ارریہ،معراج خالد(یواین اے نیوز 15مارچ2020)رئیس التحریر مفتی حسین احمد ہمدم کی ادارت میں بہار کے ضلع ارریہ سے شائع ہونے والا دینی ادبی واصلاحی رسالہ چشمۂ رحمت کے پانچویں شمارے کا منظر پر آنے سے جہاں عام قارئین نے مسرت کا اظہار کیا وہیں علماء ،صحافی،ادباء و شعراء نے بھی اپنی دعائیں اور نیک خواہشات پیش کیں اس موقع پر جامعہ افضل المعارف الہ آباد کے مہتمم مولانا افضال احمد قاسمی اکمل نے اپنی دعائیہ کلمات سے نوازتے ہوئے کہا
ہم کو دیکھیں گے نہیں لوگ پڑھیں گے اکمل
ایسا کرتے ہیں چلو صرف کتابوں میں ملیں
اللہ چشمہء رحمت کو قبول فرمائے اور رحمت کا چشمہ بنائےدارالعلوم معین الاسلام حسن نگر حیدرآباد کے ناظم مولانا تنویر احمد قاسمی ارریاوی نے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا سہ ماہی رسالہ ’چشمۂ رحمت‘ کا جب پہلا شمارہ منظر عام پر آیا تھا اس وقت ایک عام قاری کی حیثیت سے مجھے بھی اس بات کا خدشہ تھا کہ دیکھئے یہ کتنی عمر پاتا ہے۔ یہ بات ذہن میں اس لئے آئی تھی کہ اس ناسازگار اور اردو مخالف ماحول میں خصوصاً خطۂ سیمانچل میں کسی اردو رسالہ کا نکالنا اور اسے جاری رکھنا ناممکن تو نہیں کہا جا سکتا مگر مشکل تو ضرور ہے۔ اور یہ تاثر محض خیالی نہیں بلکہ ہمارے سامنے اس کی مثالیں موجود ہیں مگر جو لوگ ’ناممکن ‘ لفظ کو اپنی زندگی سے خارج کر دیتے ہیں وہ لوگ ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک نام ہے سہ ماہی رسالہ ’چشمۂ رحمت‘ کے ایڈیٹر مفتی حسین احمد ہمدم کا جس کا ثبوت ہے یہ پانچواں شمارہ۔
جواں ہوں عزم تو تارے بھی ٹوٹ سکتے ہیں
کٹھن نہیں کوئی کام آدمی کیلئے
مفتی انعام الباری قاسمی مہتمم مدرسہ تنظیم المسلمین رجوکھر ارریہ نے اپنے تاثراتی کلمات میں کہا دینی ادبی وعلمی رسالہ "چشمٸہ رحمت " کو دیکھ کر ،دل نے فرحت وانبساط سے کہا:
”ضعف ہمت ہے،ورنہ اے ناداں!
ابن أدم سے کیا نہیں ہوتا
بحمداللہ رسالہ کی زبان و بیان میں ادب کی چاشنی ، فکر واحساس کی روشنی اور علمی ذوق کی پرچھاٸیاں جگہ جگہ ملتی ہیں ،اہلیان ارریہ کے لۓ رسالہ چشمٸہ رحمت کے ساتھ ساتھ گراں قدرتحفہ ہے بلکہ کہٸے دل کے ٹکروں کا حسین گلدستہ بھی مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ ارریہ کے پرنسپل مولانا شاعد عادل قاسمی نے کہا ارریہ ادب نواز اور ادب پرورجگہ ضرور ہے مگر ارریہ کی سرزمین سے ادب کی آبیاری کیلۓرحمت کا چشمہ برابر یونہی جاری رہے تویہ مجلہ ایک نٸ تاریخ ثبت کرسکتا ہے اس کیلیےٕ ارریہ باشندگان کی توجہات عالیہ کیساتھ ساتھ مجلہ کی نشرواشاعت کیلۓ خصوصی تعاون کی بھی ضرورت ہے اس رنگین دنیا میں آج کا انسان پرنٹ میڈیا یا پرنٹ کتاب سے کتنی انسیت رکھتا ہے سمجھ سکتے ہیں مدیر محترم نے حالات کا باریکی سے یقینا جاٸزہ لیا ہوگا اور ایک نشیب وفراز راہ کا سفر کیا ہوگا وقت اسباب وساٸل تقاضے طنز تعریف اور ہر اچھے برے خیالات کا تعاقب رہا ہوگا اس کے باوجود کمر باندھ لینا ایک مرد مجاہد ہی کا کام ہے مدیر کی جسارت جرأت اور ہمت کو سلام ہی سلام اور رسالے کی پاٸندگی کیلےٕ دعا ہی دعا معروف صحافی و کالم نگار عارف حسین طیبی ندوی نے کہا کہ رسالہ چشمہ رحمت ایک ادبی ،دینی ، ملی ، و سماجی سہ ماہی مجلہ ہے خوبصورت اور دیدہ زیب سرورق کیساتھ عمدہ طباعت کا ایک حسین امتزاج دیکھنے کو ملا .
اسکے سارے مشمولات قارئین کے ذہن و دماغ کو معلوماتی ذخائر سے روشناش کراتا ہے ہر مضامین میں قدیم صالح اور جدید نافع کا توازن سماجی و ملی ضروریات کا عنصر صاف نظر آتی ہے اس رسالے کی ادارت ایک ایسے نانغہ روزگار صاحب فکر وقلم کے طرف منسوب ہے جنکا شب و روز اسی دشت کے سیاحی میں گزری ہے یقینا یہ دینی اور ادبی رسالہ سیمانچل بالخصوص ارریہ والوں کے لئے کسی تمغہ فخرو امتیاز سے کم نہیں اب ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے اسکی بقا اور ادبی مستقبل کے شمع کو جلائے رکھنے کے لئے بے پناہ کوششوں کو لائحہ عمل میں لائیں تاکہ اسکی دینی اور ادبی شعائوں سے امت مسلمہ استفادہ کرسکیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علم محمد ارشد قاسمی علیگ نے کہا ارریہ کی سرزمین زراعت وکاشت کے ساتھ ساتھ علم وأدب کے لئے بھی بڑی زرخیز رہی ہے لیکن جس طرح سے سیاسی لیڈران کا گروہ کاشتکاروں اور کسانوں کی جانب توجہ نہیں دے رہے ہیں ایسے ہی ادبی پہلوانوں کی جماعت علم وادب کو خون پسینے سے سینچنے والوں کو شاید نظر انداز کررہی ہے. حکومت اور سیاسی لیڈران کی عدم توجہی سے کسانوں کے کھیت کھلیان ہرسال ڈوب رہے ہیں اور ادبی پہلوانوں کی عدم دلچسپی سے نئے قلمکاروں کے حوصلے ٹوٹ رہے ہیں.
اسکے سارے مشمولات قارئین کے ذہن و دماغ کو معلوماتی ذخائر سے روشناش کراتا ہے ہر مضامین میں قدیم صالح اور جدید نافع کا توازن سماجی و ملی ضروریات کا عنصر صاف نظر آتی ہے اس رسالے کی ادارت ایک ایسے نانغہ روزگار صاحب فکر وقلم کے طرف منسوب ہے جنکا شب و روز اسی دشت کے سیاحی میں گزری ہے یقینا یہ دینی اور ادبی رسالہ سیمانچل بالخصوص ارریہ والوں کے لئے کسی تمغہ فخرو امتیاز سے کم نہیں اب ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے اسکی بقا اور ادبی مستقبل کے شمع کو جلائے رکھنے کے لئے بے پناہ کوششوں کو لائحہ عمل میں لائیں تاکہ اسکی دینی اور ادبی شعائوں سے امت مسلمہ استفادہ کرسکیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علم محمد ارشد قاسمی علیگ نے کہا ارریہ کی سرزمین زراعت وکاشت کے ساتھ ساتھ علم وأدب کے لئے بھی بڑی زرخیز رہی ہے لیکن جس طرح سے سیاسی لیڈران کا گروہ کاشتکاروں اور کسانوں کی جانب توجہ نہیں دے رہے ہیں ایسے ہی ادبی پہلوانوں کی جماعت علم وادب کو خون پسینے سے سینچنے والوں کو شاید نظر انداز کررہی ہے. حکومت اور سیاسی لیڈران کی عدم توجہی سے کسانوں کے کھیت کھلیان ہرسال ڈوب رہے ہیں اور ادبی پہلوانوں کی عدم دلچسپی سے نئے قلمکاروں کے حوصلے ٹوٹ رہے ہیں.
صورتحال شاید کچھ یوں ہے کہ؛
میرے ٹوٹے حوصلے کے پر نکلتے دیکھ کر
اس نے دیواروں کو اپنی اور اونچا کردیا
ارریہ کی سرزمین سے اردو زبان میں کئی اصلاحی وادبی رسائل وجرائد جاری ہوئے لیکن جاری رہ نہیں سکے. وجہ ____شاید عوام کی بے رغبتی، خواص کی بے توجہی اور اردو داں طبقے کی عدم دلچسپی رہی.
خوشی کی بات یہ ہے کہ الحمد اللہ ابھی ایک چشمئہ رحمت(دینی وادبی سہ ماہی رسالہ) جاری ہے.
اس میں شائع ہونے والے حمد ومناجات، اداریہ، درس قرآن وحدیث، نعت رسول ص، دینی واصلاحی مضامین کے ساتھ ساتھ معیاری نظمیں اور غزلیں پڑھ کر ہماری طرح آپ بھی کہیں گے کہ اس رسالہ کو بغیر کسی رکاوٹ کے نہ صرف جاری رہنا چاہئے بلکہ سہ ماہی کے بجائے ماہانہ ہونا چاہئے. ایسا ضرور ہوگا انشاءاللہ. رحمت کا یہ چشمہ بہت دور تک وسیع ہوگا، اس چشمے سے ہر خاص وعام سیراب ہونگے، شہر کے ساتھ ساتھ گاؤں اور گھر تک اس کا فیض پہنچے گا شرط یہ ہے کہ ہمیں اس کے لئے زمین ہموار کرنی ہوگی.
مجھ کو اوروں سے کچھ کام نہیں
تجھ سے ہردم امیدواری ہے..........
خصوصاً اردو داں طبقے سے میری گزارش ہوگی کہ خدارا اس چشمے کو کبھی خشک نہ ہونے دیں. خود بھی سیراب ہوں اور تشنہ لبوں کو اس کا پتہ بھی بتائیں. علاوہ ازیں قاری نیاز احمد قاسمی مفتی غفران حیدر مظاہری مسجد اقصی بنگلور کے امام و خطیب قاری اصغر علی مصباحی مفتی ہمایوں اقبال ندوی مولانا فیروز احمد دارالعلوم حیدرآباد کے شعبہ افتاء کے طالب علم مولانا نوازش قاسمی حافظ خورشید قمر قاری عبد الباری زخمی سینئر صحافی رضوان حیدر روزنامہ راشٹریہ سہارا کے سینئر سب ایڈیٹر مولانا ڈاکٹر عبدالقادر شمس مسجد غوثیہ حیدرآباد کے امام مولانا مدثر حسامی نے بھی اپنی خوشی کا اظہار کیا اور رسالے کی تسلسل کیلئے دعائیں دیں اخیر میں مدیر نے تمام مبصرین و قارئین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا آپ محبین کاگرانقدر جامع تبصرہ جس میں پرخلوص دعاٶں کی خوشبوہے،اظہار اعتماد کاخوبصورت رنگ ہے، اورذرہ نوازی و حوصلہ افزاٸی کے انمول موتی جڑے ہیں یہ میرے لیۓ کسی بڑے ایوارڈ سے کم نہیں،نیز اہل علم دوستوں کے بیش قیمت تبصرے اور تاٸید بندہ اور چشمہٕ رحمت کے سبھی معاونین کے لیۓ سرمایہٕ افتخار ہیں اللہ آپ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے


کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں