تازہ ترین

پیر، 12 دسمبر، 2022

قدیمی دینی درسگاہ مدرسہ ضیاء العلوم کی علمی روشنی اب ماند پڑتی جارہی ہے!

جونپور ۔تحریر ۔حاجی ضیاء الدین ،مدارس نے ہر زمانےمیں علمی شمع روشن کی ہے مدارس سے فارغ ہوئے لعل و گوہر ملک ہی نہیں بیرون ممالک میں مذہب اسلام کی تبلیغ کے علاوہ درس و تدریس کاکام انجام دیا ہے تو ہیں بعض فارغین طلبہ طبی و دیگر شعبہ میں اپنی قابلیت کے ذریعہ عوام الناس کو فائدہ پہنچا یا ہے ضلع مرکز سے تقریبا ً ۲۲ کلو میٹر دور مانی کلاں سب سے بڑی آبادی والا قصبہ ہے ۔ 

آزادی سے قبل قائم قصبہ مانی کلاں کے  مدرسہ ضیاٗء العلوم سے کئی دہائیوں سے قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں سیکڑوں طلبہ کا قلب علوم دینہ سے مزین ہو تا رہا  اور علاقہ بھی علمی سیراب ہو تا رہا لیکن عدم توجہی سے بڑا نقصان ہوا ہے ۔ بتاتے ہیں کہ علاقہ کے بے شمار طلبہ مانی کلاں کی شاہی جامع مسجد میں تعلیم حاصل کر تے تھے گائوں سے مشرقی جانب منول تالاب کے کنارے چند افراد نے اپنی زمین مدرسہ قائم کئے جانے کی خواہش ظاہرکر تے ہوئے وقف کر دیا تھا چند معززین کی موجودگی میں ۱۹۳۴ میں مدرسہ ضیاء العلوم کی بنیاد ڈالی گئی مدرسہ کی ابتدا؍ چھپر سے ہو ئی جس میں پہلے استاد مولانا عبدالحلیم  بانی مدرسہ عربیہ ریاض العلوم ؒ تعینات ہوئے اور چند بچوں کے ساتھ مدرسہ میں  تعلیم نظام قائم ہو ا مدرسہ میں طلبہ کی کثرت ہو ئی تو مولانا ضیاء الحق فیض آبادی و دیگر اساتذہ تعینات ہو ئے ان اساتذہ کی محنت و لگن سے مدرسہ پروان چڑھتا گیا۔ 

مولانا کمال الدین اورمفتی حنیف ؒ مدرسہ کے اوولین طلبہ میں تھے بعد میں مولانا شیخ یونس مظاہری ؒ  جونپوری ، مولانا عبدالعلی مظاہری مانوی نے عربی پنجم تک تعلیم حاصل کی جن کا شمار کبار علماء میں ہو تا ہے ۔


مدرسہ میں پرائمری سے لے کر حفظ تک کی درسگاہیں قائم کی گئیں طلبہ کی کثرت ہو ئ تو چھپر سے شروع ہوئے مدرسہ میں عمارتوں میں تعمیراتی کام کر وائے گئے بیرونی طلبہ کے قیام گاہ سمیت درسگاہ کی عمارتوں کی تعمیر کی گئی۔ مدرسہ کے پہلے ناظم مفتی ناظر مانوی ؒ بنائے گئے مفتی ناظر مانوی ؒ مولانا عبدالغنی پھول پوری ؒ کے پہلے خلیفہ تھے اور بیت العلوم سرائے میر کے ناظم بھی تھے ان کے انتقال کے بعد مختلف افراد نظامت کی ذمہ داریاں سنبھالتے رہے ۱۹۹۴ میں مولانا عبدالعلی مظاہری جو کی مدرسہ ضیا ء العلوم کے طالب علم رہے نظامت کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے لگے ان کے انتقال کے بعد موجودہ وقت میں محمد زاہد حلیمی نبیرہ مولانا عبدالماجد مانوی جونپوری ؒ نظامت کے لئے منتخب کئے گئے  ۔ 


جن کی نظامت میں مدرسہ آگے بڑھ رہا ہے اور اپنے عہد رفتہ کو دوبار پانے کی کوشش کررہا ہے جن سے گائوں والوں کو بہت سے امیدیں ہیں آزادی سے قبل وسائل کم تھے علاقہ میں مدارس و مکاتب کا نظام نہ ہو نے کی وجہ سے علاقائ طلبہ کے علاوہ بیرون اضلاع سے طلبہ تعلیم حاصل کر نے پہنچتے تھے ۷۰ کی دہائی کے بعد تک مدرسہ طلبہ و اساتذہ کی کثرت سے گلزار رہتا تھا مدرسہ کی درو دیوار جہاں دیدہ زیب ہو ا کر تی تھی وہیں مدرسہ میں طلبہ کی کثرت سے گائوں کی رونق دوبالا تھیں ۔

طلبہ کی کثرت ہوئی تو گائوں کے ہی ایک فرد نثار احمد عرف نسو سیٹھ نے دو عدد سیع ہال اور چند کمروں کی تعمیرکروائی لیکن افسوس کہ طلب کی کمی اور عدم توجہی کی وجہ سے موجودہ وقت میں چند کمرے زمیں بوس ہو چکے ہیں تووہیں جو مدرسہ اپنے شاگردوں کے نایاب گوہر بننے کا ذریعہ بنا ہے وہی مدرسہ اپنی افادیت کھوتا چلا گیا جس کا نقصان کہیں نہ کہیں علاقہ کو اٹھا نا پڑا   ۔ 


حاجی نثار احمد نے مدرسہ سے متصل مسجد کا ۷ منزلہ بلند وعالیشان مینار تعمیر کروا یا ہے جس کو میلوں دوری سے آج بھی دیکھا جاسکتا ہے گائوں کے نوجوانوں نے مل کر حالیہ دنوں تزئین کا ری کر وا ئی ہے جس کو دیکھ کر رشک ہو تا ہے ۔ موجودہ وقت میں مدرسہ میں ۲۵ سے زائد کمرے ہیں اور تقریبا ً ۴۰۰ طلبہ زیر تعلیم ہیں پرائمری کے علاوہ حفظ کی ۴ درسگاہیں قائم ہیں اس کے علاوہ عربی دوم تک تعلیم کا نظام قائم ہے مدرسہ کے فارغین طلبہ کی طویل فہرست ہے جن میں بعض شاگرد نایاب گوہرثابت ہو ئے ہیں جن کے کارنامے او ر قربانیوںکو صدیوں یاد رکھا جا ئے گا اورا ن کے شاگرد ان کے حق میں دعا ئے خیر کر تے رہیں گے اور مذہب اسلام کی آبیاری کر تے رہیں گے نیز جن کانام ضلع ہی نہیں بیرون ممالک میں بھی احترام سے لیا جا تا ہے ۔


 مدرسہ سے فارغ طلبہ میں مفتی حنیف جونپوری ؒمرتب فتاوی ریاض العلوم گورینی، مولانا کمال الدین مانوی ، مولانا شیخ یونس جونپوری ؒ  امیر المومنین فی الحدیث و سا بق شیخ الحدیث سہار ن پو ر ، قاری خلیق اللہ بستوی حال مقیم مکہ مکرمہ ، مولانا مقبول برنگی بانی مدرسہ روضتہ العلوم بستی ، قاری انیس الرحمنؒ ، قاری اسماعیل صدر القراء مدرسہ ریاض العلوم چوکیہ گورینی  ، مولانا عبدالعزیز جمدہاں ، مولانا عبدالرشید بستوی ،، ؒمولانا اکرام اللہ فیضی ، مولانا عبدالمجید مانوی ، مولانا ابو اکرم ندوی ،حال مقیم آکسفورڈ یونیورسٹی ، مولانا عبدالستار بستوی ، حافظ ومولوی محمد عمر ، راجیہ سبھا کے سابق صحافی اشفاق احمد ، جمشید احمد ، پرائمری ٹیچر ، ڈاکٹر راشد ، ڈاکٹر شفیق احمد، محمد عارف ایڈووکیٹ وغیرہ جن میں سے کچھ ایسے بھی جو جو اپنی خدمات سے عوام کو مستفید کر رہے ہیں ۔مدرسہ کے پاس تقریبا ً ۵ بیگھہ اراضی ہے مدرسہ کے ذمہ داران مدرسہ میں تعلیمی نظام وغیرہ کو پروان چڑھانے میں مصروف ہیں عدم توجہی کہ وجہ سے بڑا نقصان ہو اہے ۔


جس کی تلافی کے لئے دن ورات محنت کی ضرور ت ہے ۔وہیں مدرسہ کو پھر سے اپنا کھویا ہوا وقا ر و شاندار ماضی کے حصول کے لئے گائوں والوں کے علاوہ علاقہ کے لوگوں کو ہر طرح کا تعاون پیش کر نا ہو گا ورنہ اتنا شاندارماضی رکھنے والا علمی اثاثہ کھو دینے کے بعد آنے والی نسلوں کو تعلیمی خسارہ سے دور چار ہو نا پڑے گا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad