تازہ ترین

منگل، 10 مارچ، 2020

حکومت محمد علی جوہر یونیورسٹی پرقبضہ کرسکتی ہے

 رامپور(یواین اے نیوز10مارچ2020)اعظم خان نے جس یونیورسٹی کی منظوری  اور اس کی تعمیر و ترقی میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا  ،اب اس پر حکومت قبضہ کر سکتی ہے اور اس کا انتظام سنبھال سکتی ہے۔یہ کا رروائی ضلع مجسٹریٹ کی رپورٹس کی بنیادپر کی جاسکتی ہے جس کے مطابق   یونیورسٹی کی تقریباً۵۰؍ فیصدزمین  سرکاری  ہے اور اس کی تعمیر کیلئے ۵۰؍فیصدسے زائد رقم سرکاری ذرائع سے حاصل کی گئی،ضلع مجسٹریٹ  انجینے کمار سنگھ۲؍بار محمد علی جوہر یونیورسٹی کو ایکوائر کرنے کی تجویز حکومت کو بھیج چکے ہیں جو حکومت اترپردیش کے زیر غور ہے اور کبھی بھی یونیورسٹی کو ایکوائر کرنے کا آرڈر آسکتا ہے۔ 

 محمد علی جوہر یونیورسٹی کی جانچ کیلئے ضلع مجسٹریٹ انجینے کمار سنگھ نے چیف ڈیولپمنٹ افسر کی نگرانی میں ۹؍ رکنی کمیٹی بنائی تھی جس نے اپنی رپورٹ  پیش کردی ہے۔ اب ایس ڈی ایم صدر پریم پرکاش تیواری نے دوسری رپورٹ  پیش کی ہے۔ ان رپورٹوں کی بنیاد ہی پر ضلع مجسٹریٹ نے جولائی ۲۰۱۹ء اور فروری ۲۰۲۰ء میں حکومت کے سامنے تجو یز پیش کی کہ یونیورسٹی میں ایک بڑا حصہ حکومت کا ہے  لہٰذا  حکومت اس کا انتظام سنبھال لے۔انہوں نے  حکومت کو اپنی رپورٹ میں بتایا کہ جوہر یونیورسٹی کی ۷۸؍ ہیکٹیئر میں سے ۳۶؍ ہیکٹیئر زمین سرکاری ہے۔اسی طرح سے یونیورسٹی کی تعمیر وقیام میں ۱۶۳؍ کروڑ روپے لگانے کا اندازہ ہے جس میں ۸۸؍ کروڑ روپے کی رقم سرکاری ذرائع سے حاصل کی گئی ہے۔اس کے پیش نظر  حکومت محمد علی جوہر یونیورسٹی کو چلانے کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے۔ ڈی ایم کا کہنا ہے کہ آخری فیصلہ حکومت کو کرنا ہے۔

 دونوں جانچ رپورٹوں میں لکھا ہے کہ جن شرطوں پر حکومت نے محمد علی جوہر ٹرسٹ کو محمد علی جوہر یونیورسٹی کیلئے   مراعات دی تھیں ان شرائط پر عمل نہیں کیا گیا۔ غریبوں کو مفت تعلیم نہ دے کر بھرپور فیس لی جارہی ہے۔ہر سال یونیورسٹی کی کارکردگی کی رپورٹ ضلع مجسٹریٹ کو دینا لازمی ہے لیکن ایک بھی رپورٹ نہیں بھیجی گئی ہے۔اس کے علاوہ ایس ڈی ایم صدر نے اس سلسلے میں محمد علی جوہر ٹرسٹ کے چیئرمین محمد اعظم خان اور سیکریٹری ڈاکٹر تزئین فاطمہ کو ایک نوٹس بھیجا تھا جس کا جواب مقررہ تاریخ میں نہیں دیاگیا۔اس پر بھی ایک مقدمہ درج کرنے کی تیاری ہے۔اس سلسلے میں سماجوادی پارٹی کے اہم لیڈر محمد اعظم خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ تعلیم کے دشمن کئی سال سے محمد علی جوہر یونیورسٹی بند کرنے کی کوشش کررہے تھے۔

 اب ان کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر آرہی ہے۔ اقلیتی تعلیمی ادارہ پر خطرے کے بادل منڈلارہے ہیں۔دوسری جانب  رکن پارلیمنٹ کے مخالفین کا کہنا ہےکہ محمد اعظم خان نے یونیورسٹی کی  توسیع کیلئے سرکاری زمینوں، چک روڈ، کسٹوڈین اور کسانوں کی زمینوں پر  قبضہ کیا  تھااور اُنہیں محمد علی جوہر یونیورسٹی کے احاطے میں شامل کرلیا تھا۔ اب یہی  زمینیں مصیبت بن  رہی ہیں۔ رامپور کی تاریخ میں انجینے کمار سنگھ پہلے ایسے ضلع مجسٹریٹ ہیں جنہوں نے  اعظم خان جیسے قدآور سیاسی لیڈر سے ٹکرا نے کی جرأت کی ہے۔   ماہرین کی جانب سے قیاس لگا یا جارہا  ہے کہ محمد اعظم خان اور ان کی فیملی کوجیل سے باہر آنے میں  وقت لگے گا اور سوار کے ضمنی اسمبلی الیکشن میں بھی شاید وہ حصہ نہیں لے سکیں گے۔
روزنامہ انقلاب

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad