نئی دہلی(یواین اے نیوز17مارچ2020)شمالی دہلی میں رونما ہونے والے حالیہ فرقہ وارانہ فسادات میں بے قصور افراد کی گرفتاری اور پا پولر فرنٹ آف انڈیا کے ممبران و عہدے داران کی اندھا دھندگرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے آل انڈیا تنظیم علمائے حق کے قومی صدر مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی نے پریس بیان میں کہا کہ حکمراں جماعت اور دہلی پولس فسادات کی آگ بھڑکانے والے اصل مجرموں کی پردہ پوشی کے لیے بے قصوراور معصوم افراد کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کر رہی ہے اور علانیہ مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے ان کو حفاظتی دستہ فراہم کرنے کے ساتھ بہت بے شرمی کے ساتھ ان کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ حد تو یہ ہے کہ عدالتی تنبیہ اور سخت سر زنش کے باوجود ان عناصر کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی ہے جنھوں نے سر عام اپنی ریلیوں میں گولیاں مارنے اور مظاہرین کو سبق سکھانے کی دھمکی دی تھی۔ مولانا قاسمی نے کہا کہ شاہین باغ اورملک کے دوسرے مقامات پر جاری سی اے اے اور این آر سی کے خلاف آئین و دستور کی روشنی میں منعقدہ پر امن احتجاج کودروغ گوئی سے کام لے کر بد نام کیا جارہا ہے اور ان سیاسی رہ نماؤوں کے آتشیں بیانات کا نوٹس لینے سے حکومت اور انتظامیہ دانستہ انحراف کر رہی ہے جنھوں نے دہلی اسمبلی انتخابات سے قبل اور اس کے بعد زہر آلود اور نفرت انگیز بیانات دیے تھے اور اپنے حامیوں کو اقلیتی فرقہ کے خلاف مشتعل کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ سب کچھ آن ریکارڈ محفوظ ہے کہ بی جے کے ممبر پارلیمنٹ پریش ورما، پارلیمانی وزیر انوراگ ٹھاکر اور بی جے پی امیدوار کپل مشرا نے پولس کو چیلنج کرتے ہوئے علانیہ مظاہرین کو گولی مارنے اور اپنے حامیوں کو قانون و انتظام کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے مشتعل کیا تھا، مگر حکومت ان لوگوں کے خلاف مناسب قانونی کارروائی کرنے کے بجائے ان تنظیموں کے افراد و ارکان کے خلاف گرفتاری کا تانا بانا بن رہی ہے، جن کا اس فساد کی آگ بھڑکانے میں دور دور تک کوئی کردار نہیں ہے۔ مولاناقاسمی نے کہا کہ دہلی فساد، فساد نہیں تھا، بلکہ ایک فرقہ کے خلاف منظم سازش تھی، یہ قتل عام تھا، جو ملک کے دار الحکومت کی پیشانی پر ایک بد نما داغ ہے اوراس کے سبب عالمی منظر نامے پر ہمارا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کس طرح شر پسندوں نے پولس کے تعاون سے ایک فرقہ کے خلاف تقریبا تین دن تک آگ اور خون کی ہولی کھیلی، پچاسوں افراد اس فساد میں جاں بحق ہوئے اور اربوں روپے کا مالی نقصان ہوا، کاروباری ادارے تباہ کردیے گئے،مسجدوں اور مدرسوں کو نذر آتش کردیاگیا، مسجدوں کے میناروں پر زعفرانی جھنڈے آویزاں کردیے گئے، مگر حکومت نے پارلیمنٹ میں اس پرکل جماعتی بحث کے دوران جس طرح کی منطق استعمال کی اور سیاسی انتقامی جذبے کے تحت فسادات کا اصل ذمہ دار دوسروں کو قرارا دینے کی کوشش کی، وہ اس ملک کی جمہوری روایات اور سیکولرازم کے منافی ہے۔
مولانا نے کہا کہ موجودہ مرکزی حکومت ایک مخصوص نظریے کے تحت کام کر رہی ہے اور ہر اس آواز کو سبوتاژ کردینا چاہتی ہے جو حکومت اور حکومت کی پالیسیوں کے خلاف جمہوری دائرے میں بلند ہوتی ہے۔انھوں نے کہا کہ حکومت دہلی فسادات میں ملوث اصل مجرمین کے چہرے پر نقاب ڈالنا چاہتی ہے اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا جیسی سماجی اور رفاہی تنظیموں کو بد نام کرنا چاپتی ہے، جو بلا تفریق مذہب رفاہی اور فلاحی اور خدمت خلق کے کاموں میں مصروف رہتی ہے۔ انھوں نے حکومت سے یہ اپیل کی کہ وہ دہلی فسادات کے اصل مجرموں تک رسائی اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے ممبران پارلیمنٹ پر مبنی ایک کل جماعتی وفد وہاں بھیج کر حالات کا نزدیک سے جائزہ لے اور ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی میں اس خونیں فساد کی منصفانہ جانچ کرائے، تبھی اصل مجرمین تک رسائی ممکن ہے اور ان بے قصور افراد کی بے تحاشہ گرفتاری پر بند باندھا جاسکتا ہے، جنھیں بلا وجہ شک و شبہ کی بنیاد پرہراساں کیا جارہا ہے اور انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال کر اقلیتی فرقہ کو دہشت زدہ کیا جارہا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں