تازہ ترین

منگل، 7 اپریل، 2020

مودی بھکت سے ندوی بھکت تک

از قلم ۔عمران صدیقی ندوی جب مودی کے کسی غلط فیصلے پر تنقید کی جاتی ہے اور سوالات پوچھے جاتے ہیں تو مودی بھکت بجائے ان سوالات کے جواب دینے کے صرف یہ کہہ کر اپنا دامن بچا لیتے ہیں کہ "مودی نے کیا ہے تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہوگا" مودی بھکت یہ جواب دیتے وقت خود بھی سمجھتے ہیں کہ اس جواب سے کوئی مطمئن نہیں ہونے والا ہے، وہ در حقیقت یہ جواب اپنے اطمینان کے لیے دیتے ہیں تاکہ بھکتوں کے لیے بھکتی کا کوئی نہ کوئی جواز باقی رہے

اسی طرح ندوی برادری میں بھی بھکتوں کا ایک ریوڑ موجود ہے. جب بھی ندوے کے کسی فیصلے پر تنقید ہوتی ہے اور ان سے سوالات پوچھے جاتے ہیں تو بھکت بجائے جواب دینے کہ وہی کہتے ہیں جو مودی بھکت کہتے ہیں "ہمارے بڑوں نے کیا ہے تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہوگا" وہ یہ خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اس جواب میں کوئی دم نہیں ہے سوائے بھکتوں کے کوئی بھی اس جواب سے مطمئن نہیں گا

اس جواب پر ہم جیسے ندوی ان بھکتوں سے صرف ایک ہی سوال پوچھتے ہیں کہ "ہم بھی تو وہی جاننا چاہتے ہیں کہ بڑوں نے کیا سوچ یہ فیصلہ لیا ہے"

جیسے مولانا حمزہ صاحب کا نائب ناظم بنایا جانا، ہم جیسے ہزاروں ندویوں نے اس فیصلے پر تنقید کی اور سوالات پوچھے کہ ان سے اچھی علمی، فکری و عملی صلاحیت والے ندویوں کی موجودگی میں ان کو کن بنیادوں پر ندوے کا نائب ناظم بنا گیا لیکن بھکتوں نے جواب دینے کے بجائے صرف ایک ہی بات کی رٹ لگائی ہوئی ہے کہ "ہمارے بڑوں نے کیا ہے تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہوگا" اور ہم جیسے ندوی یہی پوچھ رہیں کہ جو سوچ کر یہ فیصلہ کیا گیا ہے وہی تو ہم لوگ بھی جاننا چاہتے ہیں

اور ویسے بھی اجتماعی و ملی کاموں میں ایک اصول سب کے نزدیک مسلّم ہے کہ کسی ادارے یا تنظیم کے اہم ترین عہدوں پر ایک ہی خاندان کے دو فرد نہیں رہنے چاہیے اگرچہ وہ دونوں کتنے ہی با صلاحیت کیوں نہ ہو چہ جائیکہ دوسرا با صلاحیت بھی نہ ہومولانا حمزہ صاحب سے کسی کو نہ کوئی ذاتی بغض ہے اور ہی حسد ہے، وہ بھی ہمارے بڑے ہیں، یہ سوالات بس ندوے کی وجہ سے پوچھے جا رہے ہیں کیونکہ ہم ان ندویوں میں سے ہیں جو ندوے کو تمام تعلقات و خاندانی تقدس سے اوپر سمجھتے ہیں


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad