تازہ ترین

منگل، 11 نومبر، 2025

شبلی نیشنل کالج کے شعبۂ عربی میں شبلی، فراہی اور ابوالکلام آزاد کی یاد میں پروگرام کا انعقاد

شبلی، علامہ حمید الدین فراہی اور ابوالکلام آزاد: ایک فکری و علمی مثلث

شبلی نیشنل کالج کے شعبۂ عربی میں شبلی، فراہی اور ابوالکلام آزاد کی یاد میں پروگرام کا انعقاد

اعظم گڑھ، 11 نومبر 2025 (نامہ نگار):
شبلی نیشنل کالج کے شعبۂ عربی میں آج ایک علمی و فکری پروگرام کا انعقاد کیا گیا، جو علامہ حمید الدین فراہی کے یومِ وفات اور مولانا ابوالکلام آزاد کے یومِ پیدائش کی مناسبت سے منظم کیا گیا تھا۔ اس موقع پر تین عظیم مفکرین—شبلی، فراہی اور آزاد—کی فکری خدمات اور باہمی علمی رشتوں پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔

پروگرام کی نظامت محمد فیض، طالب علم شعبۂ عربی نے انجام دی، جبکہ تلاوتِ قرآنِ پاک حافظ عمیر شاہد بدر نے کی۔

پروگرام کی صدارت صدر شعبۂ تاریخ پروفیسر علاؤ الدین خان نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے کہا کہ“18 نومبر کو علامہ شبلی کا انتقال ہوا اور اسی دن علامہ فراہی کی ولادت ہوئی، جبکہ 11 نومبر کو مولانا ابوالکلام آزاد کی پیدائش اور فراہی کی وفات دونوں واقع ہوئیں۔ یہ ایک تاریخی اتفاق ہے جو ان تینوں شخصیات کے مابین گہرے فکری ربط کو ظاہر کرتا ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کا کئی بار اعظم گڑھ آنے کا ارادہ تھا، مگر تحریکِ آزادی کی مصروفیات کے باعث وہ نہ آ سکے۔ علامہ فراہی نے پھریہا میں ان کے قیام کے لیے رہائش اور مطالعہ گاہ بھی تیار کرائی تھی تاکہ وہ “ترجمان القرآن” کی تکمیل کے دوران ان سے استفادہ کر سکیں۔

پروفیسر محی الدین آزاد اصلاحی، صدر شعبۂ عربی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ“شبلی، فراہی اور آزاد—ان تینوں کے درمیان علم و تحقیق کا تسلسل نمایاں ہے۔ شبلی نے فراہی کی علمی صلاحیتوں کو پہچانا، فراہی نے قرآن فہمی کو نیا رخ دیا، اور آزاد نے اسی فکری روایت کو اپنی تفسیر ‘ترجمان القرآن’ میں آگے بڑھایا۔”
انہوں نے بتایا کہ مولانا آزاد پر علامہ فراہی کے نظریۂ “نظمِ قرآن” کا گہرا اثر تھا، اور وہ فراہی کو اپنے فکری امام کے طور پر دیکھتے تھے۔ آزاد کہا کرتے تھے:
“اگر مجھے ان کی صحبت میں زیادہ وقت مل جاتا تو ‘ترجمانُ القرآن’ کو میں اور بہتر انداز میں پیش کر پاتا۔”

مہمانِ خصوصی ڈاکٹر شفیع الزماں، صدر شعبۂ علمِ سیاسیات نے اپنے خطاب میں کہا کہ شبلی اور آزاد دونوں نے ادب، زبان اور ملت کی بیداری کے میدان میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کے افکار میں فکری ہم آہنگی اور عملی جدوجہد کا تسلسل نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ
“جہاں شبلی نے قوم کو تاریخ اور سیرت کے مطالعے کی ترغیب دی، وہیں آزاد نے اسی فکر کو سیاسی جدوجہد کی شکل میں وسعت دی۔”

ڈاکٹر شفیع الزماں نے مزید کہا کہ فراہی اور شبلی کے درمیان گہرا علمی و ذاتی تعلق تھا، اور شبلی کے مشورے پر ہی فراہی نے لارڈ کرزن کے ہمراہ مترجم کی حیثیت سے مشرقِ وسطیٰ کا سفر کیا تھا۔

شعبۂ اردو کے ڈاکٹر محمد رافع نے کہا کہ
“شبلی، فراہی اور آزاد اگرچہ مختلف میدانوں میں سرگرم رہے، مگر ان کا مشترکہ پیغام یہی تھا کہ قرآن کی گہری فہم، تعلیمی بیداری اور فکری آزادی کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔”

اس موقع پر شعبۂ عربی کے طالب علم محمد عمر خان نے ایک مؤثر تقریر پیش کی، جسے سامعین نے بھرپور داد دی۔
اختتامی کلماتِ تشکر مدثر نظر عالم نے ادا کیے۔

پروگرام میں شبلی نیشنل کالج کے معزز اساتذہ—پروفیسر ایس۔ زیڈ۔ علی (جمی)، پروفیسر کلیم احمد، ڈاکٹر شائستہ کمال، ڈاکٹر ماریہ، ڈاکٹر تبریز عالم، اور ڈاکٹر شہر یار—نے شرکت کی، جس سے تقریب کے وقار میں مزید اضافہ ہوا۔

تقریب میں مختلف شعبوں کے طلبہ و طالبات نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی اور مقررین کے خطابات کو بھرپور دلچسپی سے سنا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad