تازہ ترین

پیر، 16 مارچ، 2020

قرطبہ

سید شاہ مولانا حکیم علیم الدین بلخی فردوسی ندوی 
سجادہ نشیں ، خانقاہ بلخیہ فردوسیہ،فتوحہ
                                (یہ مضمون ہماری آواز کانپور کے
                                ٢٩ جون ١٩٤٦ء کے شمارہ میں شائع ہو چکا ہے۔)
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے بازخواں ایں قصہ پارینہ را
(اگر سینے کا داغ لگ گیا ہو تو اسے ہمیشہ تازہ رکھ اور کبھی کبھی اس پرانے قصہ کو یاد کیا کر )

اسپین پر عربوں کا اقتدار تقریباً آٹھ سو برس تک رہ چکا ہے ۔یہ نا ممکن ہے کہ جس خطئہ ارضی پر اتنے عرصے تک ہم حکمراں رہ چکے ہوں اس حکمرانی کی یاد ہمارے دلوں سے فراموش ہو جائے ۔یہ ٹھیک ہے کہ گزرے ہوئے واقعات اور بیتے ہوئے لمحات کا تذکرہ محض واقعاتی حیثیت رکھتا ہے جس کا تعلق ماضی سے ہے اور ماضی بہر حال ماضی ہی ہے۔فکر مستقبل کی کرنی چاہئے۔قوم کو آگے بڑھنے کے لئے مستقبل ہی سے کام لینا ہے۔لیکن نہیں ،ماضی کو بالکل بھلا دینا بھی نا فہمی ہے ماضی کی داستانیں موعظت و عبرت سے قطع نظر کبھی قوم کے خوابیدہ شعور اور ملت کے خفتہ جذبہ کو بیدار کرنے میں معاون بھی بنتی ہیںجن کے پس پردہ وہ مستقبل کی رہنمائی ہوتی ہے اور مستقبل کی عمارتیںتیار کرنے میں وہی ماضی کی عمارتیں نمونہ بنتی ہیں ۔
    آج کی صحبت میں تاریخ اسپین کی کتاب کا ایک صفحہ پیش کرتا ہوں۔میرا مضمون مندرجہ ذیل کتب سے ماخوذ ہے(١؎)تمدن عرب مولفہ ڈاکٹر گستاؤ ولیبان فرانسیسی ترجمہ مولانا سید علی بلگرامی مرحوم (٢؎)تاریخ التمدن الاسلامی (الجزء لخامس)مولفہ جرجی زیدان معجم البدان(٣؎) معجم البدان (الجلد الاول والجلد السابع)مولفہ یاقوت الحموی(٤)نفح الطیب من غصن الاندلس الرطیب(الجلد اول)مولفہ شیخ المقری السلمستانی۔
    اسپین کو خلیفہ ولیدین عبد الملک اموی کے دور خلافت ٩٥؁ھ میں موسیٰ ابن نصیر گورنر افریقہ کے غلام طارق ابن زیاد نے فتح کیا۔اور اس کے بعد یہاں برابر ایک مسلمان گورنر اموی خلافت کے ماتحت گونری کرتا رہا۔پھر جب عباسی حکومت کا اقتدا ہوا اور اموی ایون حکومت کی اینٹ سے اینٹ بج گئی تو سفاح عباسی نے تخت نشیں ہوتے ہی خاندان اموی کے ایک ایک فرد کو ڈھونڈ کر قتل کرانا شروع کیا لیکن اس خاندان میں ایک شخص کسی طرح بچا رہا اور اسی نے اسپین پہنچ کر ایک نئی اموی حکومت کی بنیاد رکھی اس کا نام عبد الرحمٰن اول تھا جو ''الداخل'' کے لقب سے تاریخ میں مشہور ہے ۔یہ واقعہ ١٣٧ھ کا ہے۔یہاں کی یہ نئی اموی حکومت مستقبل آزاد بن کر رہی اور عباسی حکومت کی حریف رہی۔
    عبد الرحمٰن الداخل نے اپنا یا یہ تخت قرطبہ(Cordoba) کو بنا یا۔عبد الرحمٰن کے بعد بھی کئی صدیوں تک قرطبہ ہی پایہ تخت بنا رہا۔گو بعد کو اسپین میں آپس کی خانہ جنگیوں کی بناء پر عربی حکومت کی حصوں میں بٹ گئی تو قرطبہ دار السلطنت نہ رہا۔غرناطہ (Granada)اور اشبیلیہ(Seville)پائیہ تخت بن گئے۔غرناطہ اور اشبیلیہ میں تو اب تک بہت سے قدیم آثار باقی ہیں جو اپنے فن تعمیر کے اعتبار سے بے مثل ہیںاور وہ خاموش زبانوں میں آپ اپنی حالت زاد پر مرثیہ خواں ہیں۔غرناطہ کا عظیم الشان وبے نظیر قصر الحمراء جیسے بادشاہ ابن الاحمد نے آٹھویں صدی ہجری میں بنایا تھا۔آج بھی باقی ہے اور یہ لال لال محل اپنی بیکسی پر خون کے آنسو رو رہا ہے۔اس محل کی صنعتی دلربائیوں کے متعلق تو یہاں کچھ لکھنا فضول ہے۔
    مورخ موسیولیان لکھتا ہے کہ '' قصر الحمراء کے اسے بیان لکھنے کا قصد کرنا جس سے اسی کا اصلی اندازہ ہو سکے بے فائدہ ہے۔مصور کا قلم ہی اس کام کو کر سکتا ہے ''نیر موصوف اور آگئے لکھتا ہے کہ '' کل صناع اور اہل کمال جنہوں نے الحمداء کو دیکھا ہے اندلس کے نصاریٰ کی اس عجیب و غریب وحشیانہ حرکت کو افسوس کے ساتھ بیاں کرتے ہیں۔جو ان سے اس قصر کے برباد کرنے میں سرزد ہو ئی۔چارلس پنجم نے تو اسی کا ایک حصہ اسی مرض سے توڑ ہی ڈالا تھا کہ اس کے مصالح سے ایک دوسری بے ڈھنگی عمارت بنائے مجھے یہاں پر غرنامہ اور اشبیلیہ کا حال لکھا مقصود بھی نہیں اس لئے ان دونوں کو چھوڑ تا ہو ا قرطبہ کی طرف رخ کرتا ہوں۔
    قرطبہ پانچ سو برس تک اسپین کا دارالسلطنت رہا۔اس زمانہ میں جو ترقیاں اسے حاصل ہوئیں وہ سوائے بغداد کے کسی اور شہر کو حاصل نہ ہوئیں۔مدنی، علمی، عمرانی صنعتی تجارتی ہر لحاظ سے یہ اوج کمال پر پہونچا اور چار دانگ عالم میں اس کی شہرت کا غلغلہ پھیل گیا۔ اس سر زمیں پاک سے بڑے بڑے علماء ،فلاسفہ، شعرائ، مورخیںمحدثین وغیرہ عالم وجود میں آئے۔اس وقت یہاں ابتدائی مدارس کی افراط تھی جہاں غریبوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ پورے اسپین میں علمیت عام تھی چنانچہ ایک عیسائی مورخ لکھتا کہ '' اسپین میں تقریباً ہر فرد لکھنا پڑھنا جانتا تھا۔ اس کے مقابلہ میں عیسائیوں کے یوروپ میں اور پادریوں کے سوا اعلیٰ سے اعلیٰ طبقہ کے لوگ بالکل جاہل تھے۔''
    کتب خانوں کی بھی یہاں بہت کثرت تھی۔خاص امیر کا شاہی کتب خانہ جو بہت ہی مشہور تھا اس میں چار لاکھ کتابیں تھیں جو بعد کو سب عیسائیوں کے دست کرم و منت کی مرہون بنیں۔یہ واقعہ ہے حقیقت سے پر۔ بہتان تراشی نہیں۔صرف غرناطہ کی کتابوں کے متعلق جو لیبان لکھتا ہے اسی سے اندازہ لگا لیجئے موصوف کے الفاظ یہ ہیں۔''زمی نیز نے اپنے وقت میں غرناطہ کی کل کتابوں کو جن کی تعداد ٨٠٠٠٠اسّی ہزار تھی جلوایا تو وہ یہ سمجھا تھا کہ اپنے دشمنان عیسوی کی یاد گار کو ہمیشہ کے لئے صفحہ تاریخ سے مٹا دیا۔قرطبہ کی یونیورسٹی کو سارے عالم مٰں مقبولیت عام حاصل تھی۔یوروپ ایشاء افریقہ کے دور دور مقامات سے تشنگان علم یہاں سیراب ہونے کے لئے آتے تھے۔''اخبار کی تنگ دامانی اجازت نہیں دیتی کہ یہاں کی علمی ترقیوں کا بھی حال لکھوں۔
    قرطبہ کو دور ماضی کے لحاظ سے جنت ارضی عروس البلاد، اور فردوس بروئے زمین کے لقب سے اگر یاد کروں تو بیجا نہیں۔دوسویں صدی کے ایک جرمن مورخ نے اسے' زینت عالم 'کے لفظ سے مخاطب کیا ہے۔ ایک اورعیسائی مورخ نے اسے باغ ارم کا نمونہ بتایا ہے۔یہاں ہر جھلک قلعوں، عالی شان مسجدوں، بڑی بڑی عمارتوں ،عمدہ عمدہ حماموں ، مضبوط پلوںاور پر رونق بازاروں کی کثرت تھی۔قرطبہ شہر کی آبادی مورخ جرجی زیدان کے لکھے ہوئے شمارے کے مطابق بیس لاکھ تھی یہ آبادی بھی اور کلکتہ کی آج کل کی خالص آبادی سے تقریباً دو گنی تھی ۔شیر بغداد کی آبادی بھی اس زمانہ میں قرطبہ کی آبادی سے کچھ ہی زیادہ تھی۔شہر قرطبہ کی لمبائی ٢٤ میل تھی اور چوڑائی ٥٦ میل،پورا رقبہ ہر چہار طرف سے ١٤٤ میل سے گھرا تھا۔لندن کامربع رقبہ اس وقت ١١٧ میل ہے۔ اس حساب سے قرطبہ کا رقبہ زیادہ تھا۔
    شہر کی خوبصورتی اس لئے بھی اور زیادہ بڑھی ہوئی تھی کہ پورا شہر دریائے قرطبہ کے کنارے آباد تھا اور بہت سے عمدہ اور مضبوط پل ان پر بنے ہوئے تھے۔نیز شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک باغوں اور پارکوں کا سلسلہ چلا گیا تھا۔جن کی دلفریبی کے بیان کرنے کے لئے سچ کہوں تو وہ الفاظ بھی نہیں جن سے صحیح اندازہ ہو سکے۔مورخین نے مختلف سلاطین کے زمانے میں یہاں کے مکانات اور عمارتوں کی تعداد کا جو اندازہ لگایا ہے اس کا حساب بھی چند در چند میں یہاںپر ایک اجمالی نقشہ پیش کرتا ہوں جس سے آپ کچھ اندازہ لگا لیںگے۔یہ نقشہ مختلف زمانوں کو سامنے رکھ کر اوسط تعداد پر مبنی ہے:
                رعایا کے مکان            ١١٣٠٠٠
                محل وایوان            ٤٣٠
                حکومت سے متعلق مکانات    ٦٣٠٠
                مساجد                ٣٨٧٣
                حمام                 ٩٠٠
                کُل                ١٢٤٥٠٣
    ابن عامرکے زمانے میں یہ تعداد اور بھی زیادہ بڑھی ہوئی تھی۔مورخین بتاتے ہیں کہ اس کے زمانے میں٢ لاکھ اوسط درجہ کے مکانات ،٦٠ ہزارتین سو محل اور شاہی مکانات ٨٠ ہزار، ٤ سو دکانیں تھیں۔ حماموں ،مسافر خانوں اورسرابوں وغیرہ کی تعداد ان کے علاوہ تھی۔یہاں کی بعض عمارتوں کی نظیر ساری دنیا میں نہیں تھی۔ان عمارتوں کے بعض آثار اب تک باقی ہیں جو اس گئی گذر ی حالت میں بھی سیاحوں سے خراج تحسین حاصل کرتے ہیں۔میں اس شہر کی چند اہم عمارتوں کا حال یہاں لکھتا ہوں۔کسی شاعر نے قرطبہ کی تعریف میں ان اشعار کے ذریعہ حقیقت کا اظہار کیا ہے۔
باربع فاقت الا مصار قرطبہ
منھن قنطرہ ۃ الوادی وجا معھا
ھاتان ثنتان والزھراء ثالثہ
والعلم اعظم شئی وھو رابعھا 
یعنی چار چیزوں کی وجہ سے شہر قرطبہ کی تمام شہروں پر تفوق حاصل ہے ۔ان چاروں میں سے ایک دریائے قرطبہ کا پل ہے اور دوسری مسجد ہے تیسرا قصر الزھرا ہے اور چوتھی سب سے بڑی شئے علم ہے۔
    قصر کبیر:۔یہ بہت عظیم الشان محل تھا جس کا تذکرہ صرف تاریخوں میں ملتا ہے۔اسے عبد الرحمٰن الداخل نے دوسری صدی ہجری کے اوسط میں بنوانا شروع کیا تھا۔ اس کے رحلت کر جانے کے بعد کے سلاطین نے پورا کیا۔اس بڑے محل کے اندر بھی ٤٣٠ خوبصورت محل تھے۔ان سبھوں کے نام کامل ،مجدر، حامر،روضہ،معشوق،مبارک ،ستق،قصر سرو، قصر بدیع وغیرہ تھے ۔اس محل کے اندر بہت سے حوض ،تالاب بنے ہوئے تھے جو خالص سنگ مرمر کے تھے اور ان پر نقوش بھی تھے۔ان تالابوں میں بہت دور پہاڑوں سے نالوں کے ذریعہ پانی لایا گیا تھا۔یہ نالے رانگے کے بنے ہوئے تھے لیکن محل کے اندر وہ سب خالص سونا اور چاندی کے تھے جن میں سونے اور چاندی کی نلکیاںلگی ہوئی تھیں اور نلکیوں سے تمام حوضوںاور تالابوں میں پانی پہنچتا تھا۔وہ بھی تمام حوضوں کے پاس مختلف شکاری پرندوں کی شکل سے مشابہ بنی ہوئی تھیں اور انہیں کے منھ سے پانی گرتا تھا۔
مسجد قرطبہ 
    اس مسجد کی تعمیرکی ابتداء بھی عبد الرحمٰن اول الداخل ہی کے ہاتھوں سے ہوئی اور بعد کے سلاطین نے اسے اختتام کے درجہ تک پہونچایا۔ بالاتفاق تمام مورخین کا بیان ہے کہ تعمیری فن کے لحاظ سے اس جیسی بہترین مسجد یا دنیا کی کوئی اور عمارت اس کے مقابل میں نہ تھی ۔اس کی لمبائی ٢٣٠ گز تھی اور چوڑائی ٢٨٥ گز۔ اس کی چھت ایک ہزار ٢ سو ٩٣ مختلف ستونوں پر قائم تھی۔اس کے مینارے ٧١ گز بلند تھے۔ اس میں ١٩ دروازے تھے جن پر نہایت باریک کام کی ہوئی کانسے کی پتریان جڑی ہوئی تھیں۔باستثنا بیچ کے دروازے کی پتریان سونے کی تھیں۔محراب کی دیوار اور آس پاس کے تمام حصے بھی سونے سے ملمع کردہ تھے اور ان پر اعلی قسم کی گل کاریاں تھیں۔ مسجد کے تمام ستون اور دیواریں ہر قسم کے گل و برگ اور کھجور کے پتوں سے نقوش تھیں ۔سنہری زمین پر بھی گل و بوٹے بنے ہوئے تھے۔مسجد میں ٢٨٠ فانوس لٹکے رہتے تھے جن کی روشنی سے ساری مسجد بقعہ نور بنی رہتی تھی۔ بیچ میں ایک اور پیتل کا شمع دان رکھا رہتا تھا جس میں ایک ہزار شمعوں کے رکھنے کی جگہیں تھی ۔ان سبھوں کو شب کے وقت روشن کیا جاتا تھا۔ممبر کے بیچ میں خلیفہ عثمان ؓ کا مصحف مقدس بھی ایک عود کے رحل پر رکھا رہتا تھا۔جس پر ایک خاص سونے کا غلاف چڑھا ہوا تھا اور اس غلاف پر موتی و یاقوت جڑے ہوئے تھے اور پھر وہ سب دیباج کے پردے سے ڈھکے رہتے تھے۔ عود کے رحل میں بھی سونے کی کیلیں جڑی ہوئی تھیں۔ 
    یہ مسجد اب تک باقی ہے اور اس وقت گرجابنی ہوئی ہے۔اس کے مشرقی نقوش اور عربی تحریریں اپنے بنانے والوں کی یاد تازہ کر رہی ہیں۔مورخ لیبان فرانسیسی نے اسے دیکھنے کے بعد جو حقیقت بیانی سے کام لیا ہے وہ یہ ہے:
    ''باوجود اس کے کہ اندلس کے عیسائیوں نے اس عمارت کی بہت کچھ بے حرمتی کی ہے پھر بھی جامع قرطبہ اس وقت ایک عجیب عمارت ہے۔اس کو متبرک بنانے کی غرض سے اس کے اندر بہت بڑے کلیسے کی تعمیر شروع کی گئی ہے۔دیواروں کی آرائشوں اور کتبوں پر چونے کی استر کاری کر دی گئی ہے۔فرش مسجد کی پیچی کاری کا کام اٹھا لیا گیاہے۔وہ پر تکلف چھتیں کندہ کی ہوئی لکڑی کی فروخت کر دی گئی ہیں۔اس قدیم عمارت کی اصلی شان کا اندازہ کرنے کے لئے فقط ایک مصلی کا دیکھنا کافی ہے کہ یہی ایک جز عمارت کا اسوقت تک ان کی پر درد وحشیانہ دست برد سے بچا ہوا ہے۔
قصر زھرائ
    اس قصر کا نام ونشان تو اب باقی نہیں رہا۔ہاں اس کا تذکرہ کتابوں میں ملتا ہے۔ اس محل کو خلیفہ ناصر نے ٣٢٥ھ میں بنوانا شروع کیا تھا۔ پھر اس کے بیٹے حکم نے چالیس سال میں اسے پورا کیا۔ یہ محل کیا تھا ،پورا ایک شہر آباد تھا جس کی لنبائی ٦ ہزار سو گز تھی اور چوڑائی ایک ہزار ٥سو گز۔اس کے ستونوں کی تعداد ٤ ہزار تین سو تھی جو سب کے سب قیمتی تراشے ہوئے سنگ مر مر کے بنے ہوئے قصر کے دالانوں میں مربع سنگ مر مر کا فرش جس میں ہزاروں قسم کی گلکاریاں تھیں بچھا ہوا تھا۔دیواروں پر بھی سنگ مر مر کی استرکاری تھی جس پر مختلف رنگوں کے گل بوٹے بنے ہوئے تھے۔ چھتوں میں سنہری اور زنگاری رنگ آمیزیاں نہایت تکلف کے ساتھ پیچ در پیچ تھیں۔شہتیر اور چھت کے تختے صنوبری لکڑی کے نہایت نازک اور بیش قیمت تھے۔
    اس محل کے اندر بھی ایک عالیشان مسجد تھی اور کئی محل بنے ہوئے تھے ۔خاص خلیفہ کا محل علیحٰدہ تھا جو ''قصر الخلیفہ'' کے نام سے مشہور تھا ۔قصر الخلیفہ کی چھت سنہری شفاف اور مختلف سنگ مر مر کے رنگوں کی بنی ہوئی تھی۔اور دیواروں پر بھی یہی پتھر لگے ہوئے تھے۔حجرہ کے ہر طرف آٹھ آٹھ در تھے جن کی محرا بیں ہاتھی کے دانت اور فانوس لکڑی کی بنی ہوئی سونے اور جواہرات سے مرصع تھیں۔ ان محرابوں کے ستون بھی مختلف رنگین مر مری پتھروں اور بلور کے بنے ہوئے تھے۔
    قصر زہراء کے مختلف حصوں میں بہت سے مر مریں حوض و تالاب بنے ہوئے تھے جن میں خوش رنگ مچھلیاں ہر وقت تیرتی رہتی تھیں۔ان مرمریں حوضوں میں بھی سونے کی پچکاریاں و گل کاریاں کی گئی تھیں۔مختلف دالانوں میں خوش نما فوارے صاف پاکیزہ پانی کے چھوٹتے رہتے تھے۔یہ فوارے جانور اور پرندوں کی شکل کے بنے ہوئے تھے جن کے منھ سے پھواریں نکلتی رہتی تھیں۔ کہیں شیر ،ہرن مگر ،ہاتھی اور سانپ کے اسٹیچو بنائے گئے تھے تو کہیں گدھ ،کبوتر،شاہین، مور، مرغا، مرغی کی شکلیں تیار کی گئی تھیں۔یہ مختلف شکلوں کے فوارے سب سونے کے بنے ہوئے تھے اور جواہرات سے مزین تھے۔
    اس عظیم الشان محل میں کئی باغ اور چمن بھی تھے جس میں میوجات اور پھولوں کے درخت لگے ہوئے تھے اور ان کے مختلف حصوں میں ریشمی قالین بچھی رہتی تھیں ۔ان تمام قالینوں پر اس طرح گل و بوٹے اور جانوروں کی تصویریں بنی ہوئی تھیں کہ ان کی طرف دیکھنے سے ان کی اصلی ہونے کا دھوکا ہوتا تھا۔ باغ کے وسط میں خلیفہ کا کو شک تھا اور اسی کوشک کے وسط میں سنگ کا شہد حوض تھا جس میں پارہ بھرا رہتا تھا اور ایک خاص اختراع کے ذریعہ اس میں آفتاب کی شعاعیں نہایت لطف کے ساتھ منعکس ہوتی رہتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ تقریباً ٥ کروڑ دینار اس کے بنوانے میں خرچ ہوئے تھے اور دس ہزار مزدور روزانہ اس کے تیار کرنے میں لگے رہتے تھے اور ڈیڑھ ہزار جانوروں سے کام لیا جاتا تھا۔ خلیفہ نے یہ محل اپنی ملکہ زہراء کو خوش کرنے کے لئے بنوایا تھا۔
    قصر زاہرہ
    المنصورین ابی عامر نے خلیفہ ناصر کی اقتداء کرتے ہوئے ٣٦٨؁ہجری میں اس محل کو بنوایا تھا اور نام قصر زہراء رکھا۔ اس محل کے تیار کرنے میں بھی بہت کافی خرچ سے کام لیا گیا۔یہ محل شہر قرطبہ سے ذرا کچھ دور نہر قرطبہ کے کنارے بنوایا گیا۔ اس کے بنوانے کی در اصل غرض یہ تھی کہ دشمنوں کی مدافعت یہاں سے کی جائے ۔جب یہ قصر بنا تو شہر قرطبہ کی آبادی یہاں تک پھیل کر چلی آئی۔اس لیے سڑکوں پر خاص طور سے روشنی کا انتظام کیا گیا اور دس میل تک لوگ روشنی میں اطمینان سے آمدو رفت کرنے لگے۔
    قنطرہ قرطبہ
    یہ بہت ہی عمدہ اور مضبوط پل تھا جو نہر قرطبہ کے اوپر بنوایا گیا تھا۔اس کی لنبائی ٨ سو گز تھی اور چوڑائی ٢٠ گز و بلندی ٦٠ گز۔ اس کے اوپر ١٩ پرجیاں تھیں اور اس کے نیچے ١٨ محراب تھے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad