دو رُخی انصاف ---
(روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)
ودود ساجد
گزشتہ 13 اکتوبر کو سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے حجاب کے تعلق سے کرناٹک ہائی کورٹ کی تین رکنی بنچ کے فیصلہ پر’دو مختلف فیصلے‘ دے کر اچھا کیا۔ اب طے شدہ اصول کے مطابق اس مقدمہ کی سماعت آئینی بنچ کرے گی۔ یہ بنچ تین ججوں کی بھی ہوسکتی ہے اور پانچ کی بھی۔
آج یعنی 16 اکتوبر کو جس وقت یہ کالم شائع ہوکر منظر عام پر آرہا ہے اس دو رکنی بنچ کے ایک جج‘ جسٹس ہیمنت گپتا بھی سبکدوش ہورہے ہیں۔ان کی رسمی الوداعی تقریب 15 اکتوبر کو ہوچکی ہے۔
جسٹس گپتا نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کو درست قرار دے کر اسے باقی رکھا ہے۔ان کے برعکس جسٹس سدھانشو دھولیا نے حجاب پر پابندی کے فیصلہ کو غلط ٹھہراکر اسے کالعدم قرار دیا ہے۔جسٹس گپتا اس دو رکنی بنچ کے سربراہ تھے۔
اب حقیقی صورتحال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے منقسم فیصلہ کے باوجود کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ بدستور اس وقت تک باقی رہے گا جب تک بڑی بنچ اسے کالعدم قرار نہ دیدے۔
بعض تجزیہ نگاروں نے جسٹس سدھانشو دھولیا کے فیصلہ کے چند نکات کا جائزہ لیاہے۔بعض حلقے بہت خوش ہیں اور جسٹس دھولیا کی تعریف اور جسٹس گپتا کی تنقیص کر رہے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ جسٹس ہیمنت گپتا کے فیصلہ کا بھی تجزیہ کیا جانا چاہئے۔ جسٹس سدھانشو دھولیا نے بہت شاندار‘ جامع اور آئینی تقاضوں کے عین مطابق فیصلہ لکھا ہے۔انہوں نے اس قضیہ کے صرف قانونی اور آئینی پہلوئوں سے ہی بحث نہیں کی ہے بلکہ جنسی حساسیت اور سماجی‘ انسانی اور ثقافتی پہلوئوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھا ہے۔
جسٹس ہیمنت گپتا کا فیصلہ حجاب مخالف عناصر کو فطری طور پر اچھا اور حجاب کے حامی عناصر کو یقینی طور پر برالگے گا۔ ان کے فیصلہ میں قانونی اور آئینی عناصر کی طرف کم اور (منفی) سیکولرازم کی طرف جھکائو زیادہ محسوس ہوتا ہے۔
جسٹس دھولیا نے حصول علم کے بنیادی حق اور اہم ضرورت کے علاوہ بچیوں کو پیش آنے والی سماجی اور گھریلو دشواریوں کو محور بناکر فیصلہ لکھا ہے جبکہ جسٹس گپتا نے اس پہلو کو نظر انداز کردیا ہے۔میرا خیال ہے کہ جسٹس دھولیا نے بڑی بنچ کی فہم وبصیرت اور غور وخوض کیلئے ایک ایسا خط کھینچ دیا ہے کہ جس کو نگاہ میں رکھے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکے گی۔
سپریم کورٹ میں جب حجاب کے قضیہ پر بحث شروع ہوئی تھی تو جسٹس ہیمنت گپتا کے پے درپے سوالات سے ہی یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ کم سے کم ان کا رجحان کیا ہے۔وہ سکھ طلبہ وطالبات کی پگڑی اور چُنری سے حجاب کاموازنہ کرنے کو غیر درست قرار دے رہے تھے۔شاید اسی لئے دوران بحث سینئر ایڈوکیٹ دیودت کامت نے سب سے پہلے مطالبہ کیا تھا کہ اس قضیہ کو آئینی بنچ کے حوالہ کیا جائے۔
بعد میں سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون نے بھی بڑی بنچ کا مطالبہ کیا تھا۔کئی وکلاء نے تو اس مقدمہ کو 9 ججوں کی اُس بنچ میں بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا جو کیرالہ کے سبری مالا مندر میں نوجوان اور حیض کی اہل خواتین کے داخلہ پر پابندی سے متعلق مقدمات اور ان کے فیصلو ں پر نظر ثانی کر رہی ہے۔
اب قدرت نے خود ہی یہ انتظام کردیا کہ یہ قضیہ آئینی اور بڑی بنچ کے حوالہ کردیا گیا۔وہ صورت بڑی عجیب اور تکلیف دہ ہوتی جب سپریم کورٹ کی یہ دو رکنی بنچ کرناٹک ہائی کورٹ کی ’فل بنچ‘ کے فیصلہ کو متفقہ طور پر درست قرار دیدیتی۔
ابھی تک حجاب کے حامی وکلاء ہی اپنے دلائل پیش کر رہے تھے۔کرناٹک ہائی کورٹ نے بھی متفقہ طور پر حجاب حامی وکلاء کے تمام اندیشے اور دلائل مسترد کردئے تھے۔ لیکن سپریم کورٹ کے اس منقسم فیصلہ کے بعد اگر ایک طرف ایک جج نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کو کمزور دلائل دے کر درست قرار دیا ہے تو دوسری طرف ایک جج نے مضبوط دلائل دے کرحجاب کے حامی عناصر اور وکلاء کے دلائل کو آئینی اور قانونی معتبریت بخش دی ہے۔
جسٹس گپتا کے فیصلہ کو پڑھے بغیر لوگ لعن طعن کر رہے ہیں۔یہ راست رویہ نہیں ہے۔یہ درست ہے کہ انہوں نے حجاب کے خلاف فیصلہ دیا ہے لیکن انہوں نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کے برخلاف اپنے فیصلہ کی تفصیلات میں اسلام میں حجاب کی لازمیت یا فرضیت کے سوال پر کوئی رائے دینے سے گریز کیا ہے۔انہوں نے لکھا ہیکہ ’’قطع نظر اس کے کہ آیا حجاب ایک مذہبی فریضہ ہے یا لازمی مذہبی فریضہ ہے یا اسلامی عقیدہ رکھنے والی خواتین کاایک سماجی عمل ہے‘ حجاب یا اسکارف پہننے کے تعلق سے (مذہب اسلام کے پیروکاروں کی) تشریحات‘ ایک فرد کا عقیدہ ہے‘مذہبی عقیدہ کو ریاست کے صرفہ پر چلنے والے اسکولوں میں نہیں لے جایا جاسکتا‘طلبہ ان اسکولوں میں اپنے عقیدہ کو لے جاسکتے ہیں جو انہیں حجاب پہننے یا تلک لگانے کی اجازت دیں‘حکومت کے ذریعہ چلائے جانے والے اسکولوں میں سرکاری حکم کے ذریعہ حجاب پہننے پر پابندی عاید کی جاسکتی ہے۔‘‘
کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ حجاب اسلام میں لازمی مذہبی عمل نہیں ہے۔یہاں یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ کی اس فل بنچ میں‘ جس نے حجاب پر پابندی عاید کرنے کے سرکاری فیصلہ کو جائز قرار دیا تھا اور حجاب کو اسلامی تعلیمات کا لازمی حصہ ماننے سے انکار کیا تھا‘ ایک مسلم خاتون جج بھی شامل تھیں ‘بالکل اسی طرح جس طرح بابری مسجد کے مقدمہ کی سماعت کرنے والی سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ میں جسٹس ایس عبدالنظیر شامل تھے۔
جسٹس سدھانشو دھولیا نے اپنے فیصلہ میں لکھا: ’’ایک بچی کو اپنے گھر میں اورگھر سے باہر حجاب پہننے کا حق ہے اور یہ حق اسکول کے دروازہ پر جاکر رک نہیں جاتا۔وہ بچی اپنے اسکول کے دروازہ پر اور یہاں تک کہ کلاس روم میں اپنا وقار اور اپنی ’پرائیویسی‘ اپنے ساتھ لے جاتی ہے‘وہ اپنے بنیادی حقوق محفوظ رکھتی ہے‘یہ کہنا کہ یہ بنیادی حقوق کلاس روم کے اندر آکر فروعی بن جاتے ہیں پوری طرح غلط ہے۔‘‘
جسٹس دھولیا نے نہ صرف کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دے دیا بلکہ حکومت کے اس حکمنامہ کو بھی منسوخ کردیا جس کے تحت اسکولوں اور کالجوں کی ڈویلپمنٹ کمیٹیوں کو اس کا اختیار دیدیا گیا تھا کہ وہ جو چاہیں یونیفارم ترتیب دیں۔
انہوں نے مزید لکھا: ہم ایک جمہوریت اورقانون کی حکمرانی میں رہتے ہیں‘ اور وہ قوانین جو ہم پر لاگو ہوتے ہیں ہندوستان کے آئین کی کسوٹی پر کھرے اترنے چاہئیں۔ہمارے آئین کے بہت سے پہلوئوں کے درمیان ایک پہلو ’بھروسہ‘ کا ہے' ہمارا آئین بھی دراصل بھروسہ کی ہی ایک دستاویز ہے۔یہ وہ بھروسہ ہے جو اقلیتوں نے اکثریت پر کیا ہے۔بچیوں کو حجاب پہننے سے روکنے والا سرکاری حکمنامہ ہمارے برادرانہ تعلق اورانسانی وقار کی آئینی اقدار کے بھی خلاف ہے۔‘‘
اس کے برخلاف جسٹس ہیمنت گپتا نے 11سوالات قائم کرکے ان کے جو جوابات لکھے ان کے مطابق انہوں نے فیصلہ میں لکھا کہ وہ سب اپیل کنندگان کے خلاف جارہے ہیں اور یہ کہ اس مقدمہ کو پانچ ججوں یا 9 ججوں کی آئینی بنچ کے حوالہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن ان کے فیصلہ کی یہ ’خواہش‘ دم توڑ گئی اورجسٹس سدھانشو کے خیالات کی بدولت چیف جسٹس نے اس معاملہ کو بڑی آئینی بنچ کے حوالہ کردیا۔
جسٹس گپتا نے لکھا کہ اسکول میں حجاب پہننے کی ضد سیکولر اقدار کے خلاف ہے۔انہوں نے دستور کی دفعہ 19کے سب کلاز (2) کے تحت اظہار رائے کی آزادی کی دلیل کو مسترد کردیا۔ انہوں نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کا جس انداز سے دفاع کیا ہے اس سے زیادہ زور دار انداز میں تو خود کرناٹک ہائی کورٹ نے ہی سرکاری حکم نامہ اور حجاب پر پابندی کے فیصلہ کا دفاع کیا ہے۔ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سمیت تینوں ججوں نے پابندی کے فیصلہ کو جائز قرار دیتے ہوئے کچھ تو دلائل دے کر جواز پیدا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن سپریم کورٹ کے جسٹس گپتا نے تو اپنے دلائل کو مضبوط بناکر پیش کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔
اصل سوال حکومت اورکرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کے جواز اور عدم جواز کا ہی تو تھا؟اس اعتبار سے جسٹس دھولیا نے زیادہ مضبوطی اور قطعیت کے ساتھ قابل قبول دلائل پیش کئے۔
جسٹس دھولیا اور جسٹس گپتا کے فیصلہ کے مزید نکات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے لیکن ایک اہم سوال گردش کررہا ہے کہ آخر سبکدوش ہونے والے جج ہی اس طرح کے فیصلے کیوں دے کر جارہے ہیں؟ سینئر ایڈوکیٹ اسد علوی کے مطابق سابق چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر‘ کے ایس کیہر‘ جسٹس بالا کرشنن‘ جسٹس گوگوئی اور جسٹس ارون مشرا نے متعدد اہم معاملات میں اپنی سبکدوشی کے آس پاس ایسے ہی فیصلے دے کر انصاف پسندوں کی تشویش کو دوگنا کیا۔
یہاں کچھ استثناء کا ذکر ضروری ہے۔سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس دیپک گپتا اور مدن بی لوکور اور الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس‘ جسٹس پردیپ ماتھر نے اپنے آخری ایام میں بھی قابل ذکر فیصلے صادر کئے۔جسٹس پردیپ ماتھر نے یوپی میں سی اے اے مخالف مظاہروں میں حصہ لینے والے متعدد ممتاز شہریوں کی تصویروں والے فلیکس اور بورڈ چوراہوں پر آویزاں کرنے کے خلاف سخت فیصلہ صادر کیا تھا۔انہوں نے ہی حکومت کے ذریعہ ان پر جرمانے عاید کرنے کے فیصلہ کو پلٹا تھا۔یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ مذکورہ سبکدوش ججوں میں جسٹس گوگوئی‘ جسٹس کرشنن اور جسٹس مشرا کو ریٹائرمنٹ کے بعد عہدے عطا کئے گئے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس‘ یو یو للت کے تعلق سے بھی بہت سے اندیشے اور وسوسے انصاف پسندوں کو پریشان کر رہے تھے۔وہ سہراب الدین شیخ کے معاملہ میں امت شاہ کے وکیل تھے۔لیکن انہوں نے تمام اندیشوں کے برعکس رویہ اختیار کرکے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔گوکہ ان کی مدت عہدہ بہت کم ہے لیکن انہوں نے اسی مدت میں کچھ بڑے کام کرڈالے۔ممکن ہے کہ حجاب پر سماعت کیلئے تشکیل ہونے والی آئینی بنچ میں وہ خود بھی شامل رہیں۔
یہاں اس پہلو پر زعماء ملت کو بھی غور کرنا چاہئے کہ کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے بعد بعض مسلم طالبات پر اس کا گہرا منفی اثر پڑا ہے۔انڈین انسٹی ٹیوٹ آف دلت اسٹڈیز کے ایک سروے کے مطابق 2007-8 کے بعد 2018 تک اعلی تعلیم کے میدان میں جہاں مسلم طالبات کی شرح بڑھی ہے وہیں کرناٹک میں کالج کی سطح پر کم سے کم 110مسلم طالبات نے ٹرانسفر سرٹیفکٹ حاصل کرنے کی درخواست دی ہے۔
یہ موضوع تفصیل طلب ہے اور الگ سے لکھے جانے کا متقاضی ہے لیکن فی الحال کم سے کم یہ سوال تو کیا ہی جاسکتا ہے کہ اگر حجاب پہننے والی بچیوں کو اسی طرح ہراساں کیا جاتا رہا اور وہ اسی طرح اپنے اسکول کالج چھوڑ کر ایسے اسکول کالج تلاش کرتی رہیں جہاں حجاب کی اجازت ہو تو اس کا ان کی تعلیم اور ان کے مستقبل پر کتنا گہرا منفی اثر مرتب ہوگا۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں