ظفر امام وطنِ عزیز کے دارالحکومت کہے جانے والے ‘‘دہلی‘‘ کے اسمبلی انتخابات میں جیت کا بگل بج چکا ہے، ایک فریق جیت کے تمغے کو لیکر شاداں و فرحاں ہے تو وہیں دوسرے دیگر فریق شکست و ریخت کی لعنت سے دوچار ہوکر ماتم کناں ہیں، ماضی قریب ہی میں سرزمینِ دہلی کی کوکھ سے جنم لینے والی‘‘عام آدمی پارٹی‘‘ کے جھاڑو کے تنکوں نے اپنے حریف، مدِ مقابل اور پاورفُل برسوں پرانی پارٹی بی، جے، پی یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی اینڈ کمپنی کے " کنول پھول" کی پنکھڑیوں کو روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں منتشر کردیا ہے، اور اس طرح ایک بار پھر عام آدمی پارٹی اپنی سابقہ حکومت کو بچانے میں کامیاب ہوگئی ہے جبکہ تقریباً پچھلے دو دہائی سے بنواس کی زندگی گزارنے والی اور مسندِ دہلی پر تخت نشیں ہونے کا خواب دیکھنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے خیالی خواب چکنا چور ہوتے ہوئے اس کے لئے پھر سے کم از کم پانچ سالوں کے لئے بنواس کا راستہ صاف ہوگیا ہے؛
راجدھانی دہلی کا الیکشن وطنِ عزیز کے جس حالیہ منظر نامہ کی جلو میں رونما ہوا، تماش بینوں اور دیدہ وروں کے لئے اس کے نتائج کافی پُرلطف اور بیانتہا دلچسپ تھے، صرف دہلی ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی نگاہیں اس کے نتائج پر مرکوز تھیں، لوگ سراپا شوق بنے اس کے نتائج کا انتظار کر رہے تھے، اہالیانِ ہند یہ گمان بلکہ یہ یقین کر چلے تھے کہ دہلی الیکشن کے یہ حالیہ دور رس نتائج ہندوستانی قدیم تاریخ کی پیشانی پر سنہرے حروف سے ایک نئے باب کا عنوان رقم کرینگے، اور ساتھ ہی ساتھ اہالیانِ ہند کے گمشدہ قافلوں کے لئے ایک نئی راہ ہموار کرنے یا مخدوش راستوں کو مزید پُرخطر بنانے میں ایک اہم کردار ادا کرینگے؛
کیونکہ ایک طرف جہاں مرکزی اقتدار کے مسند نشیں عفریت صفت آقاؤں اور غرور کے نشے میں دُھت فتنہ انگیز سورماؤں نے اپنی جیت کی راہ ہموار کرنے کے لئے پوری ایڑی چوٹی کا زور صرف کردیا تھا، اکثریتی طبقہ کو کمالِ عیاری سے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے دامِ تزویر میں پھنسانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرڈالی تھی، اور اس کے لئے انہوں نے ہندوستانی سماج کے ہرضابطۂ اخلاق کو پیروں تلے روندنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی، سماجی، ثقافتی، کلچری اور معاشرتی اقدار کو پامال کرنے کی انتھک تگ و دو کی تھی، ہندوستانی تمدن کی قدیم روایات کو زیرِ خاک دفن کردینے میں پوری جرأت مندی کا مظاہرہ کیا تھا، طرح طرح کی سیاسی پالیسی اور حربیاپنائے تھے، ملک میں بدامنی کی فضا قائم کرنے اور اس پر انتشار و انارکی کی ملمع سازی کرنے کے لئے پوری تندہی دکھائی تھی، کبھی فرقہ وارانہ بیان جاری کرکے آپسی اخوت اور بھائی چارگی کو نفرت کی بھینٹ چڑھا کر ان کے مابین مذہبی منافرت اور قومی عصبیت کی دیواریں قائم کرنے کے نسخے اپنائے تھے، کبھی‘‘ شاہین باغ‘‘ پر نشانہ سادھتے ہوئے کہا تھا کہ‘‘ دلی واسیو! ای وی ایم کا بٹن اس زور سے دبانا کہ کرنٹ سیدھا شاہین باغ پر جا لگے‘‘ کبھی یہ کہتے ہوئے برادرانِ وطن کے جذبات کو اشتعال انگیز کئے جانے کی کوشش کی گئی تھی کہ‘‘ اگر دہلی میں کجریوال جیت گیا تو ہندوستان میں خلافت قائم ہوجائیگی‘‘ اور کبھی‘‘ دیس کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو‘‘ جیسی نفرت آمیز اور متعصبانہ نعرے بازی کے ذریعے محبانِ وطن کے جذبات کو مجروح کرنے کی کوششیں کی گئیں تھیں؛
تو وہیں دوسری طرف ان کے مقابلے میں امن و امان کا پیامبر، سیکولرانہ مزاج رکھنے والا زبردست وطن پرور، جمہوریت کا پاسدار، باشعور اور تعلیم یافتہ شخصیت اور ہندوستان کے سیاسی افق پر ابھرتا ہوا ایک نیرِ تاباں، اہالیانِ ہند کے محبوب اور منظورِ نظر لیڈر عزت مآب جناب اروند کجریوال تنہا اپنی مٹھی بھر جماعت کے ساتھ ان فراعنۂ وقت کے ساتھ میدانِ کارزار میں پنجہ آزمائی کرنے میں برسرِپیکار تھا، اور اپنے صحیح، درست اور تعمیری سیاسی دھارے کو لوگوں کے سامنے پیش کرکیدہلی کے عوام سے اپنی جیت کی بازیابی کی آس لگائے ہوئے تھا؛
ایک ایسے وقت میں جبکہ ہندوستان کی تعمیری، تعلیمی، اقتصادی اور روزگاری مسائل انتہائی تشویشناک صورتِ حال اختیار کئے ہوئے ہیں، ہندوستانی تاریخ کا دھارا ایک مہیب، خوفناک اور بینشان سمت کی طرف بہہ رہا ہے (اور خدا نہ کرے کہ جو شاید کسی طوفانِ بلا خیز کا پیش خیمہ ثابت ہو) ہندوستان کے سیاسی سورج کو مسند پرستی اور ہوس نگاہی نے گہنا دیا ہے، عوام طرح طرح کے مسائل میں جوجھ رہے ہیں، خاص کر ہندوستانی مسلمان مخمصے اور تذبذب کی حالت میں کھڑے ہیں، دلی کے عوام نے جس زندہ دلی، بیدار مغزی، زیرکی، دانائی، دانش مندی اور سیکولر مزاجی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ان شاء اللہ سسکتی تاریخِ ہند میں آبِ زر سے لکھا جائیگا؛
یقیناً دہلی کے عوام کروڑہا کروڑ مبارکبادیوں اور ہزارہا ہزار تہنیتوں کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک آڑے وقت میں اپنے سیکولرانہ مزاج اور جمہوریت پسندی کا جوہر دکھایا اور اپنے نایاب و قیمتی ووٹوں کو صحیح اور درست جگہ استعمال کرکے اپنے ردِ عمل سے یہ ثابت کردیا کہ ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کی بہتی صاف اور شفاف دھاروں کو گدلا کرنے والوں کے لئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے، امن و امان کے پیامبر، صلح و آشتی کے معدِن اور اخوت و بھائی چارگی کے گہوارہ کہے جانے والے اس سر سبز و شاداب اور گلِ گلزار ہندوستان کو اجاڑنے والوں اور اس کی جگہ نفرت کی بیج بونے والوں کا یہاں کوئی گزر نہیں ہے؛
بہرحال اہالیانِ ہند کو جس دن کا کافی شدت سے انتظار تھا وہ دن آکر گزر بھی چکا ہے، گھر و در میں، بچے، جوان اور بوڑھوں کی زبانوں میں صرف دہلی الیکشن کے نتائج کا ہی تذکرہ ہے، چونکہ نتیجہ لوگوں کی عین آرزو کے مطابق برآمد ہوا ہے، اس لئے پورے ملک میں جشنِ چراغاں کا ماحول ہے لوگوں کے دلوں میں خوشیوں کے شادیانے بج رہے ہیں، ان کے سینوں میں مسرتوں کے نغمے مچل رہے ہیں، اور کیوں نہ ہو کہ یہ جیت جمہوریت کی جیت ہے، یہ جیت سیکولرازم کی جیت ہے، یہ جیت حق کی جیت ہے، یہ جیت بھائی چارگے کی جیت ہے، یہ جیت ہندوستانی کروڑوں لوگوں کی جیت ہے، یہ جیت فاشسٹ اور فسطائ طاقتوں کو نیچا دکھانے کی جیت ہے، یہ جیت رعونت، نخوت، کبر، گھمنڈ، غرور اور بڑائی کے سروں کو خوار کرنے کی جیت ہے؛
الغرض تاریخ نے ایک بار پھر یہ اعادہ کردیا ہے کہ غرور کا سر کبھی نہ کبھی نیچا ہوتا ہی ہے، ظلم و جور کی بنیادوں کے سہارے کھڑی کی گئی عمارت پر کبھی نہ کبھی تند و تیز ہواؤں کی لہریں چلتی ہی ہیں، جو اپنی آتشی اور طوفانی جھونکوں کی بدولت اس عمارت کے پرخچے اڑادیتی ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ دہلی کے عوام نے ایک دانشمندانہ اقدام سے بیسمت سفر کرنے والے کاروانِ ہند کے مسافرین کے لئے صحیح سمتِ سفر کا تعین کردیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ ہندوستانی مسافرین کے یہ گمشدہ قافلے اسی ڈگر پر چلتے ہوئے ہندوستان کی گہنائی ہوئی قسمت کو اوجِ کمال تک پہونچاتے ہیں یا پھر اس سے کج روی اختیار کرتے ہوئے اپنے ملکِ عزیز کو قعرِ پسماندگی تک پہونچانے میں ایک یادگار رول ادا کرتے ہیں؛
ظفر امام کشن گنجی
دارالعلوم بہادرگنج
کشن گنج، بہار
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں