شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی مسجد انوار گوونڈی ممبئی
کسی بھی قوم کی ترقی،کسی بھی ملک کا اقبال اور معاشرے کا عروج اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ وہ کس قدر اسلحوں سے مالامال ہے، وہ دوسری قوموں کو تاراج کرنے کی کتنی طاقت رکھتا ہے، وہ اپنے علاوہ انسانی سماج کو تباہ وبرباد کرنے کی کیسی صلاحیتوں سے آراستہ ہے' اگر یہ صفت انسان میں قابل تعریف ہوتی،اور ان ذرائع اور ان اوصاف کے باعث وہ ارتقاء کے آسمان پر خیال کیا جاتا تو اس چیز کے سب زیادہ مستحق وہ درندے ہوتے وہ حیوان ہوتے جو اپنی ہوس کے لئے اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے دوسرے جانوروں کےساتھ قتل و خون کی صورت میں سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان کے اجسام کو تار تار کرکے ان کے لہو سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں،بلکہ قوموں اور ملتوں کی بلندی اس کی ارتقاء،اس کا عروج و اقبال ان اوصاف سے وابستہ ہے'جو کبھی اخوت،کبھی محبت وایثار،کبھی فکر ودرد اور کبھی ہمدردی ومساوات کی صورتوں میں زندگی کے انفرادی واجتماعی موڑ پر ظاہر ہوتی ہیں، ارتقاء اور عروج کی شاہراہیں اسی ملک کی قسمت اور اسی سماج کا مقدر ہوتی ہیں جہاں اخلاق وکردار کی حکمرانی ہو، جہاں ضمیر کو وسیع زندگی اور صداقت وعدالت کا سرمایہ حاصل ہو، جہاں ایک دوسرے کے لئے اخوت وایثار کے جذبات سمندر کی لہروں کی طرح بے تاب ہوں، جہاں ہر انسان تمام انسانیت کا محافظ ہو، عظمت وشرافت اور رفعت وبلندی۔رنگ نسل خاندان،قبیلے علاقے اور مخصوص زبان وکلچر کی تنگنائیوں سے آزاد ہوں، روئے زمین پر جتنے ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کے ارتقاء کی عمارتیں انہیں انسانی اوصاف اور مساوات کی بنیادوں پر کھڑی ہیں، بقائے باہم کی اینٹوں نے انہیں زندگی کے تمام شعبوں میں ماضی میں بھی استحکام عطا کیا ہے آج بھی وہ اسی بنیاد پر ترقی کی راہوں گامزن ہیں۔ان ممالک کے حکمرانوں نے اس بات کا ادراک کرلیا ہے'کہ قومی یک جہتی ہی سالمیت کی اساس ہے'اور ہر موڑ پر مساوات ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے'
بھارت ملک دنیا کے ان ملکوں میں ہے'جہاں بے شمار مذہبی تہذیبی اور تمدنی اکائیاں پائی جاتی ہیں اس حوالے سے اپنی بقا کے لئے نسبتا مساوات کا زیادہ محتاج ہے،انصاف رواداری کا زیادہ ضرورت مند ہے'، یہی وجہ ہے کہ ہزاروں سال سے یکجہتی اور انصاف کی راہوں کے ذریعے ارتقائی منازل کی طرف رواں دواں رہا ہے'، اور صدیوں کی استعماریت کے بعد جب اسے آزادی کی نعمت میسر ہوئی تو اس کے نگہبانوں نے اسی نظریے کو اس کی اساس بنایا۔۔مگر اس ملک کی تقدیر پر فرقہ پرستی کے سیاہ بادل آئے تو اصحاب اقتدار کی غفلتوں کے باعث اس طرح گھنے ہوتے گئے کہ پورے کی ملک فضا پر چھا گئے اور اسے نفرتوں کے اندھیروں میں غرق کر ڈالا، انھوں نے فطرت کے خلاف بغاوت کی، مذہب کے نام پر ہر سو شعلے برسائے، پورے ملک کی ملتوں کو ہم رنگ کرنے کی کوششیں کیں، اپنے خود ساختہ نظریات کو ملک پر مسلط کرنے کی جد وجہد شروع کردی، فکری آزادیوں پر قدغن لگائیں، مختلف تہذیبوں اور متنوع ثقافتوں کو مٹانے کے درپے ہوئے، اس نصب العین کے لئےہزاروں فسادات کرائے، بے شمار انسانی جانوں سے کھیل گئے،ہزاروں آبادیاں تہ وبالا کردی گئیں، جمہوریت اور مساوات کے اس پیغام اور اس کی ان بنیادی تعلیمات کو پامال کردیا گیا جس کی رو سے تمام طبقات اپنی طرح دوسروں کے لیے بھی یہ حق تسلیم کرے کہ اسے اپنے مذہب،اپنے کلچر،اپنی تہذیب،اپنے تمدن اور اپنے تمام تشخصات ونظریات کے ساتھ عزت ووقار کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہے، مذھبی آزادی اور فکری ونظری سرمایہ اس کا حق ہے، وطنی اور شہری سہولیات اور ملک کی تمام منفعتوں میں اس کا جائزاور دستوری حق ہے'، اپنے مذہب کے مطابق عبادت گاہوں اور تعلیم گاہوں کی تعمیر اور ان کے قیام کی انہیں عام آئینی اجازت ہے'، پبلک اور،عوامی پیمانے سے لیکر سیاسی و حکومتی سطح تک کے تمام اداروں اور انفرادی واجتماعی کرداروں پر تنقید اؤر اظہار رائے کی کے مکمل اختیارات حاصل ہوں۔
یہ وہ انسانی عناصر اور رواداری کے اوصاف ہیں جن کی وجہ سےملک میں بھائی چارہ اور ہمدردیاں پروان چڑھتی ہیں، ایثار وقربانی کے جذبات جنم لیتے ہیں، ایک دوسرے کے لئے وسعت ظرفی کی فضا پیدا ہوتی ہے، فکر ونظر کے بے شمار مختلف رنگوں کے باوجود ملک گلدستے کی شکل میں رونما ہوتا ہے'، اتحاد و یگانگت کا وہ سنہرا ماحول بنتا ھے جس میں ملک ووطن کی تعمیر وترقی،اس کی سالمیت اس کے امن وامان، کی تمام راہیں کھل جاتی ہیں۔۔۔لیکن برا ہو کبر ونخوت اور گھمنڈ و انا پرست اوصاف کا۔کہ یہ عناصر جب کسی اذہان پر مسلط ہوتے ہیں، وجود کو اپنے حصار میں لیتے ہیں تو فسطائیت سر اٹھاتی ہے'، عصبیت خوفناک صورتوں میں اجاگر ہوتی ہے'، نفرتیں بے محابا انگارے برساتی ہیں، نسل پرستی کا کھیل عروج پر ہوتا ہے'، اقلیتوں کے حقوق پر ڈاکہ زنی ہوتی ہے'، آزادیاں مسلوب اور افکار ونظریات پر طاقتوں کے پہرے بٹھادئے جاتے ہیں۔زندگی کی تمام سہولیات سے ان لوگوں کو محروم کردیا جاتا ہے'جو فکر و نظر میں بر سر اقتدار ذہنوں کے مخالف ہوں، آئین اور انصاف پر شب خون مار کر امریت کا اعلان ہوتا ہے'اور وہ سب کچھ ہوتا ہے'جو ایک غیر مہذب اور پسماندہ اور انسانیت سے عاری سماج کا خاصہ ہے'یہاں تک کہ نسل پرست اور مذہبی جنون میں رنگی ہوئی قوتیں اقلیتوں کی شہریت پر بھی رہزنی اور شب خون مار کر انصاف ومساوات کا خون کرجاتی ہیں۔۔۔
ملک کے تخت پر قابض اس وقت فرقہ پرست طاقتوں کی طرف سے ملک وقوم اور دیگر اقلیتوں کو انہیں کرداروں کا سامنا ہے جس کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے، مردم شماری اور سینسز کے نام پر این آر سی اور سی اے اے کے ترمیمی اور خودساختہ غیر فطری اور سیکولر مخالف قانون نے ملک کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے، اس کی معیشتوں کو برباد کرڈالا ہے'، اس کی سیاسی اور عالمی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا ہے'، لیکن قیامت یہ ہے کہ حکومتی سطح پر غیر قانونی عمل پر اٹھنے والی صداؤں اور احتجاجی مظاہروں پر طاقتوں کے ذریعے پابندیاں لگائی جارہی ہیں انہیں خاموش کرنے کے لئے انتہائی گھناؤنے حربے استعمال کئے، فورس کے ذریعے ان مظاہرین اور جمہوریت کے محافظین اور فرقہ وارانہ نظام کے خلاف آزادی کے دیوانوں پر اسلحوں،گولیوں ،اور زندانوں کی صورتوں میں ظلم وسفاکیت کی بدترین مثالیں قائم کی گئیں۔
تاہم اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے کہ قوم مسلم جس نظریہ کی حامل ہے'اس میں مایوسیوں کا گذر نہیں ہے اس تعفن زدہ اور جگر خراش دور کے علاوہ ماضی میں آسمان کی نگاہوں نے بے شمار ایسے عہد دیکھے ہیں جہاں انسانیت کا چراغ ظلم وبربریت کی آندھیوں میں اپنا وجود کھو چکا تھا ہر سو موت کی حکمرانی تھی ملت اسلامیہ کے علاقے مقتل بن چکے تھے ، تاتاریوں کی شکل میں سوداگران موت اور غارت گران شہر کے ذریعے عالم اسلام ایسا تاراج ہوا، مرکز علم و فن ملک عراق ایسا زیر زبر ہوا کہ مہینوں تک مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہتا رہا بغداد جیسا شاداب شہر ویرانے میں تبدیل ہوکر رہ گیا، خلافت کی سطوت ایسی پامال ہوئی کہ خلیفہ معتصم باللہ کے زندہ وجود کو روند ڈالا گیا اس قیامت خیز آندھی نے جس ملک جس شہر اور جس خطے کا رخ کیا وہاں قیامت کا سماں پیدا ہوگیا۔۔۔لیکن تاریخ کی نگاہوں نے وہ منظر بھی دیکھا کہ موت اور سفاکیت کی اسی تاریک اور خوفناک فضاؤں میں وہی خون کی پیاسی قوم اسلام کی علمبردار بن کر ابھری،اوردیکھتے ہی دیکھتے زمین کی سلطنت کا فرمانروا اور قتل وغارت گری کا لرزہ خیزاستعارہ۔ اسلام سے اس طرح شکست کھائی کہ خود بخود اپنے دل،اپنے ذہن اور اپنے وجود کی سلطنت اسلام کے حوالے کردی،
تاریخ کے اس عبرت انگیز اور حیرت ناک واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ ،،کاشغر کا شہزادہ تغلق تیمور خاں ایک روز اپنے اس علاقے میں شکار کو نکلا جہاں کسی آدم زاد کو پر مارنے کی جرأت نہیں تھی اتفاق سے شیخ جمال الدین نامی ایک درویش اپنے رفقاء کے ساتھ اس ممنوعہ علاقے میں داخل ہوگئے یہ جرم ایک سفاک اور رحم وہمدردی سے ناآشنا وجود کے جناب میں معمولی نہیں تھا کہ ایک اشارہ ابرو پر شمشیریں بے نیام ہوتیں اور دسیوں اجسام پر رقص کرتی ہوئیں روح سے رشتہ آنا فانا ختم کردیتیں، اس جرم کی پاداش میں ان درویشوں کی مشکیں کس دی گئیں اسی حالت میں شہزادہ کے سامنے حاضر کیا گیا شہزادے نے اپنے کتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیخ سے کہا کہ تم بہتر ہو یا یہ بہتر ہے'،درویش کا جواب تھا،،اگر میں ایمان کی حالت میں دنیا سے گیا تو میں بہتر ہوں وگرنہ یہ کتا بہتر ہے'،،شیخ کا یہ جواب تیر کی طرح شہزادہ کےدل میں ترازو ہوگیا اور ایک لمحے میں شکاری خود شکار ہو گیا۔اب لہجے میں وہ کرختگی باقی نہیں تھی، اچھے اچھے سورماؤں کے قدموں میں ارتعاش پیدا کردینے والے اسلوب کے شعلے کسی روحانی طاقت سے سرد ہوچکے تھے،ایک عام سائل کی طرح اس نے ایمان کی حقیقت دریافت کی'؟شیخ نے انتہائی دلنشین انداز میں اسلام کی ترجمانی کردی جس کا راست اثر یہ ہوا کہ چٹانوں کی سختیوں کے مانند ایک بے رحم قلب۔ درد انسانیت سے آشنا ہوگیا اور یہ کہتے ہوئے آزاد کردیا کہ جب میری تخت نشینی کا زمانہ آئے تو میرے پاس تشریف لائیں اور اس سلسلے میں مجھ سے بات کریں،دن گذرے،وقت بیتا،اور گردشوں نے شیخ کو مرض وفات تک پہونچا دیا ،سینے میں درد وغم اور فکر وتڑپ کی اس امانت کو اپنے صاحبزادے شیخ رشید الدین کے سپرد کرتے ہوئے نصیحت کی کہ جب تغلق تیمور تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہوگا تو اس کے پاس جاکر اس کے وعدے کو یاد دلانا جو اس نے مجھ سے کیا ہے'اور اس پر اسلام پیش کرنا۔۔۔۔۔۔۔
شہزادے کے بادشاہ بننے کے بعد صاحب زادے نے ملاقات کی بہت کوششیں کیں مگر ناکام رہے اس لیے کہ مسلمانوں کا وجود اس وقت اس قدرحقیر اور بے اہمیت تھا کہ شاہی دربار تو کیا عام تاتاریوں کے یہاں بھی ان کی رسائی مشکل تھی ایسی صورت میں ان کے لئے ایوان حکومت کےتمام دروازے اگر بند تھے تو یہ جائے تعجب نہیں ہے، ہزار کوششوں کے باوجود جب ساحل مراد نظر نہیں آیا تو شیخ نے ایک روز قصر سلطنت کے سامنے فجر کے وقت اذان دینی شروع کردی انسانوں کے لہو پر قائم شدہ ایک خوفناک حکومت کے سامنے اذان کا یہ عمل دیوانگی اور وارفتگی ہی کا کرشمہ تھا ورنہ عقل وخرد کا تو یہاں کوئی کام نہ تھا،بالآخر گرفتار ہوئے حاضر کئے گئے، اذان کی وجہ بتائی اور والد محترم سے بادشاہ کا وعدہ یاد دلایا اور انہیں گفتگو پر وقت کے اس فرمانروا نے اسلام قبول کر لیا اورایک لمحے میں چغتائی خاندان کے ساتھ اس کی پوری رعایا دامن اسلام سے وابستہ ہوگئی کل تک جو موت کے پیامبر تھے اب انسانیت کے محافظ بن گئے،کل تک انسانوں کا خون بہانا جن کا مشغلہ تھا اب وہ اسی کے لئے سائبان بن گئے۔
تاریخ کا یہ روشن واقعہ بتاتا ہے کہ جب زمین سورج کی تمازت سے جل کر انگارے کی شکل اختیار کرلیتی ہے'تو سردگھٹائیں چھاتی ہیں اور بارش کی موسلادھار بوندیں اس پر نثار ہوجاتی ہیں، نفرتوں کے شعلے جب شباب پر ہوتے ہیں تو انہیں شعلوں میں سے محبتوں کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں، رات کی تاریکیاں جب دبیز اور خوفناک ہوتی ہیں تو سحر طلوع ہوتی ہے'، اس کی واضح اور تازہ مثال ہندو مذہب کے رہنماؤں کی جمہوریت کی موافقت اور امریت وفسطائیت کے خلاف حال ہی میں اٹھنے والی وہ آواز اور جد وجہد ہے'جس نے آزادی کے دیوانوں میں قوتوں کی روح پھونکی ہے'اور حریت کی سرگرمیوں میں ایک نیا موڑ پیدا کیا ہے،سنیلا نند مہاراج ایک عام آدمی نہیں بلکہ ہندو مت کے نمائندے اور پیشوا ہیں کئی تنظیموں کے سرپرست اور آرگنائزر ہیں اور چیرا تمن جی مہاراج کے معتمد ہیں جو انٹرنیشنل کمبھ میلا کالی استھان کے آرگنائزر ہیں وہ بھی حکومت کے وحشیانہ سیاہ قانونNRC..CAA..NPR کے خلاف میدان میں اتر پڑے ہیں اوراس کے خلاف۔ بطور احتجاج چوبیس گھنٹے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں،مزید ان کا عزم ہے'کہ ضرورت پڑی تو غیر متعینہ مدت کے لیے وہ بھوک ہڑتال کریں گے انہوں نے اشارہ دے دیا ہے کہ الہ آباد متھرا اور ہری دوار کے بے شمار پیشوایان قوم اور اپنے معتقدین کے ساتھ اخوت اور بھائی چارے اور انصاف کے لئے میدان میں اترنے کو تیار ہیں۔کیا عجب کہ ماضی کے مذکورہ واقعہ کی طرح ان سے بھی ایک تاریخ وقت کے سینے پر رقم ہوجائے، یہ وقت ہے قربانیاں پیش کرنے کا، جد وجہد کا، خود اعتمادی کا اور خود احتسابی کا، کہ قربانیوں کے نقوش سے حریت کی کرنیں جگمگاتی ہیں، آسمانوں پر ان گنت ستاروں کی کہکشائیں جب اپنا وجود کھوتی ہیں، تب کہیں جا کر افق پر روشنی نمودار ہوتی ہے'۔۔
اگر ہندوستاں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں