نئی دہلی(یواین اے نیوز 16مارچ2020)پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی قومی مجلس عاملہ نے 15 مارچ 2020کو بنگلور میں منعقدہ اپنے اجلاس کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں وزیر داخلہ امت شاہ سے شہریت کے موجودہ ضوابط اور آئندہ مردم شماری کے ساتھ شامل این پی آر کے عمل کے متعلق جاری کردہ اعلانات کی متعلقہ شقوں میں ضروری ترامیم کرنے کی اپیل کی ہے۔ جب تک فوری طور پر اس طرح کی قانونی و عملی تبدیلی نہیں کی جاتی، راجیہ سبھا میں ان کے ذریعہ کئے گئے وعدے کو محض سی اے اے - این آر سی - این پی آر کے خلاف سڑکوں پر آئے ہندوستانی شہریوں کو گمراہ کرنے اور شک میں ڈالنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جائے گا۔دیر آید درست آید کے طور پر اگر نفرت کی سیاست کے بجائے سیاسی شعور سے کام لیا جائے، تو یہ ایک خوش آئند علامت ہوگی۔ وزیر داخلہ نے مبینہ طور پر مقرّرہ مردم شماری 2021 کے ہاؤس لسٹنگ عمل اور این پی آر کے تحت معلومات جمع کرنے کے متعلق ملک بھر کے لاکھوں شہریوں کے خدشات اور الجھنوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے 12 مارچ 2020 کو راجیہ سبھا میں یہ یقین دہانی کرائی کہ کوئی دستاویز نہیں مانگا جائے گا، کسی سے بھی وہ معلومات دینے کے لئے نہیں کہا جائے گا جو وہ دینا نہیں چاہتا اور کسی کو بھی ’مشکوک شہری‘ کے زمرے میں نہیں رکھا جائے گا۔تاہم مذکورہ زبانی یقین دہانی سے معاملہ حل نہیں ہونے والا، جب تک کہ این پی آر سے متعلقہ ضوابط میں ترمیم نہیں کی جاتی اور اسے قانونی طور پر پیش نہیں کیا جاتا۔ اگر مرکزی حکومت عوام کے جذبات کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور لوگوں کے تعاون کے ساتھ بغیر این پی آر کے مردم شماری کرنے کی تیاری کر رہی ہے، تو شہریت (ترمیمی) قانون کے 2003 کے 3 (5)، 4 (3)، 4 (4)، (بی)، 6 (اے)، (بی)، (سی) جیسے این پی آر کی تیاری اور ”مشکوک شہری‘‘کی شناخت کے متعلق شہریت کے ضوابط کو فوری طور پر ہٹایا جانا چاہئے۔ ترمیم شدہ ضوابط کے ساتھ ساتھ، مردم شماری کے ہاؤس لسٹنگ عمل سے جڑے این پی آر کے بارے میں نچلی انتظامیہ کو دی گئی عملی ہدایات اور اعلانات میں بھی اسی کے مطابق تبدیلی کی جانی چاہئے۔یہ بات واضح ہے کہ وزیر داخلہ نے راجیہ سبھا میں اس بارے میں کوئی وعدہ نہیں کیا کہ مردم شماری سمیت این پی آر پر عمل کی شروعات کی مقرّرہ تاریخ یکم اپریل سے پہلے ضوابط اور اعلانات میں کوئی تبدیلی کی جائے گی۔
اس کے متعلق متعدد شہری حقوق کی جماعتوں کی یاددہانیوں کے باوجود، مرکزی حکومت اب تک اس پر خاموش ہے۔ شہری سماج کے خدشات کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے کا یہ رویہ بھی حکومت کے اصل ارادوں کے متعلق شک پیدا کرتا ہے۔پاپولر فرنٹ اور دیگر شہری حقوق کی تنظیموں نے بارہا اس جانب اشارہ کیا ہے کہ قومی آبادی رجسٹر (این پی آر)، ہندوستانی شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) کا ہی پہلا قدم ہے۔ اسی وجہ سے تنظیم نے این پی آر کے بائیکاٹ کی اپیل کی اور مردم شماری کے ساتھ این پی آر کو جوڑنے کی مخالفت کی۔ بیشتر اپوزیشن پارٹیوں، عوامی تنظیموں اور تقریباً ملک کی آدھی ریاستی حکومتوں نے این پی آر اور مردم شماری کے عمل کے ساتھ اسے جوڑنے کی مخالفت کی ہے۔ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی این ای سی نے عوام کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ محض زبانی باتوں سے گمراہ اور شک کا شکار نہ ہوں اور موجودہ سیاق میں بائیکاٹ کے فیصلے پر مضبوطی سے قائم رہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں