے! قوم نے تو ندوہ کو روز اوّل سے ہی خارج کر دیا تھا، ندوہ کی شناخت اور صحیح ترجمانی تو علی میاں نے کی تھی تو جاکر قوم کے بزرگوں نے کچھ حد تک ندوہ کو قبول کیا تھا، ندوہ ایک نازک اور کربناک مرحلہ سے گزر رہا ہے جس کے ارد گرد دشمن تاک لگائے بیٹھے ہیں کہ کب موقع ملے
اور حملہ آور ہوں، یہ وقت ہے عقابی نظر رکھتے ہوئے ان کو کریدنے اور اکھاڑ پھینک دینے کا نہ کہ اپنی حماقتوں اور غیر جانبدارانہ فیصلوں سے ان کو مزید تقویت بخشنے کا، ندوہ ابنائے ندوہ، طلبائے ندوہ، اساتذۂ ندوہ اور ندوی فکر سے منسلک ہر شخص کی بالخصوص اور ملت اسلامیہ کی بالعموم وراثت ہے، جس کا شعار الی الاسلام من جدید ہے، یہ اہل وفا کا مرکز بھی ہے اور اہل صفا کا مخزن بھی، اہل جنوں کی بستی بھی اور اہل خرد کا گہوارہ بھی، اس بزم کے ہم نے جام پئے اس بزم کے ہم مے خوار بنے اس بزم میں ہم بیدار ہوئےاس بزم میں ہم ہشیار بنے اس بزم میں ہم غیور بنے بے باک بنے خوددار بنے اسلام کے حق میں ڈھال بنے باطل کے لیے تلوار بنے

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں