رپورٹ۔دانیال خان ۔(یو این اے نیوز 2فروری 2020)پولیس کی سخت چوکسی کے باوجود دیوبند کے عیدگاہ میدان میں شہریت ترمیمی قانون مجوزہ این آر سی اور این پی آر کے خلاف غیر معینہ مدت کے لئے خواتین کا دھرنا چھٹے روز بھی بدستور جاری ہے۔حسب معمول شہر کے مختلف علاقوں بشمول محلہ دیوان،گوجر واڑہ،پٹھانپورہ،ابوالمعالی،بڑ ضیاء الحق،ریلوے روڑ،قلعہ،بیرون کوٹلہ اور محلہ خانقاہ سے بڑی تعداد میں خواتین چھوٹے بچے اور بچیوں کے ساتھ ہاتھوں میں سی اے اے مخالف بینر پوسٹر لیکر دھرنا گاہ پہنچ رہی ہیں اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے سیاہ قوانین سے دست برداری کا مطالبہ کر رہی ہیں۔دن بہ دن احتجاجی مظاہرے میں شدت آ رہی ہے چھوٹی بچیاں احتجاج میں نئے نئے رنگ بھر رہی ہے،احتجاجی آرٹ کے ایک سے بڑھ کر ایک نمونہ پیش کئے جا رہے ہیں،
لڑکیاں اپنے ماتھے پر ترنگی پٹی باندھ رہی ہیں تو بچے اپنے گالوں پر ترنگا جھنڈا بنواکر اپنا احتجاج درج کرا رہے ہیں۔خواتین دھرنا گاہ کے اسٹیج سے اعلان کر تے ہوئے کہ رہی ہیں کہ وہ کاغذ نہیں دکھایں گی کیونکہ وہ ہندوستانی شہری ہیں اور انہیں اب شہریت ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔پروگرام منتظمین میں شامل ارم عثمانی اور متحدہ خواتین کمیٹی کی صدر آمنہ روشی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک،دستور اور جمہوریت کی بقاء کے لئے تمام طبقات متحدہ احتجاج کر رہے ہیں کیونکہ شہریت ترمیمی قانون ہمارے ملک کے آئین کے مغائر ہے،ہمارا ملک گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ ہے ایک عرصہ سے یہاں ہندو مسلم مل جل کر رہ رہے ہیں،
یہی ہمارے ملک کی پہچان ہے لیکن موجودہ حکومت اپنے ناپاک عزائم کے ذریعہ اس عظیم اتحاد کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہے اور ملک کی عوام مرکزی حکومت کی یہ کوشش کبھی کامیاب نہیں ہونے دیگی۔عنبر ملک،نازیہ پروین،سلمہ احسن اور عذرا خان نے متنازع قوانین سے ہونے والے نقصانات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ متنازع سیاہ قوانین نافذ کرکے حکومت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے جس کو ملک کی عوام نے یکثر مسترد کر دیا ہے۔ عظمی عثمانی،ہما قریشی،فوزیہ سرور،زیبہ اور ساجدہ نے بھی اس سیاہ قانون کے خلاف اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آزادی کے 73سال بعد بھی اگر ہم سے شہریت کے ثبوت مانگے جاتے ہیں توشہریوں کی اس سے بڑی بے عزتی اور توہین نہیں ہو سکتی،انہوں نے کہا کہ حکومت آسام میں این آر سی نافذ کرکے پہلے ہی فیل ثابت ہو چکی ہے اور اب پورے ملک میں اس طرح کا تجربہ کرنا چاہتی ہے،لیکن ہمارا ملک سیکولر ہے اور اس میں امتیازی قانون کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ زینب،صفوانہ اور فاطمہ نے کہا کہ یہ کہنا کہ اس قانون سے صرف مسلمان متاثر ہونگے لوگوں کی غلط فہمی ہے اس قانون سے سب سے زیادہ نقصان ایس سی،ایس ٹی طبقہ کو ہونے والا ہے
،انہوں نے کہا کہ عوام کا عصل مسئلہ بے روزگاری،تعلیم،صحت اور معاش ہے لیکن حکومت ان تمام مسائلسے توجہ ہٹانے کے لئے متنازع قوانین لیکر آئی ہے۔ اختری،رضوانہ،لائبہ اور رفیہ نے کہا کہ جس طرح عوام پورے ملک میں سڑکوں پر نکل کر مظاہرہ اور دھرنا دینے پر مجبور ہیں اس پر توجہ دیتے ہوئے حکومت کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس کرائے گئے قوانین کو واپس لینے کا اعلان کر دینا چاہئے تاکہ ملک سے بد امنی کی فضا کا خاتمہ ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک حکومت متنازع قانون کو واپس نہیں لیتی ہم دھرنا جاری رکھیں گے یہ جمہوریت کی لڑائی ہے اور آئین کے دائرے میں رہ کر ہی لڑی جائیگی۔ نورین،آئشہ،گلناز اور جمیلہ نے کہا کہ مرکزی حکومت کی جانب سے بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ قانون شہریت دینے والا ہے شہریت لینے والا نہیں ہے جو سراسر جھوٹ اور دھوکہ ہے،کیونکہ سی اے اے کو این آر سی اور این پی آر سے جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے اور وزیر داخلہ بھی حکومت کی اس پالیسی کو کئی بار ظاہر کر چکے ہیں کہ سی اے اے کے بعد وہ این آر سی لایں گے،
جس سے صاف ہوتا ہے کہ جو لوگ کاغذ کے ذریعہ اپنی شہریت ثابت نہیں کر سکیں گے وہ گھس پیٹھئے کہلائے گیں۔انہوں نے ملک کے سبھی سیکولر شہریوں،سیاسی پارٹیوں اور آئین پر اعتقاد رکھنے والے ہر حساس شخص سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کی ہر سطح پر سختی سے مخالفت کریں اور مظاہرین کا ساتھ دیں۔وہیں ایس ایس پی دنیش کمار پربھو اور ایس پی دیہات ودیا ساگر مشرا نے اچانک دیوبند پہنچ کر کوتوالی میں ایس ڈی ایم راکیش کمار،سی او چوب سنگھ اور کوتوالی انچارج یگھ دت شرما سمیت خفیہ محکمہ اور ایس او جی ٹیم کے انچارج سے قریب ایک گھنٹہ بند کمرے میں ملاقات کی بعد ازاں افسران دارالعلوم دیوبند پہنچے
جہاں انہوں نے ادارہ کے مہمان خانہ میں مہتمم دارالعلوم دیوبند مولانا ابوالقاسم نعمانی بنارسی،نائب مہتمم مولانا عبدالخالق مدراسی،مولوی مرتضی اور ذہین احمد سے ملاقات کی۔دارالعلوم انتظامیہ اور افسران نے ملاقات کے متعلق کچھ بھی کہنے سے انکار کر دیا۔حالانکہ شہر کے لوگوں کا ماننا ہے کہ افسران نے خواتین کے مظاہرے کے متعلق کوئی لائحہ عمل طیار کر لیا ہے اور اسی کے پیش نظر خفیہ مٹینگوں اور سرکردہ لوگوں سے ملاقات کا سلسلہ جاری ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں