تازہ ترین

جمعرات، 12 مارچ، 2020

قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی مسجد انوار گوونڈی ممبئی
اس وقت تقریباً دنیا کے اکثر ممالک میں کرونا نامی مہلک وبا نے  اضطراب وسراسیمگی کی فضا پیدا کی ہے'مشرق وسطیٰ کے ترقی یافتہ ملکوں نے ایشیائی ممالک کے باشندوں کے داخلے پر پابندی عائد کردی ہے'، چائنا سے پیدا ہونے والا یہ خطرناک وائرس طوفان کی طرح ایشیا سے لیکر یورپ تک پھیل گیا، اس پر قابو پانے کے لیے اور اس کے سد باب کے لئے حکومتیں وسیع پیمانے پر ایکٹیو ہیں،لیکن ہنوز کامیابی کی منزلیں روپوش ہیں،

کہتے ہیں یہ وائرس  چائنا میں مخصوص زہریلے جانوروں چمگاڈر اور سانپ وغیرہ کو بطورِ غذا استعمال کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے' اس خبر کے غلط اور صحیح سے قطع نظر اس بات میں شک نہیں ہے کہ مذکورہ ملک میں جانوروں کے حلال وحرام اور ان  کے قبیح وغیر قبیح کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے،بلکہ جسمانی خصوصیات کے لحاظ سے انتہائی بدترین غلیظ قسم کے جانوروں کیڑوں مکوڑوں سے اپنی بھوک کی تکمیل کے لیے چائنا سارے عالم میں مشہور اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے

اور یہ بات طے ہے'کہ غیر فطری غذاؤں کے اثرات جہاں روح وقلب پر پڑتے ہیں وہیں جسمانی کائینات بھی اس سے محفوظ نہیں رہتی ہے'،اس تمہید کی روشنی میں  مذکور ہ جانوروں کے متعلق خبر کی صداقت قرین قیاس ہے،  اور اسباب کے درجہ میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ وائرس اسی غیر فطری غذا اور غیر انسانی سلوک کا عبرتناک انجام ہے'،

بھارت میں بھی اس قہر کی گونج سرکاری اداروں سے لیکر عام پبلک مقامات پر سنائی دیتی ہے'،اب تک کی رپورٹوں کے مطابق تقریبا چالیس افراد اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں، حکومت کی طرف سے اس طوفان پر روک لگانے کی کوششیں تیز تر ہیں،یہانتک کہ موبائل سے کہیں فون لگائیں تو سب سے پہلے اسی کرونا کی آواز سنائی دے گی، اس سے حفاظت کا سبق ملے گا،تدبیریں ملیں گی، 
سوال یہ ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں غریبی کا عفریت اس سے کہیں زیادہ تیز رفتار ی میں ہزاروں افراد کو نگل لیتا ہو، جہاں بے شمار مزدر فقر و فاقے کے نتیجے میں لقمہ اجل بن جاتے ہوں، جہاں
منظم پلاننگ کے تحت بھرے پرے ہنستے کھیلتےسیکڑوں خاندان تباہ وبرباد کردئیے جاتے ہو ں ،جہاں دن کی روشنی میں حکومت ہی کی شہ پر اور حکومت ہی کے کارندوں کے ذریعے موت کی بارش کرکے معصوم بچوں کے ساتھ پچاس سالہ بوڑھی عورت کو بھی موت کی سلا دیا جاتا ہو،جہاں کینسر اور دوسرے امراض کا شکار ہو کر روزانہ ایک بڑی تعداد موت کے شعلوں میں جل کر خاک ہوجاتی ہو، جہاں معیشت کے تباہ کن زوال کے نتیجے میں اچھے اچھے خوشحال اور امیر ترین افراد اپنے گھروں سے نکل کر فٹ پاتھ پر آچکے ہوں۔۔


وہاں ان تمام مسائل سے آنکھیں بند کر کے صرف ایک مخصوص پہلو پر پوری طاقت مرکوز کرنے کا کیا مطلب ہے، اس کے متعلق اس قدر تشہیر اور میڈیا اور مختلف ذرائع ابلاغ یہاں تک کہ پرسنل آلات یعنی فون وغیرہ پر اس وبا کے بارے میں سننے پر ہر حال میں مجبور کرنے کے پیچھے کون سے مقاصد کار فرما ہیں،غربت وتنگدستی اور معاشی بدحالی اور دوسرے امراض میں ہر لمحہ اضافہ اور ان کے اثرات سے موت کو گلے لگانے والوں کی جو تعداداس ملک میں پائی جاتی ہے اس کے درمیان اور اس جدید مرض کے شکار افراد کے درمیان حقیقت میں کوئی توازن اور تناسب بھی نہیں ہے،مصدقہ رپورٹ کے مطابق تمام متاثرہ خطوں اور علاقوں میں اس وائرس سے مرنے والوں کی تعداد دو ماہ میں ایک ہزار بمشکل ہے'جبکہ بھوک و افلاس کے شکنجوں میں میں زندگی سے ہار جانے والوں کی تعداد اس مدت میں چوبیس ہزار تک ہے'
 لیکن یہ امر واقعہ ہے'کہ بھکمری،افلاس ،معیشت کی بربادی کے انسداد،کے سلسلے میں نہ پہلے اقتدار نے بنیادی ضروریات کی توجہ کی اور نہ ہنوز اس سلسلے میں سنجیدہ ہے'، اس لیے یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے'کہ حالیہ وائرس کی تمام سرگرمیاں اور اس کے انسداد کا پروپیگنڈہ ایک مخصوص مقصد کے لیے کیا جارہا ہے،یہاں عوام کی ہمدردی ہے'نہ ملک کی تعمیر، انسانیت کی حفاظت ہے نہ ملک کی ترقی کا منصوبہ۔۔
بلکہ اس کے پیچھے حکومت کے نسل پرستانہ قانون اور انتہا پسندانہ اور اس فسطائی ایکٹ کے خلاف ملک میں ہر سو پھیلی ہوئی اس آواز کو خاموش کرنے کی ایک منظم سازش ہے'، ملک کی جمہوریت کے علمبرداروں اور آزادی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے والے ان مظاہرین اور پروٹسٹروں کے درمیان اس قہر کی دہشت پھیلا کر، اس کی خطرناکیوں اور زہرناکیوں کو پڑے پیمانے پر مشہور کرکے آزادی کی تحریک کو سبوتاژ کردیا جائے،  اور دومہینے سے استقامت اور جاں بازیوں کا استعارہ بن کر پورے عالم پر اپنی پرامن قوت و وطن پرستی ،صبر و تحمل کا نقش قائم کرنے والی یہ تحریک کمزور اور بکھر جائے، 


اب ان بد نیت اور بدطینت اصحاب اقتدار کو کون بتائے کہ
جن افراد نے فرنٹ پر آکر جمہوریت کے تحفظ کے لئے ملک کی سالمیت کے لئے کھلے میدانوں کا انتخاب کیا ہے'
ان کے وجود میں توہمات کے بتوں کی گنجائش نہیں ہے ،توہم پرستی کے تصور کا وہا ں گذر نہیں ہے، اسباب کی حقیقت اور اس کی محدود حیثیت کا تصور ضرور ہے'مگر اس کے اندر قوتوں اوراس میں اثرات وخاصیات کسی اور لامحدود طاقت اور توجہ کا کرشمہ ہے'، جو تمام جہانوں کا خالق بھی، پروردگار بھی ہے اور معبود بھی ہے، جس کی منشاء کے بغیر پانی خنکی اور ٹھنڈک عطا نہیں کرسکتا،جس کی مرضی کے بغیر آگ جلانے کا کام نہیں کرسکتی، جس کا ارادہ نہ ہو تو متعدی امراض کے سیلاب وسعتوں کے باوجود تنگ ہوجاتے ہیں،اور اپنے قریب ترین افراد کی زندگی میں بھی سرایت کرنے سے عاجز رہ جاتے ہیں،ان کا ایمان ویقین اس عالمگیر اور آسمانی نظام۔
مذہب اسلام پر ہے جس کی انسانیت ساز تنویروں سے پہلے دنیا کی بے شمار تہذیبوں کی طرح عرب معاشرہ بھی توہمات کا شکار تھا،جہاں  مخصوص الو پرندے،صفر کے مہینے کے علاوہ کچھ خاص ایام کو منحوس شمار کرنا عقیدہ ومذہب کے درجے میں شامل تھا،مسیحائے انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باطل تصورات اور بے بنیاد شرکیہ نظریات پر توحید کا تیشہ چلا کر زیر وزبر کر ڈالا،


اور انسانیت کو اس یقین کی سوغات دی کہ طبعی اور فطری طور پر کسی بیمار ی میں یہ قوت نہیں ہے کہ وہ خدا وندعالم کی منشاء کے بغیر دوسرے افراد میں منتقل ہوجائے، 
مسیحائے انسانیت کا ارشاد ہے کہ،، انتشار امراض،صفر،اورالو پرندے کی منحوسیت فطرت کے خلاف ہے'اس کی کوئی اصل نہیں ہے،اس پر ایک شخص نے عرض کیا،یارسول اللہ پھر میرے اونٹوں کے ساتھ یہ معاملہ کیوں ہے'کہ جب تک وہ صحرا میں رہتے ہیں تندرست اور ہرنوں کی طرح صاف شفاف رہتے ہیں لیکن جب ان میں کوئی خارش زدہ اونٹ آجاتاہے تو سارے اونٹ خارش زدہ ہوجاتے ہیں۔
ارشاد ہوا،یہ بتاؤ کہ پہلے اونٹ میں خارش کہاں سے آئی تھی (متفق علیہ )

یہی وہ تصور تھا جس نے ہزار پروپیگنڈوں کے باوجود حکومت اور فسطائی طاقتوں کی اس سازش کو بھی ناکام بنادیا جس کا مقصد یہ تھا کہ عوام کا اختلاط اور عورتوں کا اجتماع اس مرض کے تعداد میں معاون ہوگا،
اس لیے احتجاجی اجتماع اس وقت زندگی کے لئے ہلاکت خیزی کا پیش خیمہ ہے،سراسیمگی پیدا کرنے والی یہ تدبیریں بھی صبر و استقامت کے پیکر بے نظیر اور جرات مندانہ کرداروں کے پائے ثبات میں جنبش نہ کرسکیں۔

صاف بات یہ ہے کہ اگر انتہا پسند قوتوں کے اندر اس حوالے سے سنجیدگی ہوتی اور یہ موجودہ وائرس سے متعلق سیریس ہوتیں تو اس سے سبق حاصل کرتیں اور عوام کے مطالبہ آزادی پر غور کرتیں،ان کے حقوق کے لحاظ میں نسلی امتیاز اور مذہبی جنونیت سے باز آتیں، ایک غیر آئینی اقدام کو کالعدم کرکے ملک میں پھیلی ہوئی انارکی کو ختم کرنے کے لئے قدم اٹھاتیں، انصاف ومساوات پر عمل پیرا ہوتیں،معیشت کے زوال کے نتیجے میں بدحال عوام اور جمہوری قانون کی پاسداری کرتیں۔۔۔
لیکن دنیا دیکھ رہی ہے'کہ اس حوالے سے حکومت ذرا بھی سنجیدہ نہیں ہے،بلکہ وہ اپنے انتہا پسندانہ عمل پر سختی سے نہ صرف قائم ہے'بلکہ ظلم وبربریت کے شعلوں کو مزید ہوا دے رہی ہے، خصوصا یوپی کی ریاست میں تو عہدہ ومنصب کی پامالی کے علاوہ عدلیہ اور ہائی کورٹ کے وقار کو بھی غرور و تمکنت میں روند رہی ہے، اور اس کے حکم سے سراسر سرتابی کا جرم کررہی ہے'، اسے نہ ملک کے وقار کی فکر ہے'نہ قوم وملک کے تحفظ کی پروا، نہ جمہوریت وانسانیت کا خیال ہے نہ ہی وطن کی رسوائی کی فکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوری دنیا ان کے اس سفاکانہ عمل سے مضطرب ہے'،ان کے آمرانہ اقدامات اور بدترین مظالم کی گونج پورپ کے ایوانوں میں بھی شکوہ کناں ہے' مصدقہ رپورٹ کے مطابق
واشنگٹن امریکا میں کانگریس کے ممبروں کے وفاقی ادارے نے ہندوستان میں مذہبی آزادی کے خلاف قانون پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان کے ترمیم شدہ شہریت قوانین کے نتیجے میں ملک میں مسلمان قوم وسیع پیمانے پر آزادی سے محروم ہو جائے گی،    امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف)   کے ممبروں نے ماہرین کے ایک پینل کے ہمراہ ہندوستان کی شہریت ترمیمی ایکٹ کے متعلق ایک سماعت طلب کی ہے'جس کے جواب میں امریکی حکومت کے لئے اس سلسلے میں منظم پالیسی تیار کرنے میں مدد ملے گی،انہوں نے اس کا اظہار کیا ہے کہ اس قانون کے ذریعے شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے نہ صرف محروم کرنا ہے'بلکہ ان کی سیاسی قوت کو بھی سلب کرنا ہے'
اس تنظیم کے ایک ممبر انو ریما بھگوا کے مطابق سی اے اے این آر سی کی وجہ سے ایک مخصوص کمیونٹی کے افراد طویل نظر بندی،جلاوطنی اور تشدد کا شکار ہو جائیں گے ،براؤن یونیورسٹی میں انٹرنیشنل اسٹڈیز سول سائنس کے سول گولڈ مین پروفیسر آشوتوش نے کمیشن کو بتایا کہ سی اے اے کا استعمال کرتے ہوئے NRCکے ذریعے بے شمار مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرسکتا ہے چاہے وہ بھارت میں کیوں نہ پیدا ہوئے ہوں،اس کے برعکس اگر ہندوؤں کے پاس اگر دستاویزات نہ بھی ہوں تو انہیں نہ تو نظر بند کیا جائے گا نہ ہی انہیں ملک بدر کیا جائے گا نہ ہی انہیں شہریت سے محروم کیا جائے گا
اس تنظیم کے اہم ممبر ابراہیم کے مطابق اس قانون سے بھارت میں مسلمانوں کی شہریت ختم کرنا ہے'اور اس وقت ہندوستان کے شہری ہونے کی حیثیت سے مسلمان کمیونٹی کو براہ راست خطرہ ہے،،
ایک دوسرے ملک میں یہاں کی نسل پرستانہ صورتحال کا ادراک یونہی نہیں ہے اور بے بنیاد نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت ہے کہ اب مسلمان قوم براہ راست اپنے وجود کے لحاظ سےنشانے پر ہے'، یہی وجہ ہے کہ ملک گیر احتجاج کی وجہ سے جب این آر سی اور سی اے اے کی راہ میں پتھر نظر آئے تو مردم شماری کے قانون کو این آر سی کی جگہ پر لا کر اپنے مقاصد کی تکمیل کا سامان کیا گیا،اور اس کی وضاحت بھی وزیر داخلہ کی ویب سائٹ پر کردی گئی ہے کہ این پی آر،nrc کا پہلا قدم ہے'،

لیکن افسوسناک پہلو اور کربناک معاملہ یہ ہے'کہ ملی تنظیموں سے لیکر سماجی اور سیاسی لیڈروں تک ہر طرف ایسا مجرمانہ سناٹا ہے کہ عوام کا وجود مایوسیوں کے اندھیروں میں غرق ہوکر رہ گیا ہے، وہی قیادتیں ہر موڑ پر ہر مرحلے میں عوام نے جن کے لئے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کرنے سے کبھی گریز نہیں کیا، غفلتوں کی ایسی چادر اپنے اوپر تان رکھی ہے'جس کے اندر وقت کے تقاضوں کی تمام صدائیں داخل ہونے سے عاجز ہیں، مرکزی حکومت نے ایک اپریل کو ان آر سی کی تمہید کے نفاذ کا ایلٹی میٹم دے دیا ہے' اس سے ایک قدم آگےیوپی کی ریاست میں  اس کے نفاذ کا اسی تاریخ سے اعلان بھی ہوچکاہے،مگر یہ کیسی بے حسی ہے'کہ اب تک تمام تنظیموں اور سماجی تحریکوں نے فکری اتحاد تک کا ثبوت نہیں دیا ہے' اور اس قانون کے متعلق انہوں نے اپنے وجود کی خود سپردگی کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو منجدھار میں بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے ،نظریاتی طور پر غلو اور بے جا عقیدت کی انتہا یہ ہے کہ اگر کسی نے ملت کے درد میں اور دل کی کڑھن اور کرب کے اثر سے تنقید کردی تو اچھے اچھے باشعور سمجھے جانے والے افراد ان کی حمایت میں قیادت کے طرز عمل کو صحیح ثابت کرنے کے لئےکھڑے ہوجاتے ہیں، 


ملت اس وقت اضطراب کے سمندر میں جس طرح نفرتوں کے تھپیڑے کھا رہی ہے'، جس طرح تعصب وتنگ نظری، اور سفاکیت کے گہرے بادل اس کے سروں پر مسلط ہیں،اور اس ماحول میں قیادتوں نے جس طرح بے حسی اور لاپرواہی کا ثبوت فراہم کیا ہے'، جس طرح  ملک قوم اور اپنی ملت کو حکومت کے ظالمانہ نظام کے رحم وکرم پر چھوڑا ہے'، جس طرح اس نے اپنی نگہبانی کے فریضے،اور قومی ذمہ داریوں سے آنکھیں بند کر کے اور کسی مضبوط لائحہ عمل اور مستحکم منصوبہ بندی نیز قومی ملی،سماجی مذہبی جد وجہد،منظم سرگرمی، اور حرکت وعمل کے بجائے راحت و آرام کو ترجیح دی ہے اس کا نتیجہ قوم کے ساتھ ساتھ خود اس کے لئے بھی مستقبل میں عبرت خیز حادثے سے کم نہیں ہوگا
ملک کے تمام آرگنائزیشنز کے علاوہ سب سے بڑی اور افراد کی تعداد کے لحاظ سے بھی اور ماضی میں قربانیوں کی ایک طویل حد وجہد آزادی کی شاندار تاریخ کے حوالے بھی ایک تنظیم کے حالیہ روئیے اور اس کی بے بصیرت مصلحت پسندی کے متعلق مولانا عبیداللہ صاحب پرفیسر دہلی یونیورسٹی نے جس درد کا اظہار کیا ہے وہ حرف بحرف صداقت وسچائی اور موجودہ تمام قیادتوں کے غیر ذمہ دارانہ کرداروں کا بدترین اور  افسوسناک نمونہ ہے مناسب ہے کہ ان کی تحریر من و عن نقل کردی جائے۔


،،ملت تو قائدین پر اعتماد کرتی رہی ہے اور اسے ہر طرح کا تعاون پیش کرتی رہی ہے اور اعتماد کرتے رہنا چاہیے تھا مگر حالیہ دنوں میں خود قائدین نے بے اعتمادی کا سبب پیدا کیا ہے. حالیہ چند ماہ میں قائدین کے بیانات جسے مستحضر ہونگے وہ اس بات کو بخوبی سمجھ سکتا ہے. 

یہ بات درست ہے کہ دشمن چاہتا ہے کہ ملت قیادت سے کٹ جائے مگر خود قیادت کو بھی تو اس کی فکر ہونی چاہیے بلکہ ملت سے زیادہ ہونی چاہیے. مگر اس نقصان سے بچنے کے لئے کیا قیادت پر ہر حال میں اعتماد کرنا چاہیے چاہے وہ صریح بھیانک غلطیاں کرے؟ میں سمجھتا ہوں کہ صرف حتی الامکان ہی اعتماد ہونا چاہیے اور کوئی حد ایسی ضرور ہونی چاہیے کہ اگر قیادت اسے پار کرلے تو اسے سلام کرلینا چاہیے کیونکہ اس صورت میں قیادت نافع کی بجائے مضر ہوجائے گی اور موجودہ وقت میں صورتحال کچھ ایسی ہی ہے.

بند کمروں میں باجازتِ سرکار ہندؤں کے ہمراہ ہی احتجاج کی گنجائش، سڑکوں کے احتجاج کی مذمت، caa قانون سے صرف لفظ مسلمان کو ہٹانے کی صلاح مگر قانون کے بدستور مسلمانوں کو مستثنی رکھنے پر اظہارِ رضامندی ، مسلمانوں پر لفظ ہندو کے اطلاق کی تائید جو آر ایس ایس کی دیرینہ خواہش ہے جس کا وہ اظہار بھی کرچکی ہے، پہلے پورے ملک میں nrc اور caa کی مع دلائل تائید، npr میں مسلمانوں کے ذریعے عدمِ تعاون کو سارے ہندؤں کے عدمِ تعاون سے مشروط کرنا مگر اس کے لئے کوئی مضبوط کوشش، اجلاس وغیرہ نہ کرنا جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے لئے ہی سب سے زیادہ خطرناک ہے یہ وہ سارے بے اعتمادی کے اسباب ہیں جو قیادتوں کی طرف سے حالیہ دنوں میں پیدا کیے گئے ہیں. کیا ایسے بیانات وکارناموں کے باوجود اعتماد بحال رکھنے کی گنجائش بنتی ہے؟ کیا ان پر اگر اعتماد جاری رکھا جائے تو شاہین باغ یا ملک میں جاری کسی بھی احتجاج کا جواز باقی رہتا ہے؟ کیا یہ سارے احتجاجات بداعتمادی کے مظہر کہلائینگے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ اگر ہاں تو یہی تو بے اعتمادی ہے.

یہ بھی دیکھتے جائیے کہ اب جب npr سرکتے سرکتے بالکل سر پر آ کھڑا ہے، اس کے شروع ہونے میں صرف بیس روز باقی رہ گئے ہیں تب بھی قیادتوں کا کوئی مشترکہ موقف نہیں بن سکا ہے، تمام یا بیشتر بڑی تنظیموں کا ایک ساتھ بیٹھ کر کوئی متحدہ لائحۂِ عمل اپنایا نہیں جاسکا ہے حتی کہ ایک ہی عمارت کی دو قیادتوں کا npr جیسے نازک وحساس موضوع پر کوئی اتحاد نہیں بن سکا ہے، ایک نے بائیکاٹ کے لئے کہا تو دوسرے نے اگلے روز اس کے موقف کا ہی بائیکاٹ کردیا اور npr کے عدمِ بائیکاٹ کا فرمان جاری کر ڈالا. کیا آزادی کے بعد اس سے بھی سخت آزمائش میں ملت کبھی اس قیادتی بحران کی وجہ سے مبتلا ہوئی ہے؟ کیا ان سب حالات کے باوجود یہ کہا جاتا رہنا چاہیے کہ قیادت سے رشتہ ہرگز نہ ٹوٹے اور اعتماد کمزور نہ ہو؟ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی سخت مجبوری کی حالت میں ملت جس طرح چھوٹی چھوٹی قیادتوں کے تحت پرامن احتجاج جاری رکھے ہوئی ہے اسی طرح npr میں عدمِ تعاون کی ذہن سازی بھی کرنی چاہیے اور یکم اپریل سے نگلنے کے لئے تیار بیٹھے آدم خور عفریت سے ملت کو نجات دلانے کے لئے مقامی علماء ودانشوران کی مدد لیکر جان توڑ کوشش کرنی چاہیے. 

اس کا ادراک ہونا چاہیے کہ ملت انتہائی سخت دور سے گزر رہی ہے اور قیادت کو بچانے یا دفاع کی بجائے ملت کو بچانے اور دفاع کی فکر ہونی چاہیے. قیادت ملت سے ہے، ملت قیادت سے نہیں.

ایک اہم بات یہ ہے کہ اگر ملت نے موجودہ بحرانی وقت میں قیادتوں کی طرف سے عدمِ رہنمائی اور خطرناک بیانات کی وجہ سے ان سے لاتعلقی کا اظہار کرنا شروع کیا تو ممکن ہے کہ قیادتیں اپنے رویے پر نظرِ ثانی کرکے اصلاح کے لئے آمادہ ہوں. ہمیں اس دن کا انتظار ہے. خدا کرے کہ وہ دن آجائے. لیکن اگر اس کے باوجود ان پر اعتماد اور تعلق کو باقی رکھنے اور ان کے غلط کاموں کی پذیرائی کی جاتی رہی تو پھر جو حشر ہوگا اس کا تصور ناممکن ہے.،،

جس حکومت اور اقتدار میں منظم طریقے سے ملک کے قلب اور کپیٹل شہر میں اقلیتوں کی بستیوں پر منصوبہ بند حملے کرکے انہیں اجاڑ دیا گیا ہو، جہاں ملک کی پولیس اور فورس نے کرائے کے قاتلوں اور آتنک وادیوں کے ساتھ دن دہاڑے فائرنگ کرکے بے قصور لوگوں کو زندگی سے محروم کر دیا ہو، جہاں آتش زنی اور لوٹ مار کی وارداتیں انہیں محافظان وطن کی سرپرستی میں انجام پائی ہوں ، اور اس علی الاعلان نسل کشی کے بعد جو تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے بالکل ظاہر اور عیاں ہو،بجائے اس کے تشدد پسندوں کو انصاف وعدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اقلیتوں اور مسلمان نوجوانوں کو ہی مجرم ٹھہرائے جانے اور انہیں گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے، اشتعال انگیز اور نفرت انگیز بیانات دینے والے کوجس کی وجہ سے علاقے کے علاقے آگ کے شعلوں جل اٹھے، قتل وغارت گری اور خوں ریزیوں کی قیامت برپا ہوئی۔ آزاد چھوڑ کر انہیں حوصلوں سے آراستہ کیا جائے،انصاف کی ہلکی سی آواز بلند کرنے والے منصفوں کو ریاست سے باہر کا راستہ دکھا دیا جائے تو ایسی صورت حال اور ایسے ماحول میں ایک موہوم بیماری اور وبا کے متعلق اس قدر حکومتی سطح پر شورو غوغا ایک مضحکہ خیز ہی امر کہا جاسکتا ہے'،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad