لکھنؤ(یواین اے نیوز13اپریل2020) فرضی خبروں کا پتہ چلانے کیلئے ریاستی میں 2 اپریل کو فیکٹ چیک پورٹل متعارف کروایا گیا ہے،جس کے بعد تا حال 500 سے زائد لوگوں نے سینکڑوں فرضی خبریں جاننے کے لیے بھیجی ہیں۔اس پورٹل کے ذریعے لوگوں کو سچائی سے آگاہ کرنے کے مقصد سے اسے بنایا گیاہے۔
2 اپریل کو اسکو متعارف کروانے کے بعد سے آج کی تاریخ تک 78,000 صارفین اس ویب سائیٹ وزٹ کرچکےہیں۔ اس پورٹل سے متعدد خبریں رجوع کی گئیں جن کے حقیقی یا فرضی ہونے کا پتہ چلا یاگیا ۔ دیگر خبروں کی تنقیح و توثیق کا کام جاری ہے ۔ سوشیل میڈیا پلیٹ فارم پر گشت کرنے والی چند فرضی خبریں قارئین کے مشاہدہ کیلئے بطور حوالہ پیش کی جا رہی ہیں ان میں سرکردہ صنعتکار رتن ٹاٹا کے نام سے چند سطور جاری کی گئی ہیں اور اس میسج کا لب لباب یہی تھا کہ کوویڈ ۔ 19 کے سبب ہندوستانی معیشت مفلوج ہونے کی پیش قیاسی غلط ثابت ہوئی کیونکہ انسانی تحریک ترغیب اور پرعزم مساعی ماضی میں ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے ۔ لیکن اس میسج کی حقیقت کا پتہ چلانے کے بعد انکشاف ہوا کہ بالکل جھوٹا اور فرضی میسج تھا ۔ رتن ٹاٹا بھی خود اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر اس کی وضاحت کی اور کہاکہ سوشیل میڈیاپر وائر ہونے والا یہ پیغام انہوں نے جاری نہیں کیا تھا اور نہ ہی کبھی ایسا کہا تھا جو ان کے حوالے سے کہا گیا ہے ۔ اس طرح سوشیل میڈیا پر گشت کرنے والی فرضی خبریں ایک خاتون کے دواخانہ کے بستر پر پڑی دکھایا گیا اس کے ساتھ یہ دعوی کیا گیا تھا کہ یہ خاتون ڈاکٹر وندنا تیواری ہے جو اترپردیش میں مسلمانوں کے حملے میں اس وقت ہلاک ہوگئیں تھیں جب وہ کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے اسکریننگ کیلئے گئی تھیں ۔
لیکن فیکٹ چیک پر یہ حقیقت منظر عام پر آگئی کہ یہ جھوٹی خبر محض مسلمانوں کو بدنام کرتے ہوئے ان کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے جاری کی گئی تھی۔وندنا تیواری دراصل مدھیہ پردیش میں فارماسیس تھیں جو اپنی ریاست میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے کام کر رہی تھیں۔ لیکن دماغی شریان پھٹ پڑنے سے وہ فوت ہوگئی تھیں۔ چنانچہ یہ پوسٹ بھی غلط اور محرکات پر مبنی ثابت ہوا۔ اس طرح سوشیل میڈیا پر وائرل ایک اور ایسے فرضی ویڈیو پوسٹ میں اٹلی کی صورتحال دکھاتے ہوئے دعوی کیا گیا تھا کہ نعشوں کے انبار کو کرینوں کے ذریعہ اٹھا یا جا رہا ہے اور انہیں اجتماعی قبر میں ڈالا جا رہا ہے ۔ فیکٹ چیک پر اس حقیقت کا پتہ چلاکہ یہ دراصل 2013 کی ایک انگریزی فلم دی فلو کی مووی کلپ تھی ۔ ایسی ہی نفرت انگیز مہم کے حصہ کے طو ر پر ایک فیس بک پوسٹ تیزی سے گشت کر رہا تھا جس میں دعوی کیا گیا تھا کنیپاکم وار اسدھی انائیکا سوامی مندر کو اآئیسولیشن سنٹر میں تبدیل کر دیا گیا اور مسلمان وہاں چپل پہنے گھوم رہے ہیں لیکن فیکٹ چیک پر یہ حقیقت منظر عام پر آئی کہ جس عمارت کو دکھایا گیا وہ کوئی مندر نہیں تھی بلکہ گنیش سدن نامی لاج تھا جس کو حکومت آندھرا پردیش کورنٹائن سنٹر کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
سیاست

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں