اعظم گڑھ۔رپورٹ اشرف اصلاحی
(یو این اے نیوز 8دسمبر 2017)
آج بتاریخ 8 دسمبر 2017 بلرياگنج میں راشٹریہ علماء کونسل کے کارکنوں کی بیٹھک ہوئی، جس میں قومی جنرل سکریٹری مولانا محمد طاھر مدنی صاحب مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے، انہوں نے کارکنوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوزیہ زوجہ حسن عمار کے سانحہ وفات کے تعلق سے میم کے سرگرم کارکن حامد سنجری نے 22 نومبر کو جو ایف آئی آر درج کرائی ہے، اس میں بالکل غلط طور سے کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی مدنی صاحب کو ملوث کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جبکہ معاملہ جو کچھ بھی ہے وہ مولانا کے بڑے بھائی ڈاکٹر عمار صاحب کی فیملی کا ہے، سب لوگ جانتے ہیں کہ دونوں بھائیوں کی فیملی برسوں سے الگ رہتی ہے، اس معاملے میں مولانا کو گھسیٹنے کی کوشش سیاسی رنجش کا نتیجہ ہے جو انتہائی سطحی اور قابل مذمت حرکت ہے، ظلم و ستم کے خلاف اٹھنے والی ایک مضبوط آواز کو دبانے کی یہ کوشش ہرگز کامیاب نہ ہوگی.
9 اکتوبر کو ڈاکٹر عمار صاحب کی بہو فوزیہ کی حادثاتی موت ہوئی، اہل خانہ کے مطابق کولر میں کرنٹ آجانے کی وجہ سے یہ حادثہ رونما ہوا. مرحومہ کے بڑے بھائی حمدان شہر اعظم گڑھ ہی میں رہتے ہیں ان کو اطلاع کی گئی اور وہ ڈاکٹر عمار کے گھر پر آگئے، مرحومہ کے والد اور دوسرے لڑکے دہلی میں رہتے ہیں، ان کو اطلاع کی گئی، سب کے مشورے سے اگلے دن 10 بجے کاوقت نماز جنازہ کے لیے طے ہوا، میت کو غسل دینے والوں میں حمدان کی بیوی بھی شریک تھیں، جنازے میں دہلی سے مرحومہ کے بھائی بھی آکر شریک ہوئے اور نماز جنازہ خود بھائی حمدان نے پڑھائی، مرحومہ کے بہنوئی حامد سنجری بہی جنازے میں شریک تھے، بھائیوں نے بہن کی نعش قبر میں اتاری اور تدفین میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی، اس وقت تک کسی شبہ یا اندیشہ کا اظہار نہیں کیا گیا تھا، ورنہ بآسانی پوسٹ مارٹم ہوجاتا. اس کے کئی دن بعد حامد سنجری چند لوگوں کے ہمراہ جامعہ الرشاد آیا اور مولانا سے ملاقات میں یہ کہا کہ مرحومہ کے متعلقین کو قتل کا شک ہے. مولانا نے کہا اس کے ازالے کیلئے دو راستے ہیں، یا تو شرعی طریقے کے مطابق حلفیہ بیان لیا جائے یا قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے پوسٹ مارٹم کیلئے لاش قبر سے نکلوائی جائے، انہوں نے کہا کہ شرعی طریقہ ہی مناسب ہے، کیونکہ قانونی راستے میں میت کی بے حرمتی ہوگی، چنانچہ تاریخ طے ہوگئی اور متعینہ تاریخ پر متعلق افراد جامعہ الرشاد کی مسجد میں اکٹھا ہوئے اور حسن عمار اور ان فیملی کے تمام ممبران سے حلفیہ بیان لیا گیا، اس کے بعد لوگ آپس میں ملے اور اطمینان کا اظہار کیا کہ اب سب شک شبہ ختم ہو گیا، پہر اچانک تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد اچانک 22 نومبر کو حامد سنجری نے ایف آئی آر درج کرادی اور اس میں غلط طور سے مولانا عامر رشادی مدنی صاحب کو بھی ملزم بنا دیا جبکہ؛
1... مسجد میں حلفیہ بیان کے بعد اس کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں تہی اور اگر یہی کرنا تھا تو حلف لینے کی کیا ضرورت تھی، کیا حلف کے بعد بہی کسی صاحب ایمان کیلئے ایسے اقدام کی گنجائش باقی رہتی ہے؟
2... اگر ایف آئی آر کی بھی تو مولانا کو ملزم بنانے کا کیا تک ہے، معاملہ مولانا کے بھائی ڈاکٹر عمار صاحب کے گھر کا ہے، ملزم بنیں گے تو مرحومہ کے شوہر حسن عمار، والد ڈاکٹر عمار اور دیگر افراد خانہ، حسن کے چچا مولانا رشادی کو کیسے ملزم بنایا جاسکتا ہے؟ بھائی کی بہو کی حادثاتی موت ہوئی تہی، اس لیے ان گھر پر تعزیت میں جانا اور تجہیز و تکفیں میں شرکت کرنا، مولانا کا فرض بنتا تھا، جس کو انہوں نے نبھایا.
یہ پورا معاملہ ایک گہری سازش ہے، مولانا کو بدنام کرنے، کونسل کی آواز کو دبانے اور سیاسی پرخاش کی وجہ سے پریشان کرنے کی یہ ایک انتہائی سطحی اور گھناؤنی چال ہے، نہ تو حلفیہ بیان کا لحاظ کیا گیا اور نہ ہی میت کی نعش کی حرمت کا پاس رکھا گیا. یہ سازش ناکام ہوگی اور جھوٹ کا پردہ فاش ہوگا، ملت کا ہر طبقہ اس موقع پر مولانا کے ساتھ کھڑا ہے، جس کا ثبوت تکیہ کے تاریخی احتجاجی جلسے میں سب کے سامنے آچکا ہے، پرشاسن کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مولانا ایک معزز شخص ہیں اور ایک قومی سیاسی پارٹی کے قومی صدر ہیں، اگر غلط طریقے سے ان پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی گئی تو بہت زبردست عوامی احتجاج ہوگا، جس کی پوری ذمہ داری انتظامیہ پر ہوگی، اس لیے انصاف کے تقاضوں کے مطابق کام کیا جائے، اعلی سطحی جانچ پورے معاملے کی کرائی جائے اور عجلت میں کوئی قدم ہرگز نہ اٹھایا جائے.
شمیم احمد، میڈیا انچارج، راشٹریہ علماء کونسل، بلرياگنج یونٹ. 8 دسمبر 2017

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں