تازہ ترین

منگل، 7 اپریل، 2020

ماہ شعبان اور توبہ استغفار

ازقلم۔مولانامحمدقمرانجم قادری فیضی۔
ریسرچ اسکالر سدھارتھ یونیورسٹی سدھارتھ نگر یوپی۔

    شعبان المعظم اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ ہے، یہ ماہ معظم بہت ہی رحمتوں، برکتوں، رفعتوں کا حامل ہے اس ماہ مقدس میں اللہ تعالیٰ نیاپنے پیارے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی امت کیلئے بخشش ومغفرت کا وافر سامان فراہم کیا ہے، اور اللہ تعالیٰ کیپیاریمحبوب صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس ماہ مبارک کو اپنا مہینہ قراردیتے ہوئے اس میں پائے جانے والے فیوض وبرکات سے آگاہ فرمایاہے، اور انکیحص کیطریقوں کی طرف رہنمائی بھی فرمائی ہے۔چنانچہ پیارے 

آقاحضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کیفرموداتِ عالیہ کیپیش نظر رکھتے ہوئے اس ماہ کا چاند نظرآتے ہی دل میں خوف خدا اور محبت رسول رکھنے والے مسلمان رمضان المبارک کے انتظار میں بیقراروبیچین ہو جاتے ہیں، سعید روحیں طہارت وپاکیزگی کی معراج تک پہنچنے کے لئے خدائے ذوالجلال کی بیپایاں رحمتوں، برکتوں کی حصول یابی کیلئے اور معبودلم یزل کی بارگاہ نازمیں سجدہ ریزیوں سے لطف اندوزہونیکیلئیمضطرب وبیقرارہوجاتی ہیں، شعبان المعظم کا مہینہ رمضان المبارک کا نقیب بن کر جلوہ فگن ہوتاہے، اس لئے حضورسرکاردوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس مہینے کی بہت سی فضیلتوں عظمتوں، رحمتوں، برکتوں کا ذکر فرمایا ہے، شعبان المعظم کا مہینہ ایک بابرکت رحمت، کا مہینہ ہے جس کی بیشمارفضلتیں احادیث مبارکہ میں واردہوئی ہیں، 

شعبان کی وجہ تسمیہ کیاہے حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نیارشادفرمایا، کہ اس ماہ کانام شعبان اس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ اس میں ماہ رمضان کیلئے بیشمار نیکیاں تقسیم کی جاتی ہیں، اور رمضان المبارک مہینے کا نام رمضان اس لئے رکھا گیاہے کہ یہ مہینہ گناہوں کو جلا دیتاہے، ماک شعبان ایسا بزرگ مہینہ ہے جو کوئی اس میں نیک اعمال کرے اس کااجروثواب بہت ہے، حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے انکے تائب ہو جانے کے بعد سبب پوچھا گیا تو انھوں نے بیان کیا کہ پہلے میں شراب پیتاتھا اور میری ایک چھوٹی سی لڑکی تھی، جو میرے سامنے سے شراب پھینک دیا کرتی تھی، جب وہ دس برس کی ہوئی تو مرضئِ مولی سیاس کا انتقال ہوگیا میرے دل کو اس کا بڑا رنج ہوا، جب شب برات آئی تو میں نے دیکھا گویاکہ قیامت قائم ہے اور ایک بڑا بھاری اژدھا منھ کھولے ہوئے میرے سامنے ہے،

 میں اس سے بھاگا، پھر ایک بزرگ کو دیکھا جن سے بہت خوشبوآ رہی تھی، میں نے ان سے کہا، خداآپ کو اپنی پناہ میں رکھے، مجھے بچائیے، وہ رودیئے اور کہنیلگے کہ میں ضعیف ہورہاہوں لیکن ذرا جلدی کرو، شاید خدائے تعالیٰ کسی ایسے کو مقرر کردے، جو تمہیں بچالے، میں بھاگتے بھاگتے دوزخ کیکنارے پہنچ گیا، پھرمجھ سیکہاگیا کہ پیچھے لوٹ جا، پھر میں پیچھے لوٹ پڑا اور اژدھا میرے پیچھے پیچھے چلا آر ہاتھا، یہاں تک کہ پھر میں اس ضعیف کے پاس سیگذرا، میں نے کہا بچالے، وہ بولا کہ میں تو ضعیف ولاغرہوں، لیکن اس پہاڑکی طرف دوڑو، کیونکہ اس میں مسلمانوں کی امانتیں ہیں، اگر اس میں تمہاری کوئی امانت ہوگی تو ابھی تمہاری مدد کریگی، پھر مجھے چاندی کا پہاڑ نظرآیا جب میں اس کے قریب گیا، تو کسی فرشتے نیپکار کرکہا، دروازے کھول دو، شاید اس میں تمہاری کوئی امانت ہو،

 جو تمہیں دشمن سے بچالے۔دروازے کھول دیئے گئے، کیا دیکھتاہوں کہ اندر میری لڑکی موجودہے اس نے مجھے داہنے ہاتھ سے پکڑا، اور بایاں ہاتھ اژدھے کے طرف بڑھایا، جس پر وہ الٹابھاگ کھڑا ہوا، پھر میری لڑکی مجھ سیکہنیلگی، اے میرے باپ جان  کیا ابھی ایمان والوں کیلئے وقت نہیں آیاہے کہ انکیدل خدا کے لئے پست ہوکر رہ جائیں۔میں نے اس سے پوچھا کہ کیاتم قرآن کو پہچانتی ہو، اس نیکہا، ہاں۔پھر میں نیاس سے پوچھا کہ اچھااژدھے کا حال بتا، اس نیجواب دیاکہ یہ تمہاری بداعمالی ہے، اور وہ ضعیف تمہارے نیک عمل تھے، آپ فرماتے ہیں، کہ میری آنکھ کھل گئی اور میں سہماہواتھا، فوراً اسی وقت میں نیصدق دل سے توبہ کی، اورخدائے تعالی سے عہدکیا کہ اب آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔یاد رہے کہ نفسِ انسانی کے تین درجے ہیں: نفسِ اَمّارہ: جو انسان کو برائی کی رغبت دیتا ہے۔نفسِ لَوّامہ: جو گنہگار کو گناہ کے بعد ملامت کر کے توبہ کی طرف راغب کرتا ہے۔ 

نفسِ مُطْمَئِنّہ: جو بندگانِ خدا کو ذکر ِ خدا سے سکون پہنچاتا ہے۔ چونکہ یہ لوگ دنیا میں اللّٰہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی۔مصیبتوں پر صابر اور  راحتوں پر شاکر رہ کر راضی برضا رہے اور ہر حال میں اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے طلبگار رہے تو اللّٰہ تعالیٰ بھی ان کے  تھوڑے عمل پر ان سے راضی ہوتا ہے اور اپنے انعامات   سے ان کو راضی کرتا ہے۔ { فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ: پھر میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا۔}نفس ِمُطْمَئِنّہ کو خاص بندگانِ خدا کے گروہ میں شامل ہوکر جنت میں داخل ہونے کا فرمایا جائے گا۔ اس آیت میں نیک لوگوں کی مَعِیَّت و قرب کی فضیلت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ  اللّٰہ  تعالیٰ نے پہلے اسے نیک بندوں کی مَعِیَّت میں جانے کا فرمایا اور پھر جنت میں داخل ہونے کا فرمایا اور یہ حقیقت ہے کہ نیکوں کی صحبت اصلاحِ قلب اور دخولِ جنت کا ذریعہ ہے۔

جس نیخود کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگا۔حضرت مفتی محمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تحریر فرمایا ہے کہ صوفیاء کے نزدیک تَزْکِیَہ کا (مطلب) دل (کو) بُرے عقیدے، بُرے خیالات (اور) تصور ِغیر سے پاک کرناہیدل کی صفائی یا وہبی ہے یا کسبی یا عطائی۔ وہبی تزکیہ پیدائشی ہوتا ہے، کسبی اپنے اعمال سے (جبکہ) عطائی کسی کی نظر سے، جیسے بادل اور سورج دور رہتے ہوئے بھی گندی زمین کو پاک کر دیتے ہیں، ایسے ہی اللّٰہ والوں کی نظر دور سے بھی گندے دلوں کو پاک کردیتی ہے۔دُنْیَوی زندگی کی لذتوں میں کھو کر آخرت کو نہ بھلا دیا جائے:

-حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں ’’دنیا چونکہ ہمارے سامنے موجود ہے اور اس کا کھانا، پینا، عورتیں،دنیا کی لذتیں اور اس کی رنگینیاں ہمیں جلد دیدی گئیں جبکہ آخرت ہماری نظروں سے غائب ہے، اس لئے جو چیز ہمیں جلد مل رہی ہے ہم اسے پسند کرنے لگ گئے اور جو بعد میں ملے گی اسے ہم نے چھوڑ دیا۔ اس سے معلوم ہو اکہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ دُنْیَوی زندگی کی فانی لذتوں، رنگینیوں اور رعنائیوں میں کھو کر اپنی آخرت کو نہ بھول جائے بلکہ وہ اپنی سانسوں کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی زندگی اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزارے اور آخرت میں جنت کی دائمی نعمتیں حاصل کرنے کی کوشش کرے جبکہ فی زمانہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنی دنیا بہتر بنانے میں ایسی مصروف ہے کہ اسے اپنی آخرت کی کوئی فکر نہیں۔دنیا اور آخرت کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔اور دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے اور بیشک آخرت والا گھر ڈرنے والوں کے لئے بہتر ہے تو کیا تم سمجھتے نہیں؟  اور ارشاد فرمایا: تو کیا یہ لوگ زمین پرنہیں چلے تاکہ دیکھ لیتے کہ ان سے پہلوں کا کیا انجام ہوااور بیشک آخرت کا گھر پرہیزگاروں کے لیے بہتر ہے۔ 

-جو جلدی والی (دنیا) چاہتا ہے تو ہم  جسے چاہتے ہیں۔ اس کیلئے دنیا میں جو چاہتے ہیں جلد دیدیتے ہیں پھر ہم نے اس کیلئے جہنم بنارکھی ہے جس میں وہ مذموم،مردود ہوکر داخل ہوگا۔ اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی لہٰذا اے بندے۔ اور جو مال تجھیاللّٰہ نے دیا ہے اس کے ذریعے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیسا اللّٰہ نے یاد رہے کہ قیامت کے دن بعض اہلِ ایمان ایسے ہوں گے کہ جنہیں اعمال نامہ دیا ہی نہیں جائے گا اور وہ بغیر حساب کتاب کے سیدھے جنت میں چلے جائیں گے اور بعض اہلِ ایمان ایسے ہوں  گے کہ جب وہ اللّٰہ  تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تو ان سے تحقیق اور جَرح والا حساب نہیں ہو گا بلکہ صرف ان کے اعمال ان پر پیش کئے جائیں گے، 

وہ اپنی نیکیوں اور گناہوں کو پہچانیں گے، پھر انہیں نیکیوں پر ثواب دیا جائے گا اور ان کے گناہوں سے درگزرکیا جائے گا۔ یہ وہ آسان حساب ہے جس کا اس آیت میں  ذکر ہے کہ نہ شدید اعتراضات کر کے اعمال کی تنقیح ہو، نہ یہ کہا جائے کہ ایسا کیوں کیا، نہ عذر طلب کیا جائے، نہ اس پر حجت قائم کی جائے کیونکہ جس سے مطالبہ کیا گیا تو اسے کوئی عذر ہاتھ آئے گا اور نہ وہ کوئی حجت پائے گا اس طرح وہ رسوا ہو جائے گا،اور بعض اہلِ ایمان ایسے ہوں گے کہ جب وہ  اللّٰہ  تعالیٰ کی بارگاہ میں  پیش ہوں گے تو ان کے ہر عمل کی پوچھ گچھ ہوگی،اچھیرضاپیاریرضا اعلی حضرت امام احمدرضاخان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان میں۔۔ہم ہیں اُنکیوہ ہیں تیریتو ہوئے ہم تیرے۔اس سے بڑھ کر تِری سمت اور وسیلہ کیاہے۔ان کی امت میں بنایا انہیں رحمت بھیجا۔ 

یوں نہ فرما کہ ترا رحم میں دعویٰ کیا ہے۔صدقہ پیاریکی حیاء کاکہ نہ لے مجھ سیحساب، بخش بے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے۔اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرنے کی فضیلت۔اللّٰہ تعالیٰ کا ڈر زیادہ سے زیادہ علم پر عمل سے پیدا ہوتا ہے:- حضرتِ انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس آیت ’’هُوَ اَهْلُ التَّقْوٰى وَ اَهْلُ الْمَغْفِرَةِ‘‘ کے بارے میں ارشاد فرمایا’’اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے’’میں اس لائق ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے لہٰذا جو مجھ سے ڈرا اور اس نے میرے ساتھ کوئی دوسرا خدا نہ بنایا تو میں اس بات کا اہل ہوں کہ اسے بخش دوں۔توبہ میں تاخیر کا مرض ـ:-فی زمانہ مسلمانوں کی ایک تعداد ایسی ہے جس میں یہ مرض پایا جاتا ہے کہ انہیں گناہوں سے رُک جانے اور ان سے توبہ کرنے کی ترغیب دی جائے اور شریعت کے اَحکامات پر عمل کرنے کا کہا جائے تو آگے سے یہ جواب دیتے ہیں کہ بھیا! ابھی تو بہت عمر پڑی ہے، 

جب بڑھاپا آئے گا تو گناہوں سے توبہ بھی کر لیں گے، نمازیں بھی شروع کر دیں گے،روزے بھی رکھنے لگیں گے، داڑھی بھی رکھ لیں گے اور اللّٰہ اللّٰہ کرنے میں مصروف ہو جائیں گے لیکن ابھی تو ہم جوان ہیں۔ ابھی تو ہمارے عیش کرنے کے دن ہیں اور ابھی تو ہم نے دنیا دیکھی ہی کیا ہے جو اِن چیزوں میں مصروف ہو جائیں اور بعض مسلمان تو ایسے بھی نظر آتے ہیں کہ اگر ان کی اولاد میں سے کوئی جوانی میں گناہوں سے دور بھاگنے لگے،

 نیکیوں کی طرف راغب ہونے لگے،چہرے پہ داڑھی شریف سجا لے، نماز روزے کی پابندی شروع کر دے اور نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنتوں پر عمل کرنے لگے تو اسے عمر لمبی ہونے کا کہہ کر ان چیزوں سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور طرح طرح سے اسے سمجھاتے ہیں، مرنے یا ماردینے کی دھمکیاں دیتیہیں۔اور اسے گناہوں بھری زندگی میں لَوٹانے کے پورے پورے جَتَن کرتے ہیں اور اگر وہ ان کی باتوں میں نہ آئے تو اسے گھر سے نکال دیتے اور اس کا سوشل بائیکاٹ کر دیتے ہیں گویا کہ ان کے نزدیک اسلام کے اَحکام پر عمل کرنا ایسا سنگین جرم ہے جو اس وقت تک معافی کے قابل نہیں جب تک وہ ان احکام پر عمل کرنا چھوڑ نہیں دیتا۔مسلمانوں کی گناہوں میں مَشغولِیَّت، توبہ اور اپنی اصلاح سے دوری اور اسلام کے احکامات پر عمل نہ کرنے کا دُنْیَوی نتیجہ آج سب کے سامنے ہے کہ مسلمان دنیا بھر  میں کمزور اور مغلوب نظر آرہے ہیں اور کفّار مُسلم ممالک پر حملے کر کے ان کی اینٹ سے انیٹ بجا رہے ہیں جبکہ آخرت میں اس چیز کا انجام کیا ہو گا وہ اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔توبہ میں تاخیر کرنے کے حوالے سے امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ’

’ایمان دار توبہ کرنے کی خواہش تو رکھتا ہے لیکن محض سُستی اور کاہلی کے باعث اس سے توبہ کرنے میں تاخیر ہو رہی ہوتی ہے اور وہ دل ہی دل میں کہتا جاتا ہے کہ میں کل توبہ کر لوں گا، ابھی یہ خواہش تو پوری کر لوں بعد میں اس کا نام تک نہ لوں گا،تو ایسے شخص سے پوچھئے کہ تُو (توبہ کے معاملے میں) ٹال مٹول کرنے میں کیوں مبتلاہے؟تو کس خوش فہمی کا شکار ہے؟ تو توبہ کرنے کے لئے آج کی بجائے کل کا کیوں مُنْتَظر ہے؟ کیا معلوم کہ تجھے کل کا دن نصیب ہی نہ ہو،اگر تم یہ گمان رکھتے ہو کہ آج کی بجائے کل توبہ آسان ہو گی تو اس خام خیالی کو اپنے دل سے نکال دے کیونکہ یہ محال ہے اور یہ غلط بات جتنی جلدی تیرے دل سے نکل جائے اتنا ہی (تیرے لئے) اچھا ہے کیونکہ جو مشکل آج تمہیں درپیش ہے وہی کل بھی ہو سکتی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے تمام دن ایک جیسے بنائے ہیں،ان میں کوئی دن خاص نہیں کیا جس میں شہوت کو ترک کرنا آسان ہو۔ ایسے شخص کی مثال یوں سمجھئے کہ جب اسے کہا جائے کہ فلاں درخت کو جڑوں سے اکھیڑ دو تو وہ کہے کہ یہ درخت بہت مضبوط ہے اور میں بہت کمزور ہوں،اب تو اسے اکھیڑنا میرے بس کی بات نہیں البتہ آئندہ سال میں اسے اکھیڑ دوں گا۔ ذرا اس احمق سے پوچھئے کہ کیا اگلے سال وہ درخت اور مضبوط نہیں ہو چکا ہو گا اور تیری کمزوری مزید بڑھ نہ چکی ہو گی؟

 بس یہی صورتِ حال خواہشات کے درخت کی ہے جو روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جاتا ہے اس لئے کہ وہ تو خواہشات اور لذات کا محکوم بن چکا ہے جس کی وجہ سے وہ خواہشات کے اَحکام پر تَسَلْسُل سے عمل پیرا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ ان خواہشات کی غلامی کی بندش کی وجہ سے ان کے خلاف چلنا اس کے بس کا روگ نہیں رہتا، لہٰذا اے انسان!جتنی جلدی تو خواہشات اور شہوات کے درخت کو اکھیڑ سکتا ہے اسے اکھیڑ دے کیونکہ اس میں تیرا ہی فائدہ ہے)اِستغفار کرنے کے دینی اور دُنْیَوی فوائد حاصل کرے۔تو میں نے کہا: (اے لوگو!) اپنے رب سے معافی مانگو، بیشک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے۔ وہ تم پر موسلا دھار بارش بھیجے گا۔ اور مالوں اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائیگا۔۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ کی بارگاہ میں اِستغفار کرنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے سے بے شمار دینی اور دُنْیَوی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔اِستغفار کرنے کے بارے میں ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ اور جو کوئی برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللّٰہ سے مغفرت طلب کرے تو اللّٰہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔اور ارشاد فرمایا۔ 

اور اللّٰہ انہیں عذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔اور ارشاد ربانی ہے اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف توبہ کروتو وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک بہت اچھا فائدہ دے گا۔


حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا:۔اے میری قوم! تم اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی بارگاہ میں توبہ کرو تووہ تم پرموسلادھار بارش بھیجے گا اور تمہاری قوت کے ساتھ مزید قوت زیادہ کرے گا۔ اورحضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تو اللّٰہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔یاد رہے کہ اولاد کے حصول، بارش کی طلب، تنگدستی سے نجات اور پیداوار کی کثرت کے لئے استغفار کرنا بہت مُجَرَّبْ قرآنی عمل ہے۔اسی سلسلے میں یہاں دو حکایات ملاحظہ ہوں، چنانچہ حضرت ِامامِ حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک مرتبہ حضرت امیر ِمعاویہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس تشریف لے گئے تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے حضرت امیر ِمعاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ایک ملازم نے کہا کہ میں مالدار آدمی ہوں مگر میرے ہاں کوئی اولاد نہیں، مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ مجھے اولاد دے۔ 

آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: استغفار پڑھا کرو۔ اس نے استغفار کی یہاں تک کثرت کی کہ روزانہ سا ت سو مرتبہ استغفار پڑھنے لگا، اس کی برکت سے اس شخص کے ہاں دس بیٹے ہوئے، جب یہ بات حضرت امیر ِمعاویہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اس شخص سے فرمایا کہ تو نے حضرتِ امام حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے یہ کیوں نہ دریافت کیا کہ یہ عمل حضور نے کہاں سے فرمایا

۔دوسری مرتبہ جب اس شخص کو حضرتِ امام حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو اس نے یہ دریافت کیا۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعاہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے اور آخرت میں ہونے والے حساب کی ابھی سے تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہم سب کو اپنی رضا ومحبت اپنے محبوب کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور اپنے محبین کی محبت اور غلامی سے سرفراز فرمائے، اور ایسے اعمال کی توفیق دے، جو ہمیں انکی محبت اور قربت بخشتے رہیں، اور دنیا کی تمام آفتوں بلاؤں سے محفوظ ومامون عطا فرمائے اٰمین یارب العالمین بجاہ سیدالمرسلین    E. Mail-qamaranjumfaizi@gmail.comصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad