تازہ ترین

منگل، 15 جولائی، 2025

ہندوستانی مدارس میں دینی و عصری تعلیم کا امتزاج : مواقع اور چیلنجز

ہندوستانی مدارس میں دینی و عصری تعلیم کا امتزاج : مواقع اور چیلنجز
نازش احتشام اعطمی 

ہندوستانی  مدارس ایک عظیم فکری ورثے کے امین، علمی روایات کے آبِ رواں، اور دینی تشخص کے محافظ رہے ہیں۔ یہ تعلیمی ادارے، جو صدیوں سے امت مسلمہ کی روحانی، فکری، اور اخلاقی تشکیل کا مرکز رہے ہیں، صرف تعلیمی ادارے نہیں، بلکہ تہذیبی قلعے، دینی قافلے، اور فکری کارواں کے سنگ میل ہیں۔ قرآن و حدیث کی خوشبو سے معطر، فقہ و اصول کے معانی سے لبریز، اور عربی و اسلامی ادبیات کی حلاوت سے روشن یہ مدارس، ہر دور میں امت کی فکری پیاس بجھاتے اور روحانی روشنی بکھیرتے رہے ہیں۔

تاہم موجودہ دور میں جب وقت کی گردش نے دنیائے تعلیم کا رخ بدلا، سائنس و ٹیکنولوجی کی روز افزوں ترقی نے علم کے معانی ہی تبدیل کر دیے، جس کے چلتے تعلیم اب کتاب اور  کتابی عنوانات سے نکل کر سائنس کی تجربہ گاہ، کمپوٹر کی اسکرین اور صنعت و حرفت کے ساتھ عصری تکنیک میں مہارت کی شکل اختیار کر گئی، 

تو یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ کیا ہمارے مدارس تعلیم کی اس تیزرفتار دوڑ اور علوم کے اس تیز رو کارواں میں کہیں پیچھے تو نہیں رہ گئے؟
 کیا یہ تعلیمی ادارے عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں؟ اور اگر نہیں، تو کیا دینی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے عصری تعلیمات کو شامل نصاب کیا جا سکتا ہے؟ یہی وہ مقام ہے جہاں دینی و عصری علوم کے امتزاج کی ضرورت محض ایک علمی بحث ہی نہیں، بلکہ ایک فکری ارتقاء ، ایک تعلیمی ایقان، علوم جدیدہ کی ایک تحریک اور ایک اجتماعی شعور کی پکار بن جاتی ہے۔

*مدارس کا تاریخی و تہذیبی سیاق*
ہندوستان میں مدارس  کا تعلیمی سفر  نہ تو کس جز وقتی تعلیمی تحریک کا مرہون منت ہے اور نہ ہی یہ کسی حادثاتی تغیر کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوا، بلکہ یہ صدیوں پر محیط ہندوستانی مسلمانوں حکمت، بصیرت، اور تعلیمی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ دہلی سلطنت، تیموری دور اور مغلیہ عہد کے تحت جب علومِ اسلامی کا عروج تھا،

 تب ان مدارس نے نہ صرف فقہ، تفسیر، کلام، نحو، منطق،  فلسفہ بلکہ طب اور تعمیرات  جیسے ترقی یافتہ علوم کی آبیاری کی۔ لیکن جب استعماری قوتیں برصغیر پر مسلط ہوئیں اور مغربی نظامِ تعلیم کو نافذ کیا گیا، تو اعلیٰ تعلیم کے ان  مدارس کو شعوری طور پر ایک منصوبہ بند طریقے سے قومی تعلیمی دھارے سے الگ کر دیا گیا۔

 نتیجتاً، مسلم نوجوان ایک طرف تو دینی فکر اور ذہنی استقامت سے وابستہ رہا، لیکن دوسری طرف عصری تعلیمی میدان میں پیچھے ہوتا چلا گیا۔ آزادی کے بعد  جہاں دارالعلوم دیوبند کی علمی استقامت نے مسلمان ہند کی فکری قیادت کی راہ ہموار کی وہیں ندوۃ العلماء اور مدرستہ الاصلاح جیسے اداروں نے فکری اجتہاد  اور تجدیدی بصیرت کے نئے راستے تلاش کئے ۔ یہ تمام ادارے اس بات کے شاہد ہیں کہ مدارس صرف ماضی پرست نہیں، بلکہ زمانہ شناس بھی رہے ہیں۔

آج جب بھارت دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہوتا ہے، جب نوجوان نسل ڈیجیٹل دنیا سے جڑی ہوئی ہے، جب تعلیمی مقابلہ عالمی سطح پر ہو رہا ہے—تب مدارس کا محدود نصاب ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ کیا ہمیں اس خلا کو بھرنے کے لیے دینی و عصری تعلیم کے امتزاج کی طرف قدم نہیں بڑھانا چاہیے؟

*امتزاج کی ضرورت و معنویت*
یہ امتزاج درحقیقت ایک فکری تطہیر اور تعلیمی احیاء کی کوشش ہے۔ اس کا مقصد نہ دینی تعلیم کو مٹانا ہے، نہ عصری علوم کو حاوی کرنا، بلکہ ایک ایسا متوازن اور ہم آہنگ تعلیمی ماڈل تشکیل دینا ہے جس میں دین کی روشنی بھی ہو، اور دنیا کا شعور بھی۔
*1. فکری ہم آہنگی کا حصول* دینی و عصری علوم کا امتزاج طالبعلم کو یکطرفہ نہیں بلکہ ہمہ گیر شخصیت میں ڈھالتا ہے—ایسا فرد جو نہ صرف نماز کا مفہوم جانتا ہو، بلکہ عالمی سیاست، ماحولیاتی تبدیلی، اور سائنسی اخلاقیات پر بھی رائے دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

*2. عملی زندگی میں کامیابی* آج کے دور میں ملازمت، کاروبار، اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں جگہ بنانے کے لیے جدید علوم کی واقفیت ضروری ہے۔ جب مدارس ان مضامین کو نصاب کا حصہ بنائیں گے تو ان کے فارغ التحصیل افراد بھی قومی ترقی میں فعال کردار ادا کر سکیں گے۔

*3. قومی دھارے میں شمولیت* مدارس کی جدید کاری، طلبہ کو قومی تعلیمی نظام سے جوڑتی ہے، جس سے ان کا احساسِ محرومی کم ہوتا ہے اور وہ معاشرتی ترقی کا حصہ بنتے ہیں۔

*4. دینی علوم کی تجدید* جب عصری علوم کے ماہرین دینی علوم سے واقف ہوں، تو اجتہاد کے در وا ہوتے ہیں، نئے مسائل کا شرعی حل ممکن ہوتا ہے، اور دین جمود سے نکل کر حرکت و اجتہاد کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔

*امتزاج کے دروازے پر کھلے امکانات*
یہ عمل صرف ایک تعلیمی حکمت عملی نہیں بلکہ ایک فکری انقلاب ہے، جو امت کے اجتماعی وجود میں نئی روح پھونک سکتا ہے:

*1. جامع نصابی ترقی*
اسلامی عقائد کو سوشیالوجی، نفسیات، اور قانون کے ساتھ جوڑ کر ایک ایسا نصاب تیار کیا جا سکتا ہے جو نہ صرف علمی بلکہ عملی لحاظ سے بھی نتیجہ خیز ہو۔

*2. حکومتی تعاون*
۔SPQEM جیسی اسکیمیں مدارس کو اساتذہ، بنیادی ڈھانچے اور ڈیجیٹل وسائل فراہم کرنے میں مدد دے سکتی ہیں، بشرطیکہ اعتماد اور شفافیت کو بنیاد بنایا جائے۔

*3. ڈیجیٹل خواندگی کا فروغ*
کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور آن لائن تعلیم سے مدارس نہ صرف عالمی تعلیمی سطح سے جڑ سکتے ہیں بلکہ طلبہ کو دورِ جدید کے علمی مباحث کا حصہ بھی بنا سکتے ہیں۔

*4. فکری قیادت کی تیاری*
ایسے علما جو قرآن کے ساتھ کمپیوٹر کو بھی سمجھیں، حدیث کے ساتھ بین الاقوامی قانون پر بھی دسترس رکھتے ہوں، وہی اس امت کے حقیقی رہنما بن سکتے ہیں۔

*چیلنجز اور مزاحمتیں* لیکن اس حسین خواب کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لیے ہمیں ان رکاوٹوں سے بھی نبرد آزما ہونا ہوگا جو ہر تبدیلی کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں:

*1. فکری قدامت پرستی* بعض حلقے جدید علوم کو دینی بگاڑ کا سبب سمجھتے ہیں۔ یہ فہم غلط نہیں، اگر بغیر حکمت، تربیت اور شفافیت کے جدیدیت کو تھوپا جائے۔

*2. مالی وسائل کی قلت* اکثر مدارس نہ سائنس لیب رکھ سکتے ہیں، نہ کمپیوٹر روم، اور نہ ہی ماہر اساتذہ کی تنخواہیں دے سکتے ہیں۔ ان مسائل کا حل اجتماعی کفالت اور حکومتی اشتراک میں مضمر ہے۔

*3. معیاری اساتذہ کا فقدان* جن اساتذہ کو دین و دنیا دونوں کا علم ہو، وہ نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ اس خلاء کو پُر کرنے کے لیے تدریسی تربیت، علمی تبادلے، اور وظائف کی اسکیمیں ضروری ہیں۔

*4. نصابی اختلافات* ملک میں موجود مختلف مکاتبِ فکر اپنے اپنے نصاب سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں ہم آہنگی تب ہی ممکن ہے جب فکری مکالمے اور مسلکی رواداری کو فروغ دیا جائے۔

*5. سیاسی بداعتمادی مدارس* جب سرکاری مداخلت محسوس کرتے ہیں تو وہ اصلاحات کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہر تبدیلی باہمی مشاورت، شفاف نیت، اور احترام پر مبنی ہو۔

*اصلاح کی راہیں اور حکمت عملی*
یہ امتزاج اگرچہ ایک مشکل راستہ ہے، مگر ناممکن نہیں۔ ذیل میں چند بنیادی نکات ہیں جو اس عمل کو قابلِ عمل بنا سکتے ہیں:

*1. علمائے کرام کی شمولیت* نصاب کی ترتیب، نصابی کتب کی تدوین، اور اصلاحی منصوبوں میں علما کی شرکت لازمی بنائی جائے، تاکہ دینی تشخص محفوظ رہے اور اصلاح پر اعتماد قائم ہو۔

*2. تربیتی مراکز کا قیام* اساتذہ کو جدید طریقہ تدریس، نصابی ترتیب، اور تعلیمی نفسیات پر تربیت دی جائے تاکہ وہ دینی علوم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکیں۔

*3. مقامی نصاب سازی* ایسا نصاب تیار کیا جائے جو نہ صرف دینی اصولوں کے مطابق ہو بلکہ مقامی زبان، معاشرت، اور حالات سے بھی ہم آہنگ ہو۔

*4. نمونہ مدارس کی تشکیل* ایسے مدارس قائم کیے جائیں جو عملی طور پر دینی و عصری علوم کے امتزاج کا مظہر ہوں، تاکہ دیگر ادارے ان سے سبق سیکھ سکیں۔

*5. سماجی اشتراک و مشاورت :* والدین، اساتذہ، مقامی رہنما، اور طلبہ کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے، تاکہ مدارس میں اصلاحی تبدیلیوں کے لیے ماحول سازگار ہو۔

*اختتامیہ*
مدارس صرف ماضی کا فخر نہ بنیں، بلکہ حال کا رہنما اور مستقبل کا معمار بھی ہوں۔ دینی و عصری تعلیم کا امتزاج مدارس کو بند خانقاہوں سے نکال کر متحرک علمی مراکز میں بدل سکتا ہے۔ یہ امتزاج کسی "سیکولرائزیشن" کا در نہیں کھولتا، بلکہ "اسلامی انٹیگریشن" کا وہ دروازہ ہے جو دین کے وقار، فکر کی تازگی، اور عمل کی وسعت کو یکجا کرتا ہے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے مدارس کو اس قابل بنائیں کہ ان کے فارغ التحصیل افراد ممبر پر بھی براجمان ہوں اور جدید اداروں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں۔ وہ سجدہ گزار بھی ہوں اور فکری رہنما بھی، وہ مفسر بھی ہوں اور سائنسدان بھی، وہ مفتی بھی ہوں اور انجینئر بھی۔

یہی امت کا روشن مستقبل ہے، یہی ہندوستان کے مدارس کا نیا افق، اور یہی امتِ مسلمہ کی تعلیمی بیداری کی وہ صدا ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہ کر سکے گی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad