تحریر۔ ایم ودود ساجد
ہم دہلی والے اتنے عرصہ سے اس تاریخی حقیقت سے بے خبر ہیں کہ دہلی سے متصل ریاست ہریانہ میں تاریخی آثار قدیمہ اور ان کے کھنڈرات کی بھرمار ہے۔ خبرکا یہ حصہ تو میرے لئے دل خوش کن تھا لیکن خبر کے اگلے حصہ نے دل پر جیسے تیر ونشتر چلادئے۔اور اس خبر کا بھی علم نہ ہوتا اگر یش پال گلیانے نہ بتایا ہوتا۔
یش پال گلیاایک سال پہلے ریٹائرہوئے ہیں۔وہ ہریانہ میں PWDکے ایس ڈی او تھے۔ان کا شوق بھی بڑے کمال کا ہے۔وہ تاریخی محلات145قلعوں145مسجدوں اور مقبروں کے فوٹوپوری پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ کھینچتے ہیں۔لہذا انہوں نے 300بڑی شاندار تصاویر پر مشتمل 146ہریانہ کے آثار قدیمہ145 نامی کتاب شائع کرڈالی۔اس کتاب میں انہوں نے تاریخی عمارتوں کے کھنڈرات کی تصاویر اور ان کی تفصیلات جمع کی ہیں۔اب وہ دوسری کتاب شائع کرنا چاہتے ہیں جس میں ہریانہ کے ان100مقبروں اور دوسری یادگارعمارتوں کی تصاویر ہوں گی جن پر یا تو قبضہ ہوگیا ہے145یا انہیں منہدم کردیا گیا ہے اور یا ان کی حالت اس قدر خراب ہے کہ وہ آج نہیں توکل خود گرجائیں گے۔بعض قلعے اور محل تو انہوں نے ایسے دکھائے کہ جنہیں دیکھ کرفرط آمیزہیبت طاری ہوجائے لیکن امتدادزمانہ اور ان کی دیکھ ریکھ نہ ہونے کے سبب اس انداز سے ان کی بنیادی دیواریں اکھڑ رہی ہیں کہ دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ انہیں بڑی فنکاری کے ساتھ رفتہ رفتہ منہدم ہونے کیلئے تیار کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کچھ بڑے شاندارمقبروں اور بادشاہوں کے محلات کی تصاویربھی دکھائیں۔لیکن انہیں دیکھ کر میرا دل146دھک145سے رہ گیا۔آج آپ کو اس سلسلہ کی دوتصویریں دکھاتا ہوں-
پہلی تصویرفیروز پور جھرکا میں واقع ایک مقبرہ کی ہے۔یہ آبادی سے باہر 100میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔کہتے ہیں کہ اس بستی کو فیروز شاہ تغلق نے 14ویں صدی عیسوی میں آباد کیا تھا۔اب اس مقبرہ پر ایک مقامی باشندہ نے قبضہ کرلیا ہے اور اس نے بیرونی احاطہ میں ایک دیوار اس طرز پر کھڑی کردی ہے کہ اس مقبرہ کے اندر کوئی نہیں جاسکتا۔اس شخص نے اسے اپنی رہائش میں تبدیل کردیا ہے۔اس نے اس مقبرہ کی تمام قدآدم محراب نما کھڑکیاں اینٹیں لگاکر بند کردی ہیں اوراس کے عام دروازوں پر بھی تالے ڈال دئے ہیں۔گلیا کہتے ہیں کہ اس طرح کے درجنوں وسیع وعریض شاندار مقبرے اور محل ہیں جن پر بلڈروں یا مقامی باشندوں کا قبضہ ہوگیا ہے۔انہوں نے ایک بہت بڑے محل نمامقبرہ کی ایسی عمارت دکھائی جس کے دائیں بائیں لوہے کے بڑے دروازے لگاکر اسے اسکول کی عمارت کے اندر لے لیا گیا ہے اوراس کا باقاعدہ اسکول کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔
دوسری تصویربھی ایک مقبرے کی ہے۔کہتے ہیں کہ یہ فیروز پور جھرکا میں سب سے پرانا مقبرہ تھااور اس جیسی طرز تعمیرکا کوئی دوسرا مقبرہ نہ ہریانہ میں ہے اور نہ دہلی میں ہے۔۔۔۔۔
مگر اب یہ مقبرہ اپنی جگہ پر نہیں ہے۔۔۔۔۔
کیونکہ مافیاؤں نے اسے زمین دوز کردیا ہے اور اب وہاں تعمیرات کا منصوبہ ہے۔یش پال گلیا نے ہریانہ سرکار کے خلاف ایک پی آئی اے ایل دائر کی ہے۔وہ ہریانہ وقف بورڈ سے بھی سخت نالاں ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مافیا کی زد میں صرف مقبرے ہی نہیں بلکہ محل145مدرسے اور مسجدیں بھی ہیں۔وہ ہریانہ کے میوات علاقے کے مسلمانوں سے بھی شاکی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ایک کمپنی نے بھی اس طرح کے چندمحلوں اور مقبروں کے تحفظ کے نام پر حکومت سے فنڈ لیا لیکن ان کی اصل ہیئت ہی بدل دی۔بعض مقامات کو تو اس کمپنی نے اپنے استعمال میں ہی لے لیا۔ ۔۔


کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں