تازہ ترین

بدھ، 30 اپریل، 2025

ڈیجیٹل دور میں مزدوروں کے حقوق: چیلنجز اور مواقع

ڈیجیٹل دور میں مزدوروں کے حقوق: چیلنجز اور مواقع
نازش احتشام اعظمی 

ڈیجیٹل انقلاب نے انسانی تاریخ کے دھارے کو بدل دیا ہے، معیشتوں کو نئی شکل دی ہے، اور کام کے تصور کو ازسرنو متعین کیا ہے۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جہاں کلاؤڈ ٹیکنالوجی، الگورتھم، اور مصنوعی ذہانت نے فاصلوں کو سمیٹ دیا، اور لچک و پیداواریت کے نئے افق وا کیے۔ لیکن اس چکاچوند ترقی کے سائے میں مزدوروں کے حقوق زخم کھا رہے ہیں۔ 

ملازمت کی سلامتی، منصفانہ معاوضہ، رازداری، اور مساوات کے بنیادی اصول خطرے میں ہیں۔ یہ مضمون ڈیجیٹل دور کے اس منافقانہ منظرنامے کی کھوج کرتا ہے، جہاں مواقع کی فراوانی اور چیلنجز کی گہرائی ایک ساتھ سانس لیتی ہیں۔ آٹومیشن، گیگ اکانومی، ریموٹ ورک، اور نگرانی کے اثرات کو کھولتے ہوئے، یہ تحریر ایک ایسی مزدوری پالیسی کی راہ تجویز کرتی ہے جو انصاف اور شمولیت کی روح سے ہم آہنگ ہو۔

*ڈیجیٹل کام کی جگہ: لچک یا بوجھ؟*
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے کام کی جغرافیائی اور وقتی حدود کو توڑ دیا ہے۔ ویڈیو کانفرنسنگ، پراجیکٹ مینجمنٹ ٹولز، اور کلاؤڈ بیسڈ سسٹمز نے ریموٹ ورک کو نہ صرف ممکن، بلکہ ناگزیر بنا دیا۔ پیو ریسرچ سینٹر (2023) کے مطابق، امریکی افرادی قوت کا 35 فیصد اب مکمل طور پر گھر سے کام کرتا ہے، جو ایک دہائی قبل محض 7 فیصد تھا۔

 یہ تبدیلی دیہی علاقوں کے باشندوں اور محدود وسائل والے طبقات کے لیے روزگار کے دروازے کھولتی ہے، جبکہ کام اور ذاتی زندگی کے توازن کا وعدہ بھی دیتی ہے۔

مگر یہ آزادی اپنی قیمت مانگتی ہے۔ ریموٹ ورکرز اکثر پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی کی سرحدوں کو دھندلا دیکھتے ہیں، جو ذہنی تھکن اور جلاوٹ کو جنم دیتی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (2024) کا ایک سروے بتاتا ہے کہ 41 فیصد ریموٹ ورکرز اپنے دفتری ہم منصبوں سے زیادہ گھنٹے کام کرتے ہیں، اکثر بغیر اضافی معاوضے کے۔ 

ڈیجیٹل تقسیم کا عفریت بھی سر اٹھاتا ہے، جہاں انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی تک غیر مساوی رسائی پسماندہ طبقات کو مزید پیچھے دھکیلتی ہے۔ “ڈس کنیکٹ کرنے کا حق” اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر تک عالمگیر رسائی جیسے اقدامات ہی اس خلیج کو پاٹ سکتے ہیں، ورنہ یہ تفاوت سماجی ناانصافی کا ایک نیا طوفان برپا کرے گی۔

*گیگ اکانومی: خودمختاری یا استحصال؟*
اوبیر(Uber) ، DoorDash، اور Upwork جیسے پلیٹ فارمز نے گیگ اکانومی کو ڈیجیٹل دور کا ایک چمکتا ستارہ بنا دیا۔ امریکی بیورو آف لیبر سٹیٹسٹکس (2025) کے تخمینے کے مطابق، 36 فیصد امریکی افرادی قوت جلد ہی گیگ ورک سے وابستہ ہوگی۔ یہ نظام ورکرز کو اپنی شرائط پر کام کرنے کی آزادی دیتا ہے، روایتی ملازمت کے جبر سے نجات دلاتا ہے۔ لیکن اس چمکتی سطح کے نیچے ایک تاریک حقیقت چھپی ہے۔


گیگ ورکرز کو آزاد ٹھیکیداروں کے طور پر درجہ بند کیا جاتا ہے، جو انہیں کم از کم اجرت، صحت کی سہولیات، اور اجتماعی سودے بازی جیسے بنیادی حقوق سے محروم کر دیتا ہے۔ اکنامک پالیسی انسٹی ٹیوٹ (2024) کے مطابق، گیگ ورکرز روایتی ملازمین سے 20 فیصد کم فی گھنٹہ کماتے ہیں، جبکہ گاڑی کی دیکھ بھال اور ٹیکسز جیسے اخراجات ان کے کندھوں پر ڈال دیے جاتے ہیں۔ الگوردمک مینجمنٹ کا جال، جو AI کے ذریعے کام تفویض کرتا ہے اور کارکردگی کا جائزہ لیتا ہے، غیر شفاف اور بعض اوقات ظالمانہ ہے۔ ورکرز کو بغیر وضاحت کے معطل کیا جا سکتا ہے، جس سے ان کی معاشی بنیادیں لرزہ براندام ہو جاتی ہیں۔


امید کی کرن موجود ہے۔ یورپی یونین کا پلیٹ فارم ورک ڈائریکٹو (2023) الگوردمک شفافیت اور سماجی تحفظ کو فروغ دیتا ہے، جبکہ کیلیفورنیا کا اسمبلی بل 5 (AB5) گیگ ورکرز کو ملازمین کے حقوق دلانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ اقدامات ایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت کو عیاں کرتے ہیں، جو لچک اور تحفظ کے درمیان توازن قائم کرے۔

*آٹومیشن: ترقی یا تباہی؟*
مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس نے آٹومیشن کو ڈیجیٹل دور کا ایک اہم ستون بنا دیا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم (2025) کی رپورٹ پیش گوئی کرتی ہے کہ 2030 تک 85 ملین ملازمتیں آٹومیشن کی نذر ہو جائیں گی، خاص طور پر کم ہنر والی صنعتوں میں۔ لیکن اسی رپورٹ کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ 97 ملین نئی ملازمتیں تکنیکی شعبوں میں جنم لیں گی۔


یہ تبدیلی ایک تیز دھار تلوار ہے۔ آٹومیشن سے متاثرہ ورکرز اکثر نئی ملازمتوں کے لیے مطلوبہ مہارتوں سے عاری ہوتے ہیں، جو ہنر کے خلا کو گہرا کرتا ہے۔ OECD (2024) کے مطابق، کم آمدنی والے ممالک میں صرف 25 فیصد ورکرز کو تربیت ملتی ہے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 60 فیصد ہے۔ معمر اور پسماندہ طبقات اس طوفان کی زد میں سب سے زیادہ ہیں۔

اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے ازسرنو مہارت سازی، زندگی بھر سیکھنے کے پروگرام، اور عالمی بنیادی آمدنی جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔ اگر دانشمندی سے انتظام کیا جائے تو آٹومیشن محض ملازمتوں کا خاتمہ نہیں، بلکہ ایک زیادہ تخلیقی اور باوقار مزدوری مارکیٹ کی بنیاد بن سکتا ہے۔

*نگرانی: احتساب یا جبر؟*
ڈیجیٹل کام کی جگہ نے نگرانی کا ایک نیا دور شروع کیا ہے۔ گارٹنر (2024) کی رپورٹ کے مطابق، 70 فیصد بڑی کمپنیاں ملازمین کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لیے سافٹ ویئر استعمال کرتی ہیں، جو ایک دہائی قبل صرف 30 فیصد تھیں۔ کی بورڈ اسٹروکس سے لے کر پیغامات کے تجزیے تک، یہ ٹولز ورکرز کی ہر حرکت کو ریکارڈ کرتے ہیں۔

حامی اسے پیداواریت اور احتساب کا ذریعہ قرار دیتے ہیں، مگر یہ رازداری کے بنیادی حق پر ضرب لگاتا ہے۔ 2023 میں ایک بڑے ٹیک ادارے کے خلاف مقدمے نے انکشاف کیا کہ نگرانی سے جمع ڈیٹا غلط استعمال ہوا، جس نے سخت قوانین کی ضرورت کو اجاگر کیا۔

 یورپی یونین کا GDPR ایک نمونہ ہے، لیکن عالمی سطح پر رازداری کے تحفظات اب بھی ناکافی ہیں۔
مزدوروں کے حقوق میں رازداری کا حق بنیادی ہونا چاہیے۔ آجروں کو نگرانی کے طریقوں میں شفافیت لانی چاہیے، ڈیٹا جمع کرنے کو کم سے کم رکھنا چاہیے، اور ورکرز کو اپنے ڈیٹا پر کنٹرول دینا چاہیے۔ بصورت دیگر، یہ نظام اعتماد کی بجائے خوف کی فضا پیدا کرتا ہے۔


*مساوات کے مواقع: ایک روشن امکان*
ڈیجیٹل دور کے چیلنجز کے باوجود، یہ مساوات اور شمولیت کے لیے بے پناہ مواقع بھی لے کر آیا ہے۔ آن لائن لرننگ پلیٹ فارمز جیسے Coursera اور edX نے مہارتوں تک رسائی کو جمہوری بنایا ہے۔ ریموٹ ورک نے معذور افراد، نگہداشت کرنے والوں، اور دور دراز علاقوں کے باشندوں کے لیے نئے دروازے کھولے ہیں۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے ورکرز کو منظم ہونے اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا ہتھیار دیا ہے۔ 

2024 کی ایک سوشل میڈیا مہم نے ایک ای کامرس دیو کو پالیسیاں بہتر کرنے پر مجبور کیا، جو ڈیجیٹل سرگرمی کی قوت کو ظاہر کرتا ہے۔

مستقبل کی راہ
ڈیجیٹل دور میں مزدوروں کے حقوق کا تحفظ ایک ہمہ جہتی جدوجہد مانگتا ہے۔ پالیسی سازوں کو مزدور قوانین کو جدید بنانا ہوگا، آجروں کو شفاف اور شمولیتی ماحول بنانا ہوگا، اور ورکرز کو ڈیجیٹل ٹولز سے اپنی آواز بلند کرنی ہوگی۔ عالمی تعاون کے بغیر یہ خواب ادھورا رہے گا۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی گلوبل کمیشن آن دی فیوچر آف ورک جیسے اقدامات ایک انسان دوست مزدوری مارکیٹ کا خاکہ پیش کرتے ہیں۔

ڈیجیٹل دور ایک دو دھاری تلوار ہے، جو مواقع کی چمک اور چیلنجز کی گہرائی دونوں رکھتا ہے۔ گیگ اکانومی، آٹومیشن، ریموٹ ورک، اور نگرانی جیسے رجحانات مزدوروں کے حقوق پر گہرے اثرات چھوڑ رہے ہیں۔ اگر ہم ان چیلنجز کا مقابلہ دانشمندی سے کریں اور مواقع سے فائدہ اٹھائیں، تو ایک ایسی عالمی مزدوری مارکیٹ ممکن ہے جو منصفانہ، شمولیتی، اور بااختیار ہو۔ یہ سفر صبر و ہمت مانگتا ہے، مگر منزل ایک ایسی دنیا ہے جہاں کام محض روزگار نہیں، بلکہ عزت اور وقار کا ذریعہ ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad