دیوبند:دانیال خان(یواین اے نیوز27جولائی2020)عالمی شہرت یافتہ دینی دانشگاہ دارالعلوم دیوبند نے عید الاضحی کے مد نظر تین صفحات پر مشتمل ایک اہم فتوی جاری کیا ہے،فتوی قائم مقام مہتمم دارالعلوم دیوبندمولانا عبدالخالق مدراسی نے لیا ہے انہوں نے دارالعلوم دیوبند کے شعبہ دارالافتائکے مفتیان کرام سے سوال کیا ہے کہ عید الاضحی کا وقت قریب ہے،موجودہ حالات کے تنازر میں بعض لوگوں کی طرف سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس سال حالات کے پیش نظر قربانی کے بجائے اتنی رقم کے ذریعہ غرباء،مساکین اور محتاجوں کی مدد کر دی جائے،یہ بات کہاں تک صحیح ہے؟نیز نماز عید اور قربانی کے تعلق سے ضروری ہدایات کے بارے میں بھی لوگ سوال کر رہے ہیں اس سلسلے میں اگر کوئی جامع اور مختصر تحریر مرتب کر لی جائے تو مناسب معلوم ہوتا ہے۔واضح ہو کہ عید الاضحی کے حوالے سے ملک کے مسلمانوں میں ایک تشویش ہے جس کی ایک اہم وجہ حکومت کی جانب سے جاری کی گئی نا مکمل گائڈ لائنس ہے کیونکہ اس میں قربانی اور نماز عید الاضحی کا ذکر تو ہے مگر جانوروں کی خرید و فروخت کے حوالے سے کوئی واضح رہنما ہدایت نہیں ہے اور اس وقت وبائی مرض کورونا وائرس کے بڑھتے اثر کو روکنے کے لئے حکومت و انتظامیہ کی جانب سے اجتماعیت پر پابندی عائدکی گئی ہے اور اگر لوگ اجتماعیت کو اختیار کریں گے تو کورونا کے پھیلنے کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے،واضح ہو کہ گزشتہ دنوں مہاراشٹر سے ایک آواز آئی تھی کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر علامتی قربانی کر دی جائے
جس کی علمائدیوبند نے پر زور انداز میں مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذہب اسلام میں علامتی قربانی کا کوئی تصور نہیں ہے،تین صفحات پر مشتمل اس فتوی کے حوالے سے دارالعلوم دیوبند نے اپناواضح مو ¿قف ظاہر کرتے ہوئے صاف طور پر کہا ہے کہ قربانی کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا لہذا قربانی کے بجائے اتنی رقم غرباءو مساکین کو صدقہ کرنے کی بات قطعا درست نہیں ہے،یہ سراسر نا واقفیت ہے،اسلام میں غربا،اور مساکین کی مدد کا مستقل تاکیدی حکم ہے،جس کے لئے صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں طرح کا نظام موجود ہے۔دارالعلوم دیوبند کے شعبہ دارالافتائکے مفتیان کرام نے پوچھے گئے سوال کے تحریری جواب میں کہا ہے کہ اسلام میں قربانی کی حیثیت ایک مستقل عبادت کی ہے،قرآن کریم میں خود حضرت نبی کریم ﷺ کو قربانی کرنے کا حکم دیا گیا ہے،چناچہ حضور اکرم ﷺ نے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد مسلسل دس سال قربانی کا حکم فرمایا جس کی فضیلت احادیث نبویہ میں بھی آئی ہے ایک حدیث میں ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نیدریافت کیا کہ یا رسول اللہ یہ قربانی کیا چیز ہے آپ نے فرمایا:تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے جبکہ دوسری حدیث میں ہے کہ قربانی کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے ہی سے گناہوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے دوسری طرف وسعت کے با وجود قربانی نہ کرنے والوں پر حضور ﷺ نے سخت ناراضگی کا بھی اظہار فرمایا ہے حدیث میں ہے کہ جو شخص قربانی کی گنجائش رکھے اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے لہذا مسلمانوں کو ایام قربانی میں قربانی کی عبادت پورے اہتمام اور خوش دلی کے ساتھ انجام دینی چاہئے
حدیث میں ہے کہ تم لوگ جی خوش کر کے قربانی کروں اور قربانی کے ایام میں دوسری کسی عبادت کو قربانی کا بدل سمجھنا غلط ہے حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ قربانی کے دن آدمی کا کوئی عمل اللہ تعالی کے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ پیارا نہیں ہے حتی کہ فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ جیسے نماز پڑھنے سے روزہ اور روزہ رکھنے سے نماز کا فریضہ ادا نہیں ہوتا اسی طرح اگر کوئی شخص قربانی نہ کر کے یہ چاہے کہ وہ جانور یا اس کی قیمت صدقہ کر دے تو اس کی قربانی ادا نہیں ہوگی اور وہ تارک عبادت سمجھا جائے گا اور گنہگار ہوگا،لہذا جن مسلمانوں پر قربانی واجب ہے ان کے لئے ہر سال کی طرح امسال بھی قربانی کا اہتمام کانا لازم اور ضروری ہے۔اس سلسلے میں کسی طرح کی غفلت برتنا اسلام کے لئے نقصان دہ ہے قربانی ایک ایسی عبادت ہے جو شعائر اسلام میں سے ہے یہ محض جانور کو ذبح کرنا نہیں ہے بلکہ اسلام کے شعار کے طور پر اس عبادت کو انجام دیا جاتا ہے اس عبادت کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا لہذا قربانی کے بجائے اتنی رقم غرباءو مساکین کو صدقہ کرنے کی بات قطعا درست نہیں ہے،یہ سراسر نا واقفیت ہے،اسلام میں غربا،اور مساکین کی مدد کا مستقل تاکیدی حکم ہے،جس کے لئے صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں طرح کا نظام موجود ہے۔اسلئے چند ضروری ہدایات ذکر کی جاتی ہیں جس میں عشرہ ذی الحجہ میں عبادت کا خوب اہتمام کیا جائے،بالخصوص نویں ذی الحجہ (عرفہ)کے روزے کا اہتمام کیا جائے کیونکہ احادیث میں ان دس دنوں میں عبادت کرنے کی فضیلت آئی ہے،حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی کی عبادت کے لئے عشرہ ذی الحجہ سے بہتر کوئی زمانہ نہیں
ان میں ایک دن کو روزہ ایک سال کے برابر اور ایک رات کی عبادت کرنا شب قدر کی عبادت کے برابر ہے۔نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہوی ذی الحجہ کی عصر تک فرض نمازوں کے بعد بآواز بلند تکبیر تشریق کا اہتمام کیا جائے:دسوی ذی الحجہ عید کی نماز کے بعد سے بارہویں کے غروب سے پہلے پہلے تک قربانی کی جا سکتی ہے البتہ پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے اور قربانی مسنون طریقہ سے کی جائے،حسب استطاعت اچھے سے اچھا اور اعلی قسم کا جانور ذبح کرنے کی کوشش کی جائے اور ایام قربانی میں خاص طور پر صفائی ستھرائی کا اہتمام کیا جائے،اسلام نے جہاں عموما صفائی ستھرائی پر زور دیا ہے اور اس کو نصف ایمان قرار دیا ہے وہیں راستوں اور گزر گاہوں کی صفائی کو خاص اہمیت دی ہے،حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا ایمان کا ایک حصہ ہے،ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ کووڈ 19کے بحران کے سبب حکومت و انتظامیہ کی جانب سے جن مقامات پر عید گاہ میں نماز کی اجازت نہیں دی گئی ہے اور سخت پابندی عائد ہے ان مقامات پر عیدالاضحی کی نماز گھروں میں یا جن مساجد میں اجازت ہو ان میں متعینہ تعداد کے ساتھ ادا کی جائے اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ کووڈ 19کے بحران کے سبب محکمہ صحت،حکومت و انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ گائڈ لائن کی خلاف ورزی نہ ہو۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں