تازہ ترین

جمعرات، 27 فروری، 2020

بھارت ماتا کی جے۔جے سری رام۔وندے ماترم۔محبت کا پیغام یا نفرت کا اعلان۔

ازقلم:-عزیز برنی
انگریزوں کے دور میں لکھی گئی بکم چندر چٹرجی کی کتاب آنند مٹھ کو پڑھا ہے مینے جسمیں وندے ماترم کا نعرہ کب کیوں کس لیے لگایا جاتا تھا یہ تفصیل بیان کر لفظ وندے ماترم کی توہین نہیں کرنا چاہتا۔گجرات 2002 پر مینے لکھی داستانِ ہند،چشمدید گواہ اور ردِ عمل اردو ہندی اور انگریزی میں نعرہ جے سری رام کس عمل کی علامت بنا کل کے وزیرِ اعلیٰ اور وزیر داخلہ جو آج حکومتِ ہند کے وزیرِ اعظم اور وزیر داخلہ ہیں بخوبی جانتے ہیں۔اب دلّی کو دہلانے کیلئے بھارت ماتا کی جے۔آخر کیا چاہتے ہیں آپ ساری دنیا یہ جانے کے یہ مقدس اور قابلِ احترام نعرے سر زمینِ ہند پر بسنے والے ہندوستانیوں کے لیے نفرت قتل آگزنی کا پیغام ہیں۔جب دلّی جل رہی ہو تب لندن میں اس شرم ناک افسوس ناک سانحے پر اظہارِ افسوس کیلئے لوگ سڑکوں پر اتر آئیں کیا یہی شانِ ہند ہے۔

کیا یہی ہے وہ مقصد جو آپ شہریت ترمیمی قانون سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔مذہبی منافرت۔فقوارانہ کشیدگی ۔ ملک کو مذہب کی بنیاد پر بانٹنے کی ایک اور سازش ہاں 1947 کی تقسیم بھی ایک سیاست تھی ایک سازش تھی ہندوستانی عوام کو تقسیم کرنے کے لئے ہندوستانی مسلمانوں کو تقسیمِ کرنے کیلئے اور آج کے حالات کی وجہ بھی یہی ہے 73 برسوں میں بس حکمرانوں کے نام بدلے ہیں نہ انداز بدلا ہے نہ طرزِ عمل نہ سوچ اس وقت کے وزیرِ داخلہ سردار پٹیل کا عمل سامنے تھا لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے اور آج کے وزیرِ داخلہ امت شاہ کا عمل سامنے تھا ڈونالڈ ٹرمپ کے اُس وقت کی لہولہان دلّی کی داستان قلمبند کی تھی مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب انڈیا ونس فریڈم میں اور آج کی دھواں دھواں دلّی کی سیاہ داستان لکھ رہا ہوں میں۔

نہیں بنیگا ہندو راشٹر ان عزائم سے نہیں قائم ہو سکتا منوادی نظام اس طرزِ عمل سے آپنے صرف اسپین کی تاریخ پڑهی ہے ہٹلر کی سوچ کو اپنا روڈ میپ مانا ہے مینے ہندوستان کی تاریخ پڑھں ہے اور ہٹلر کا انجام بھی انگریزوں کے جبر کی داستان پڑھں ہےاور  گاندھی کا پیغام بھی پڑھا ہے انگریزوں کا انجام پڑھا ہے اور اس حقیقت سے آپ بھی انجان نہیں۔کیا  تاریخ کےاس آئینے میں آپکو اپنی صورت نظر نہیں آتی۔راہِ فرار ہے یہ  جناب دھوکا ہے یہ خود اپنے ساتھ اپنے ملک کے ساتھ اپنے ملک کے عوام کے ساتھ اپنی قوم کے ساتھ۔   لہولہان دلّی میری نظروں کے سامنے ہے۔ ہاں قتل کرنے والوں کی تعداد زیادہ تھی اور بچانے والوں کی تعداد کم لیکن چہرے اُنہیں ہندو اور مسلمانوں کے سبکے سامنے ہیں جنہوں نے ایک دوسرے مذہب کے لوگوں کو بچایا ہے شناخت وہی ہیں ہندوستان کی اور وہ اپنے گناہوں سے شرمسار چہرہ چھپائے لوگ نہیں۔اور ہاں اب کس کا چہرہ بے نقاب نہیں۔

دلّی پولس کا دلّی سرکار کا مرکزی حکومت کا نہیں جناب نہیں ہر چہرہ سامنے ہے ۔تقسیمِ وطن کے وقت لاکھوں لوگ مارے گئے اُسکے بعد ہزاروں فرقوارا نہ فسادات میں لاکھوں لوگ مارے گئے،بابری مسجد کی شہادت کے بعد اڈوانی کی رتھ یاترا کے دوران گجرات فسادات میں 73 سال کے دنگوں کی داستان ہے میرے سامنے وہ دنگائی نہیں ہیں اب لیکن ہندوستان اب بھی اپنی جگہ قائم ہے اور رہیگا۔ہاں بس کچھ لوگ کچھ واقعات بدنما داغ کی مانند ہیں ہندوستان کی پیشانی پر جنہیں مٹاینگے وہی جنہوں نے انگریزوں کے وجود کو اس مقدس سرزمین سے مٹایا تھا۔

پلوامہ کے شہیدوں کی تعداد ہے میرے سامنے اور دلّی کی وحشت میں جان گنوانے والوں کی بھی پلوامہ کے پیچھے کیا تھا اور دلّی کے پیچھے کیا ہے۔ خوب سمجھتا ہے اس ملک کا عوام اُسے پتہ ہے اس ملک کی سیاست کو ملک کے امن پسندوں کا خون اپنی سیاست کیلئے درکار ہے ابھی کچھ لوگ چُپ ہیں اور کچھ سڑکوں پر لیکن حالات سے بےخبر کوی نہیں بلا کی ضبط پسند ہے یہ قوم انگریزوں کو 190 برس کا وقت دیا آپکو تو 190 مہینے بھی نہیں ہوئے۔ ہیں آج بھی چندر شیکھر آزاد ،شہید بھگت سنگھ اور اشفاقاللہ خان آپنے دیکھ لیے شاید وہ چہرے۔دیکھ لیا شاید آپنے شہریت ترمیمی قانون کی اصلیت بنقاب کرنے والے مظاہروں میں اور آپ خوفزدہ ہو گئے اور آپکا یہ خوف دلّی کے آسمان کو سیاہ کر گیا عمل کے ردِ عمل کا یہ فلسفہ پرانا ہے صاحب نفرت کے بادل چھنٹ جائیگا محبتوں کا سورج پھر چمکیگا آپ بناتے رہیں نفرتوں کے منصوبے محبتوں کے آبشار اس آگ کو بجھاتے رہینگے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad