سپریم کورٹ کا عبوری فیصلہ اور وقف ایکٹ: مسلم کمیونٹی کے لیے خوش آئند
ڈاکٹر محی الدین آزاد فراہی
تمہید
17 اپریل 2025ء کو بھارت کی سپریم کورٹ نے "متحدہ وقف مینجمنٹ، بااختیاری، کارکردگی اور ترقی ایکٹ 1995" میں ترمیمات کے خلاف دائر متعدد رٹ پٹیشنز پر ایک اہم عبوری فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ نہ صرف قانونی دنیا میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ بھارت کی مسلم اقلیت کے لیے بھی ایک بڑی راحت کا باعث بنا ہے۔
معزز چیف جسٹس جناب سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشناتھن پر مشتمل بنچ نے متنازعہ ترامیم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے جو عبوری احکامات جاری کیے، وہ ایک جانب عدالتی حکمت، بصیرت اور توازن کا مظہر ہیں اور دوسری جانب اقلیتوں کے آئینی تحفظات کی پاسداری کی علامت بھی۔
وقف ایکٹ کا پس منظر اور ترمیمی تنازعہ
1995ء کا وقف ایکٹ بھارت میں مسلم وقف املاک کے انتظام و انصرام کو منظم کرنے کے لیے نافذ کیا گیا تھا۔ یہ املاک، جو بیشتر تاریخی اور مذہبی حیثیت کی حامل ہیں، مساجد، مدارس، ہسپتالوں، اور قبرستانوں جیسے رفاہی و دینی مقاصد کے لیے وقف کی گئی تھیں۔ تاہم، 2025ء میں حکومت کی جانب سے کی گئی نئی ترامیم میں بعض ایسی دفعات شامل کی گئیں جنہوں نے شدید عوامی اور علمی ردعمل کو جنم دیا۔
ان ترامیم میں وقف بورڈز میں غیر مسلم افراد کی تقرری، وقف املاک کی ممکنہ ڈی نوٹیفکیشن یا درجہ بندی میں تبدیلی، اور ریاستی و مرکزی حکومت کی نگرانی میں اضافے جیسے اقدامات شامل تھے۔ ناقدین نے ان تبدیلیوں کو وقف اداروں کی خودمختاری پر ضرب، اور آئین ہند کے آرٹیکل 25 اور 26 کے تحت مذہبی آزادی کے منافی قرار دیا۔
عدالتی کارروائی اور درخواست گزاران
اس حساس معاملے پر نمایاں سیاسی و سماجی شخصیت جناب اسدالدین اویسی نے لیڈ کیس (WP (C) No. 269/2025) دائر کیا، جس میں 2025 کی ترمیم کے آئینی جواز کو چیلنج کیا گیا۔ ان کے ساتھ جناب ارشد مدنی، محمد جمیل مرچنٹ، محمد فضل الرحیم، اور شیخ نور العین حسن سمیت دیگر سرکردہ شخصیات نے بھی اس قانونی جدوجہد میں شمولیت اختیار کی۔ اس مقدمے میں سینئر وکلاء مثلاً کپل سبل، ڈاکٹر ابھیشیک منو سنگھوی، اور حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے سالسٹر جنرل تُشار مہتا کی موجودگی اس مقدمے کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتی ہے۔
سپریم کورٹ کا عبوری فیصلہ: ایک جامع جائزہ
عدالت عظمیٰ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد جو عبوری احکامات جاری کیے، وہ نہایت بصیرت افروز اور توازن سے بھرپور ہیں۔ اس فیصلے کی چند نمایاں شقیں درج ذیل ہیں:
1. تقرریوں اور املاک کی تبدیلی پر پابندی
عدالت نے حکومت کی اس یقین دہانی کو تسلیم کیا کہ 5 مئی 2025 تک نہ تو مرکزی وقف کونسل اور نہ ہی ریاستی وقف بورڈز میں کوئی نئی تقرری ہوگی، اور نہ ہی کسی وقف جائیداد کو ڈی نوٹیفائی یا اس کا درجہ تبدیل کیا جائے گا۔ اس حکم نے فی الوقت وقف املاک کو ممکنہ نقصان سے محفوظ کر دیا۔
2. لیڈ کیسز کی وضاحت
عدالت نے اویسی کی درخواست سمیت پانچ پٹیشنز کو لیڈ کیس قرار دیتے ہوئے باقی درخواستوں کو مداخلت کی حیثیت دی، تاکہ اصل قانونی سوالات پر مرتکز اور جامع سماعت ممکن ہو سکے۔
3. جوابات اور جواب الجواب کی مدت
عدالت نے یونین آف انڈیا، ریاستی حکومتوں اور وقف بورڈز کو سات دن میں جوابات جمع کروانے کا حکم دیا، جبکہ درخواست گزاروں کو پانچ دن میں جواب الجواب دائر کرنے کی مہلت دی گئی، تاکہ مقدمے کی پیش رفت منظم انداز میں ہو۔
4. نودل کونسل کی تقرری
عدالت نے درخواست گزاران اور حکومتی نمائندگان کے مابین بہتر رابطہ کاری اور دستاویزات کی منتقلی کے لیے نودل کونسل کے تقرر کا حکم دیا، جو عدالتی عمل کو مزید سہل بنانے کا ذریعہ ہوگا۔
عبوری حکم کی خوش آئند نوعیت: مسلم کمیونٹی کا مؤقف عدالت کا یہ فیصلہ ملک بھر کی مسلم کمیونٹی کے لیے امید کا پیغام ثابت ہوا۔ اس حکم نے نہ صرف وقف بورڈز میں غیر مسلم اراکین کی تقرری کو عارضی طور پر روکا بلکہ املاک کی تبدیلی یا ضبطی جیسے اہم خدشات کو بھی ختم کر دیا۔ اسلامی شریعت کے مطابق وقف جائیدادیں ایک مقدس امانت ہوتی ہیں جنہیں صرف مسلم متولی ہی سنبھال سکتے ہیں۔ عدالت نے اپنے عبوری فیصلے میں اسی مذہبی تقدس کا لحاظ رکھا۔
اس کے علاوہ، ملک میں وقف جائیدادوں پر سرکاری قبضے، غیر قانونی تعمیرات، اور متنازعہ استعمال جیسے مسائل پہلے ہی سے سنگین تشویش کا باعث بنے ہوئے تھے۔ عدالت کا یہ حکم ان املاک کے لیے ایک حفاظتی ڈھال فراہم کرتا ہے، جس سے ان کی موجودہ حیثیت کو وقتی طور پر استحکام حاصل ہوا ہے۔
اویسی کی قیادت اور عدالتی حساسیت
اس مقدمے میں اسدالدین اویسی کی قیادت نے ایک بار پھر ان کی اقلیتوں کے حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد کو نمایاں کیا۔ عدالت کی جانب سے ان کے مقدمے کو لیڈ کیس کے طور پر تسلیم کرنا اس امر کا اظہار ہے کہ عدلیہ کو مسلم کمیونٹی کی آئینی اور مذہبی حساسیت کا مکمل ادراک ہے۔
آئندہ کا راستہ اور ممکنہ اثرات
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ فیصلہ حتمی نہیں بلکہ عبوری نوعیت کا حامل ہے۔ آئندہ سماعت، جو 5 مئی 2025 کو متوقع ہے، اس مقدمے کے رخ کا تعین کرے گی۔ اگر عدالت درخواست گزاروں کے دلائل کو قبول کر لیتی ہے تو یہ ترمیم منسوخ یا محدود ہو سکتی ہے، جس سے وقف اداروں کی خودمختاری کو تقویت ملے گی۔ بصورت دیگر، اگر فیصلہ حکومت کے حق میں آیا تو اس سے وقف مینجمنٹ میں بنیادی تبدیلیاں ممکن ہو سکتی ہیں۔
یہ مقدمہ بھارت میں مذہبی آزادی اور سرکاری مداخلت کے درمیان نازک توازن کی ایک اہم آزمائش ہے۔ جہاں 1995ء کا ایکٹ خود ایک اعتدال پسند قانون تھا، وہیں 2025ء کی ترامیم اس توازن کو سرکاری غلبے کی طرف لے گئیں، جس کا ازالہ اب عدلیہ کے دائرۂ اختیار میں ہے۔
چیلنجز اور محتاط تنقید
اگرچہ عدالت کا فیصلہ عمومی طور پر قابلِ تحسین ہے، مگر کچھ حلقوں نے اس میں وقت کی قلت، اور وسیع تر روک نہ لگانے جیسے پہلوؤں پر تنقید بھی کی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سات دن کی مہلت حکومت جیسے وسیع ادارے کے لیے ناکافی ہو سکتی ہے، جبکہ ریاستی حکومتوں کے کسی ممکنہ یک طرفہ اقدام کو روکنے کے لیے مزید سخت احکامات کی ضرورت تھی۔
دوسری جانب حکومت کے حامی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ترامیم وقف مینجمنٹ کو زیادہ شفاف اور مؤثر بنانے کی کوشش کا حصہ ہیں، تاکہ دہائیوں پر محیط بدانتظامی اور کرپشن کا خاتمہ ممکن ہو۔
سپریم کورٹ کا 17 اپریل 2025 کا عبوری فیصلہ نہ صرف قانونی بصیرت کا آئینہ دار ہے بلکہ اقلیتوں کے آئینی تحفظات کے لیے عدلیہ کے غیر جانبدارانہ کردار کا مظہر بھی ہے۔ اس فیصلے نے وقف املاک کی عارضی حفاظت، مذہبی خودمختاری کے احترام، اور قانونی عمل کی شفافیت کو یقینی بنایا۔ 5 مئی کی سماعت میں عدلیہ کیا رخ اختیار کرے گی، اس پر پورے ملک کی نظریں مرکوز ہیں۔ فی الوقت، یہ فیصلہ مسلم کمیونٹی کے لیے ایک محفوظ سانس اور آئینی امید کی علامت بن کر سامنے آیا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں