جونپور(حاجی ضیاء الدین،یو این اے نیوز 3ستمبر2020)زمانہ قدیم سے ملک کے بیشترحصوں میں لگنے والے میلے جہاں ہندوستانی ثقافت کا حصہ ہیں میلوں کو گنگا جمنی روایات کا علمبردار بھی مانا جا تا ہے
علاقہ میں لگنے والے میلوں میں شامل ہو نے میں دونوں مذاہب کے لوگوں کی کثرت ہواکر تی ہے جو مختلف مزارات پر حاضر ہو کر منتیں مرادیں مانگتے ہیں میلہ لاکھوں لو گوں کے لئے ذریعہ معاش بھی ہیں بعض میلوں سے علاقوں کی شناخت ہوتی ہے ہر علاقہ میں لگنے والے میلوں کی اپنی ایک تاریخ اور روایت رہی ہے میلہ کا لفظی معنی ایک دوسرے سے ملن ہے چند دہائی قبل تک ہندی فلموں میں میلوں میں ہیرو ہیروئن کا ملن ہوتا تھا تو کسی فلم میں میلے میں ڈاکو دھماکہ کر تے تھے توبعض فلموں میں میلوں میں ہیرو ہیروئن کا پیار پروان چڑھتا تھا
![]() |
mela fail picture |
میلوں کی اپنی تاریخ اورروایات ہے۔ بتاتے ہیں کہ کجگاؤں اوررا جے پور کے لوگ دونوں گاؤں کی سرحدوں پر مل کر ایک دوسرے کے ساتھ بدزبانی کرتے ہیں جس کو کجری میلا کہا جا تا ہے تو وہیں منیچھا گاؤں واقع غازی میاں کے میلے میں آلہا،پچرہ کجری، گا کرقصیدہ خانی کرتے ہیں جس میں برادر وطن کی کثرت ہواکر تی ہے تو وہیں مزار سے متصل ایک تالاب میں جزام کے مریض ٹھیک ہو نے کے لئے غسل کرتے ہیں بعض میلے میں جہاں پہلوانوں کی نذر نہ ٹکنے والی جسم دیکھ لوگوں کا حوصلہ بڑھتا تھا اورشائقین اپنی حیثیت سے بڑھ کر انعام او را کرام دیا کرتے تھے تو وہیں بعض میلوں میں جانور، کاشت کاری کے اوزار، سرکس، جھولا، کاسمیٹک،بچوں کے کھلونوں کے علاوہ کھانے پینے کی دکانیں خوب سجا کر تی ہیں میلہ کا نام لیتے ہی بچوں کی خوشی دو بالا ہو جا تی ہے حالانکہ اکثر میلہ اختتام پذیر کرانے کے لئے میلہ انتظامیہ کو پولیس انتظامیہ کی مدد حاصل کرنی پڑتی ہے ترقی کے اس دور میں شہری علاقوں میں لگنے والے میلوں میں لوگوں کی دلچسپی کم ہو ئی ہے
![]() |
محم اسلم، فوٹو |
لیکن دیہی علاقوں میں بھی بعض میلوں کا وجود ختم ہو تا جا رہا ہے دیہی علاقوں میں بعض گاؤں میں لگنے والے میلوں میں آج کے دور میں بھی مہمانوں کی کثرت ہو تی ہو اور مہمان میلہ دیکھنے کے لئے پہنچتے ہیں لیکن بعض میلے جن میں کشتی مقابلوں اور کبڈی، آلہا پچرہ،کجری، برہا گانے کی روایات ختم ہو تی جا رہی ہے جب کی مذکورہ تمام فن کو پورانچل علاقہ میں اپنا مقام حاصل تھا حکومت کی جانب سے اگران فنکاروں پرتوجہ نہ دی گئی تو ماضی کا حصہ بن جا ئیں گے۔نمائندہ انقلاب کو کھیتا سرائے تھانہ حلقہ کے موضع سید گوراری رہائشی فخرالدین نے بتایاکہ میرے گاؤں کے درجنوں لو گ میلوں میں دکان لگا تے ہیں اور باقی وقت میں محنت مزدوری کر تے ہیں یہی ہم لوگوں کو ذریعہ معاش ہے فخرالدین نے بتا یا کہ ہر میلہ کی اپنی تاریخ اورروایت ہوتی ہے علاقہ میں درجنوں میلے لگتے ہیں جن میں سیدسالار مسعود غازی میاں ؒ کا میلہ، شیو راتری کا میلہ، دشہرہ کا میلہ، غوث پیرکامیلہ، عید، بقرعید محرم کے علاوہ درجنوں میں میلہ کا موسم مہینوں چلتا رہتا ہے اس کے علاوہ سرائے خواجہ میں لگنے والا بھدوچھٹ میلہ، جس میں کسانوں کے اوزار وغیرہ زیادہ خریدے جا تے ہیں
انھوں نے کہا کہ اعظم گڑھ، سلطان پو ر، امبیڈ کر نکر اضلاع میں بچوں کے کھلونے اور خواتین کے سامان کی دکان میلوں میں لگا تا ہوں میلہ کی تیاری کے لئے بنارس منڈی سے مال کی خریداری ہو تی ہے 20سال سے زائدعرصہ سے اسی پیشہ میں ہو ں جب میلوں میں نہیں جا تا تو گھر کے ایک کونے میں دکان رکھ کر چلاتا ہوں کسی طرح سے گزارہ ہو تا ہے کھیتی باڑی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کورونا دور نے سب کچھ چھین لیا ہے ساری امیدیں ختم ہو گئی ہیں کورونا کب ختم ہو گا گذارہ کیسے ہوگا یہی فکر ستا رہی ہے ۔
![]() |
فخرالدین، |
مذکورہ گاؤں کے ہی ۵۶ سالہ محمد اسلم بتاتے ہیں کہ بچپن سے ہی میلوں میں بانسری اور گلے کی مالا وغیرہ کی دکان لگا تا ہو ں ان کے مطابق میلوں کو سیزن تو پورے سال بھر رہتا ہے ان کے مطابق غازی میاں کے میلے میں منیچھا گاؤں سے ہو تے ہو ئے بہرائچ تک ہرسال پاؤں پیدل میلوں میں بانسری اور سامان بیچتے ہو ئے جاتوں ہوں جس میں دس سے پندرہ دن لگ جا تے ہیں اس کے علاوہ منکارپو ر بہرائچ، اجگرا پرتاپ گڑھ، بلوائی، فیض آباد گوسائی گنج، وغیرہ جہاں بھی میلہ لگتا ہے ان میلوں میں جا کر اپنی تجارت کر تا ہوں کمائی کے حوالے سے کہا کہ مقدر کی روزی میسرہو جا تی ہے
میلوں میں گھوم گھوم کر بانسری بجاکر اپنی تجارت کرتا ہوں ۶ بچوں کے علاوہ بھرا پو ر پریوار ہے فرصت کے دنوں میں گاؤں میں ہی چائے کی دکان چلاتا ہو ں کھیتی باڑی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے میلوں میں کسی طرح کی کو ئی پریشانی نہیں ہو تی ہے ہرعلاقہ میں میلہ لگا نے والے ایک دوسرے کے رابطے میں ہو تے ہیں اورا یک دوسرے سے میلوں کی تاریخ کا علم ہو جا تا ہے کورونا نے سب کچھ چھین لیا ہے تقریبا ً چھ ماہ سے گھرپر ہیں کچھ دنوں سے ان لاک میں چائے کی دکان کھل رہی ہے لیکن گاؤں کے اکثر لوگ لگنے والے میلوں میں دکان لگا کر یا دیگر ذرائع سے محنت کر کے روز کنواں کھود کرروز پانی پی رہے تھے اس وقت سب کام کام دھندا بالکل ٹھپ ہو چکا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں