عبدالرحمن جامیؔ نہ صرف عظیم شاعر ومدبر تھے بلکہ علم عروض کے ماہر بھی تھے۔آل انڈیا صوفی علماء کونسل کے زیراہتمام اردو ہال حمایت نگر میں منعقدہ جلسہ تعزیت سے مخاطب کرتے ہوئے علماء کرام،شعراء ودانشوران قوم نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ مولانامفتی سید صادق محی الدین فہیم جامعہ نظامیہ نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے فرمایا عبدالرحمن جامی کے کلام میں حکمت وتصوف کے نکات قاری محسوس کرسکتا ہے۔ عبدالرحمن جامی ؔترقی اور جدت پسند شاعر تھے،
ان کی شاعری کے مقام کو سمجھنے کے لیے ان کے کلام کے فکروفن کا مطالعہ ضروری ہے۔جس میں شاعری کے تمام محاسن موجود ہیں۔ حضرت جامیؔ کے دیرینہ رفیق پروفیسر رحمت یوسف زئی، اپنے جذبات پرقابو نہ رکھتے ہوئے گلوگیر لہجے میں اپنے دوست کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمزاد مجھ سے جدا ہوگیا۔عبدالرحمن جامیؔ جیسا انسان صدیوں میں ایک بار دنیا میں آتاہے۔میر،غالب، حالی کی ایک صدی تھی۔
اکیسویں صدی عبدالرحمن جامیؔ کی ہے۔جامی ؔ کا ہرشعرایک اہم پس منظر رکھتاہے،جو ان کی زندگی اور معاشرت کی عکاسی کرتا ہے۔ڈاکٹر ایم ایم یوسف نے جامی کے علم عروض کے استاد فن کے عظیم رہنما کی زندگی کے کچھ پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا اکیسویں صدی علم ودانش کے عظیم رہنما سے محروم ہوگئی۔ پروفیسر مجیدبیدارنے کہا کہ جامیؔ کی شاعری میں قدیم اور جدید کی تمام اصناف پائی جاتی ہیں،جس میں فکروفن کے گوہرِنایاب چھپے ہیں۔ڈاکٹر محمد محامدہلال اعظمی ایڈیٹر ماہنامہ”صدائے شبلی“حیدرآباد نے کہا کہ عبدالرحمن جامی ماہنامہ صدائے شبلی کے مشیراعلی اور شبلی انٹرنیشنل ٹرسٹ کے سرپرست تھے۔
اس لیے آئندہ ماہِ مارچ ۱۲۰۲ء میں ماہنامہ”صدائے شبلی“حیدرآباد اپنا ایک خصوصی شمارہ عبدالرحمن جامی نمبر شائع کرنے جارہا ہے۔قلم کار حضرات اس نمبر کے لیے اپنے مضامین وتخلیقات ارسال کرسکتے ہیں۔
پروفیسر ایس اے شکور،ڈاکٹر قاری محمد نصیرالدین منشاوی، ڈاکٹر مختاراحمد فردین صدرآل انڈیا اردو ماس سوسائٹی فارپیس، ڈاکٹر عبدالقدوس،صلاح الدین نیر،شاہنواز ہاشمی، فضیل فوز، نذیر نادر، ذاکردانش، منورالنساء منور،سلیم اسلم نظامی،خالد نظامی، مقصود نظامی،مولاناصوفی سید شاہ محمد خیرالدین قادری صدرآل انڈیا صوفی علماء کونسل نے استاد الاساتذہ شاعراعظم مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا۔صوفی خیرالدین نے کہا عبدالرحمن جامیؔ ایک شخصیت کا نام نہیں ہے بلکہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے،رہتی دنیا تک جامیؔ کو پڑھاجائے گا۔ان کی شاعری اور حیات پر کئی اسکالر پی ایچ ڈی کرچکے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔
تعزیتی جلسہ میں شہر حیدرآباد کے علاوہ اضلاع،کرناٹک،آندھرا، مہاراشٹرا کے مندوبین کی کثیر تعداد شریک تھی۔ جلسہ سے پہلے حضرت جامی کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کیاگیا۔مولانا حکیم صوفی سید شاہ خیرالدین قادری کنوینر جلسہ نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ رات دیر گئے صدرجلسہ کی رقت انگیز دعاپر جلسہ کا اختتام عمل میں آیا۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں