تازہ ترین

اتوار، 15 مارچ، 2020

دیوبند احتجاجی مظاہرہ میں ہلاک بچی کی والدہ نوشابہ ہوئی شامل،کہا:انصاف کی لڑائی میں میری بچی قربان ہوئی

دیوبند:دانیال خان(یواین اے نیوز 15مارچ2020)دیوبند کے عیدگاہ میدان میں متحدہ خواتین کمیٹی کے زیر اہتما م شہریت ترمیمی ایکٹ مجوزہ این پی آر اور این آر سی کے خلاف جاری ستیہ گرہ میں شامل خواتین اس وقت حیرت زدہ رہ گئیں جب انہوں نے گزشتہ رات ٹھنڈ لگنے کی وجہ سے انتقال کر گئی معصوم بچی کی والدہ نوشابہ کو اپنے درمیان موجودپایا،منتظمین نے فورا بچی کی والدہ کو مظاہرین کے درمیان سے اٹھاکر اسٹیج پر بلوایا،حالانکہ اس دوران بچی کی والدہ کے آنسوں نہیں رک رہے تھے،اس دوران نوشابہ نے کہا کہ یقیناً ظالم حکمراں کے خلاف انصاف کی لڑائی میں اپنی قیمتی جان قربان کرنے والی ان کی بچی شہید ہوئی ہے اللہ اس کی قربانی کو قبول فر مائے، مگر افسوس صد افسوس مرکز میں بیٹھی ہوئی حکومت اس طرح کے حادثات،واقعات اور ان شہادتوں پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔نوشابہ نے کہا کہ پردہ نشین عورتیں اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے پورے ملک میں سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں کیا وہ ایسے حالات میں اپنے گھر میں موجود رہ کر ماتم منا سکتی ہے۔

جس پر نوشابہ کے ساتھ ساتھ دھرنا گاہ پر موجود خواتین کے بھی آنسوں نکل گئے۔واضح ہو کہ اپنی والدہ نوشابہ کے ساتھ ڈیڈھ ماہ کی شیر خوار بچی منی مستقل طور پر پروٹیسٹ میںشامل ہو رہی تھی گزشتہ روز گھر واپس جاتے وقت تیز آندھی اور بارش کی زد میں آ گئی تھی،باجس کے نتیجہ میں شیر خوار بچی کا انتقال ہو گیا تھا۔بچی کے انتقال کے اگلے ہی روزاس کی والدہ نوشابہ اہلیہ مستری نوشاد شہید بچی کو کفن دفن کر کے دیوبند عیدگاہ میدان میں جاری خواتین کے مظاہرے میں پھر سے شامل ہو گئی۔خواتین نے نوشابہ کو گھر جانے کا مشورہ بھی دیا لیکن نوشابہ نے دھرنا گاہ سے گھر واپس جانے سے صاف انکار کر تے ہوئے کہا کہ جب تک جسم میں جان ہے تب تک احتجاجی مظاہرہ کا حصہ بنی رہوں گی۔وزیر اعلی دفتر نے طلب کی رپورٹ بچی کے ساتھ دھرنا گاہ پرمسلسل پہنچ رہی نوشابہ کی بیٹی کے انتقال کی اطلاع شام ہوتے ہوتے لکھنؤ تک پہنچ گئی،جس پر وزیر اعلی دفتر نے مقامی انتظامیہ سے رپورٹ طلب کر لی۔

رپورٹ طلب کئے جانے سے مقامی انتظامیہ میں افرا تفری کا ماحول بن گیا اور خفیہ محکمہ سے لیکر اعلی افسران تک متوفی بچی کے گھر پہنچ گئے اور انہوں نے بچی کے والدین کے مالی حالات اور آمدنی کے ذرایعہ وغیرہ کی معلومات وزیر اعلی دفتر تک پہنچائی۔حالانکہ اس دوران متحدہ خواتین کمیٹی کی ذمہ داران نے اسٹیج سے بار بار اعلان کرتے ہوئے خواتین سے چھوٹے بچوں کو دھرنا گاہ پر نہ لانے کی اپیل کی،باوجود اس کے بہت سی عورتیں یہی کہتی رہیں کہ اس طرح کے واقعات شاہین باغ میں بھی ہوئے ہیں اور لکھنؤ کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی ہورہے ہیں مگر افسوس صد افسوس مرکز میں بیٹھی ہوئی حکومت اس طرح کے حادثات،واقعات اور ان شہادتوں پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔خواتین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ان کے ساتھ کچھ بھی برا ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری حکومت کی ہوگی۔واضح ہو کہ بچی کے انتقال کے بعدشہر کی عوام میں سخت غم وغصہ کی لہر پائی جارہی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad