تازہ ترین

جمعہ، 20 مارچ، 2020

یہ تو گائے ہیں۔۔۔

از:۔مدثراحمد،ایڈیٹر،روزنامہ،آج کاانقلاب،شیموگہ۔کرناٹک۔
ہندوستان بھر میں این پی آر، سی اے اے اوراین آر سی کی مخالفت میں مسلسل احتجاجات چل رہے ہیں۔ ان احتجاجات میں زیادہ تر احتجاجی جلسہ اور دھرنے ہیں جس میں مڈل کلاس اورلوئیر مڈل کلاس طبقے کے لوگ شامل ہورہے ہیں۔ جبکہ اعلیٰ گھرانوں کے لوگ ان احتجاجات سے دور ہیں اورغریب ونہایت غریب (بی پی ایل) طبقے کے لوگوں کو ان قوانین کے تعلق سے واقف ہونے کی بات تو دور انکے اطراف اکناف میں موجود حالات سے واقف ہونا بھی مشکل ہے۔ ایسے میں این پی آر، این آر سی اورسی اے ے جیسے قوانین کو نافذ کرنا حکومت اورحکومتی کارندوں کیلئے آسان کام ہوجائیگا۔ ہمارے درمیان کئی ایسی نمائندہ تنظیمیں ہیں جو محض اس بات کو اہمیت دے رہی ہیں کہ کسطرح سے ہزاروں لوگوں کو اکھٹا کیا جائے،کسطرح سے لاکھوں لوگوں کے مجموعے کو دھماکے دار تقریروں سے متاثر کیا جائے، بعض تنظیمیں این پی آر اورسی اے اے کی مخالفت کو اپنا اولین مقصد سمجھنے کے بجائے اپنی حریف جماعتوں کو کیسے نیچا دکھایا جائے اس پر غور وفکر کرنے میں مصروف ہیں۔ زمینی سطح پر دیکھا جائے تو حالات نہایت بدترین ہیں۔ اب بھی 90 فیصد لوگ اس قانون سے ناواقف ہیں اور 85 فیصد لوگ اب بھی احتجاجات ومخالفت سے دور ہیں۔ 95 فیصد لوگوں نے اب بھی یہ طئے نہیں کیا ہے کہ وہ این پی آر کی مخالفت کریں یا نہ کریں۔ این پی آر، سی اے اے اوراین آرسی کی مخالفت میں کئی تنظیمیں تو عمل میں آئی ہیں اوربعض تنظیمیں سیناٹھوک کر یہ کہہ رہی ہیں کہ ہم ہی لیڈ کررہے ہیں۔

جہاں تک دہلی سے لیکر بنگلور تک کی بات کی جائے تو مسلم قیادت والی سی اے اے اوراین آرسی کی تنظمیں زیادہ تروقت مشورہ، تبادلہ خیال، منصوبوں میں ہی وقت گذاررہے ہیں۔ اب محض 25 دن باقی رہ گئے ہیں جس میں این پی آر شروع ہونے والا ہے۔ حالانکہ یہ کام مرحلے وار ہورہا ہے۔ لیکن ہمارے پاس تیاری بھی اتنی خاص نہیں ہے کہ اس کام کی فوری طور پر مخالفت کیلئے اتر آئیں۔ ایک طرف این آر سی، سی اے اے اوراین پی آر کی مخالفت کی مہم کمزور ہوتی جارہی ہے تو دوسری جانب ان قوانین کی تائید میں مہم زور پکڑ تی جارہی ہیں۔ پچھلے دنوں بنگلور میں ہونے والے جنوبی ہند کے آر ایس ایس پروگرام میں اسی بات کو لیکر تبادلہ خیال ہوا اوران کی میٹنگ کے ایجنڈے کا پہلا نکات ہی سی اے ایاور این پی آر کی تائید کرنا اور کروانا تھاجسے وہ ہر حال میں نافذ کرکے ہی رہیںگے۔ اب غور کریں گے جو تنظیم 95 سالوں میںبھارت کو ہندوراشٹربنانے کی طاقت رکھتی ہیکیا وہ تنظیم ایک دو مہینوں میں این پی آر کی تائید کرتے ہوئے لوگوں کواپنی جانب گھسیٹ نہیں پائے گی۔ ہمارے یہاں جو طریقہ کار ہے وہ نہایت کمزورہے جس طرح سے ہم فرض نماز کی ادائیگی کے بعد اکثر یہ سوچتے ہیں کہ فلاں نماز تو نفل ہیں یہ پڑھ بھی سکتے ہیں چھوڑ بھی سکتے ہیں۔ اسی طرح سے احتجاجات کے سلسلے میں یہ سوچ رہے ہیں کہ اب باقی کا کام کربھی سکتے ہیں اورچھوڑ بھی سکتے ہیں۔ لیکن یہ چھوڑنے پکڑنے کا کام نہیں بلکہ ایک ہی رفتا رکے ساتھ لے جانے والا کام ہے۔

 جس طرح سے آج ہم سوچ رہے ہیں کہ کاش 95 سال پہلے ہی ہمارے آباواجداد آر ایس ایس کو توڑنے میں اہم رول ادا کرتے تو ہمیں یہ دن دیکھنا نا پڑتا اسی طرح ہماری آنے والی نسلیں ہم پر یہ سوال رکھے گی کاش ہمارے آبا واجداد نے این پی آر، سی اے اے اوراین آرسی کی مخالفت کرتے تو ہمیں ملک میں مہاجر بن کر نہ رہنا پڑتا، اس لئے ہمیں آج کی نہیں کل کی فکر کرنی ہے۔ جلسہ کی نہیں نتیجے کی فکر نہیں کرنی ہے، کورونا سے نہیں این پی آر سے گھبرانے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت مسلمان، دلت اوردوسری پسماندہ قومیں ایک طرح سے گائے ہیں جو دکھنے میں چالاک ضرور ہیں لیکن انکی چالاکی قصائی سے بچنے میں کام نہیں آتی،یہاں پر بھی کہنے کو اوربولنے کو کئی چالاک لوگ ہیں مگر انہیں اس قانون کی بنیادیں ہیں نہیں معلوم فی الوقت ملک میں کورونا جیسی مہلک بیماری کی وجہ سے لوگ خوفزدہ ہیں اور حکومتیں ہر ایک کو بند گھروں میں رہنے کی ہدایت دے رہی ہے۔ایسے وقت میں تنظیمیں وادارے اجتماعی نہ سہی انفرادی طور پر لوگوں میں بیداری لانے کا کام کرسکتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad