ایاز احمد اصلاحی
یہ واقعہ تعلق رکھتا ہے ایک ایسے نوجوان فلسطینی سے، جسے کرونا انفکشن کی وجہ سے ایک اسپتال میں داخل کیا گیا تھا، گھر پر دیگر افراد کے علاوہ ایک بیمار بوڑھی ماں بھی تھی جو اس کے گھر آنے سے پہلے ہی وفات پا چکی ہے۔ اس نوجوان فلسطینی کا نام جہاد السویتی ہے۔ اس کی ماں کا نام رزمی سویتی ہے جس کا 16 جولائی 2020 کو 73 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ اس خاندان کا تعلق فلسطینی علاقہ غرب اردن سے ہے۔ اس فرض شناس بیٹے نے بالآخر اسپتال میں بنی آئی سی یو بلاک کی اونچی دیوار کی ایک کھڑکی سے اپنی ماں کو آخری بار الوداع کہا۔
اس فلسطینی نے اسپتال میں اپنا معمول بنا لیا تھا کہ وہ ہر روز اسپتال کی ایک کھڑکی پر چڑھ جاتا اور وہاں بیٹھ کر اپنی بیمار ماں کو دیر تک دیکھتا رہتا۔ یہ گویا اپنی بیمار ماں کی خدمت کا ایک انوکھا طریقہ تھا، اس عمل سے اسے جو سکون ملتا وہ شاید اس دوا سے کہیں زیادہ مفید و کار گر تھا جو وہ کرونا کے علاج کے طور سے لے رہا تھا۔ وہ ہر شام کھڑکی پر چڑھ جاتا اور ایسا ہی کرتا یہاں تک کہ ایک روز اس کی ماں گذر گئیں۔ انا لله و انا اليه راجعون۔ میں نے پڑھا تھا کہ نماز میں اگر قیام کرنا ممکن نہ ہو تو نماز بیٹھ کر پڑھی جا سکتی ہے، اور اگر بیٹھ کر بھی، نماز ادا کرنا ممکن نہ ہو تو یہ لیٹ کر آنکھوں کے اشارے سے پڑھی جائے؛ لیکن ہوش و حواس میں رہتے ہوئے اسے کسی بھی حال میں ترک نہ کیا جائے۔یہ فلسطینی نوجوان کوئی فقیہ نہیں ہے، لیکن اس نے غیر شعوری طور سے نماز کے حکم پر مریض ماں کی خدمت و عیادت کے اسلامی حکم کو قیاس کرکے جس طرح اپنی شریعت کا حق ادا کیا ہے اس پر اصول شریعت سے متعلق ہزاہا فلسفوں اور فقہ و استنباط پر مشتمل ہزارہا تحقیقات کو قربان کیا جا سکتا ہے۔
بے شک مرض کی تکلیف سہ لے جانا اور اس سے جانبر ہونا تو عام سی بات ہے لیکن ماں کی جدائی کا غم سہنا زندگی کا ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔
سب سے پاکزہ محبت، سب سے اچھا دوست، دل کی سب سے میٹھی دھڑکن، سب سے سے زیادہ انحصار کی جانے والی شیئ، سب سے صاف آئینہ، سب سے عظیم استاذ، سب سے بڑی مددگار، مودت و ہمدردی کا سب سے دلکش و شفاف سرچشمہ، نرم ریشمی احساس، زندگی اور روشنی کا سب سے بڑا مرکز، اگر ان تمام خوبیوں کو ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ "ماں" ہے۔ ماں ایک ایسا وجود ہے جو بہت بڑا ہوتا ہے لیکن ہمیں نظر نہیں آتا، یہ وجود حقیقت میں جذبات کا ایک طاقت ور طوفان ہوتا ہے لیکن وہ ہمارے ساتھ باد صبا کی طرح رہتا ہے، ماں اکیلی ایسی ہستی ہے جو اپنی اولاد کی ہستی کو زندہ و پائندہ رکھنے کے لیے اپنی ہستی کو مٹا دیتی ہے، وہ خاک میں مل کر ہمیں گل و گلزار بنادیتی ہے، وہ ہماری رگوں میں خون کی مقدار بڑھانے کے لیے اپنی رگوں کا خون نچوڑ دیتی ہے۔ ماں کا یہ وجود ہمارے اپنے دل کی دھڑکنوں کی طرح ہم سے باتیں کرتا ہے، لیکن انھیں نہ تو ظاہر بیں نگاہوں سے دیکھا جاسکتا ہے اور نہ دوسروں کو دکھایا جا سکتا ہے، انھیں تو بس وہی محسوس کرسکتا ہے جو اس نوجوان فلسطینی کی طرح ماں کی ہر دھڑکن کے جواب میں اپنے پاس بھی دھڑکنے والا ایک دل رکھتا ہو۔ کیا آپ اپنی ان دھڑکنوں کی مصوری کبھی کر سکتے ہیں؟
میں نے نہ تو اس کی تحقیق کی ہے اور نہ موازناتی مطالعے پر مبنی ایسے کسی نتیجہ سے واقف ہوں جس کی بنیاد پر حتمی طور سے یہ کہ سکوں کہ دنیا میں اپنی ماں سے سب سے زیادہ پیار کرنے والی قوم فلسطینی ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی اپنی ماں سے محبت اتنی ہی جذباتی اور منفرد ہوتی ہے جتنی آزادی فلسطین کے تعلق سے ان کی بے مثال جدوجھد۔ میں نے خود فلسطین سے متعلق ایسی کئی ویڈیوز دیکھی ہیں اور فلسطینی ماں بیٹے کا کردار بیان کرنے والے ایسے کئی قصوں کو پڑھا ہے جو ماں کے تعلق سے ہماری دھڑ کنوں کو تیز اور ہماری آنکھوں کو اشکبار کرنے والے ہیں۔ شاید اس میں فلسطین کے موجودہ حالات کا بھی دخل ہے جہاں ہر ماں اپنے بیٹے کی یہ سوچ کر ایک بے خوف مجاہد کی طرح پرورش کرتی ہے کہ اس کا بیٹا بڑا ہوکر جہاد قدس میں حصہ لے گا اور مجھے میری بے لوث محبتوں اور بے داغ شفقتوں کا سچا صلہ دے گا۔ جہاں زندگی جذبات کے ایسے مقدس رشتوں سے بندھی ہو وہاں ماں سے اس کے بیٹے کی محبت یقینا ویسی ہی پرسوز ہوگی جیسی وہ اس واقعے میں بمیں نظر آرہی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ وہاں دل صرف جینے کے لیے نہیں دھڑکتے بلکہ وہ اس سے پہلے دوسروں کو زندگی دینے کے لیے دھڑکتے ہیں، جی ہاں یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ ان جگہوں پر زندگی کی بقا محض پھیپھڑوں سے نکلنے والی سانسوں سے طے نہیں ہوتی بلکہ اس کا اصل معنی اپنے خون سے اپنی قوم اور اپنے مشن کو حیات تازہ بخشنے سے متعین ہوتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں