تازہ ترین

ہفتہ، 5 جولائی، 2025

ہندوستان میں جدید عربی زبان و ادب کا فروغ: علمی و فکری جہات

ہندوستان میں جدید عربی زبان و ادب کا فروغ: علمی و فکری جہات
ڈاکٹر محی الدین آزاد اصلاحی 

عربی زبان، جو قلب و روح کو جھنجھوڑتی ہے، برصغیر کی سرزمین پر صدیوں سے اپنی سحر انگیزی بکھیر رہی ہے۔ یہ صرف ایک زبان نہیں، بلکہ ایک تہذیبی پل ہے جو ہندوستان کو عرب دنیا کے تاریخی، مذہبی اور فکری ورثے سے جوڑتا ہے۔ اگرچہ اس کی جڑیں قرآنی تعلیمات، اسلامی فقہ اور کلاسیکی شاعری کے عظیم عہد سے پیوست ہیں، لیکن جدید دور نے اسے ایک نئے رنگ و آہنگ سے آشنا کیا ہے۔ آج ہندوستان میں عربی زبان و ادب کا مطالعہ صرف دینی دائرے تک محدود نہیں، بلکہ یہ عصری ادب، صحافت، ترجمہ، میڈیا اور عالمی ثقافتی مکالمے کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ 

اس مضمون میں ہم ہندوستان میں جدید عربی زبان و ادب کے فروغ کی علمی و فکری جہات کا جائزہ لیں گے، اس کے تاریخی تناظر کو سمجھیں گے، اور مستقبل کے لیے چند عملی تجاویز پیش کریں گے۔

*تاریخی تناظر*  
عربی زبان کا ہندوستان سے رشتہ صدیوں پرانا ہے، جو اسلام کی آمد کے ساتھ ہی استوار ہوا۔ ساتویں صدی سے لے کر مغلیہ عہد تک، عربی زبان علم، فنون، سائنس اور انتظامیہ کی زبان رہی۔ دہلی، لکھنؤ، حیدرآباد اور رام پور جیسے شہروں میں قائم مدارس نے عربی کو ایک علمی زبان کے طور پر فروغ دیا۔ شاہ ولی اللہ دہلوی، ابو الفضل، اور سرسید احمد خاں جیسے اکابرین نے عربی میں گرانقدر تصانیف پیش کیں، جنہوں نے نہ صرف دینی علوم بلکہ فلسفہ، تاریخ اور ادب کو بھی تقویت بخشی۔  

برطانوی استعمار کے دور میں عربی زبان کے مطالعے نے ایک جدید رخ اختیار کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، اور عثمانیہ یونیورسٹی جیسے اداروں نے عربی کو عصری تعلیم کا حصہ بنایا۔ ان اداروں نے کلاسیکی عربی کے ساتھ ساتھ جدید ادبی رجحانات کو بھی نصاب میں شامل کیا، جس سے طلبہ کو عالمی ادب کے تناظر میں عربی زبان سے جوڑنے کا موقع ملا۔ آج یہ ادارے جدید عربی ادب کے فروغ کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم فراہم کر رہے ہیں۔  

*علمی جہات: ایک نئی فکر کا عروج*
ہندوستان کی جامعات نے جدید عربی زبان و ادب کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو)، دہلی یونیورسٹی، اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (مانو) جیسے اداروں نے عربی میں بیچلر، ماسٹر اور ڈاکٹریٹ پروگرامز متعارف کرائے ہیں۔ ان نصابات میں کلاسیکی عربی کے ساتھ ساتھ جدید نثر، عصری شاعری، صحافت، ترجمہ، اور عرب میڈیا شامل ہیں۔  

*نصاب کی وسعت اور تنوع*
جدید عربی نصابات نے ہندوستانی طلبہ کو عرب دنیا کے فکری و ادبی رجحانات سے روشناس کرایا ہے۔ طٰہٰ حسین، نجیب محفوظ، محمود درویش، اور ادونیس جیسے عظیم ادیبوں کے کاموں کا مطالعہ طلبہ کو قوم پرستی، شناخت، صنفی مسائل، اور نوآبادیاتی اثرات جیسے موضوعات پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔

 مثال کے طور پر، نجیب محفوظ کے ناولز عرب معاشرے کی سماجی و سیاسی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتے ہیں، جبکہ محمود درویش کی شاعری فلسطینی جدوجہد کی علامت بن چکی ہے۔ ان موضوعات نے ہندوستانی طلبہ کو عالمی مسائل کے ساتھ اپنے فکری رشتے کو مضبوط کرنے کا موقع دیا ہے۔  

*تحقیقی سرگرمیاں اور اشاعتیں*
ہندوستانی محققین نے جدید عربی ادب کے میدان میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ تحقیقی مقالات، ترجمے، اور تخلیقی تحریریں اس کی روشن مثالیں ہیں۔ “عربی کا”، “المصباح”، اور “مجلة الدراسات العربية” جیسے رسائل جدید عربی ادب پر معیاری مواد شائع کر رہے ہیں۔

 ہندوستانی محققین نے عربی ادب کے اہم متون کو اردو، ہندی، اور انگریزی میں ترجمہ کیا ہے، جس سے عرب دنیا کی فکر کو وسیع تر حلقوں تک پہنچانے میں مدد ملی۔ مثال کے طور پر، طٰہٰ حسین کی خودنوشت “الایام” کے تراجم نے ہندوستانی قارئین کو عرب معاشرے کی گہری بصیرت فراہم کی۔  

*فکری جہات: ایک زندہ زبان کی بازیافت* 
عربی زبان کا تصور ہندوستان میں طویل عرصے تک صرف دینی دائرے تک محدود رہا۔ لیکن آج یہ ایک متحرک، عالمی اہمیت کی حامل زبان کے طور پر ابھر رہی ہے۔ سفارت کاری، بین الاقوامی تجارت، میڈیا، اور ثقافتی تبادلے میں عربی کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ ہندوستانی جامعات میں منعقد ہونے والی کانفرنسز، ورکشاپس، اور سیمینارز اس فکری تبدیلی کی عکاس ہیں۔ عرب اسپرنگ، جدید شاعری میں جدیدیت، اور عرب قوم پرستی جیسے موضوعات پر علمی مکالمہ تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔  

*ترجمہ: ثقافتی پل کی تعمیر*  
ترجمہ جدید عربی ادب کو ہندوستانی تناظر سے جوڑنے کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ عرب ناول نگاروں اور شاعروں کے کاموں کے تراجم ہندوستانی زبانوں میں کیے جا رہے ہیں، جو سیاسی جبر، جلاوطنی، اور شناخت جیسے موضوعات کو اجاگر کرتے ہیں۔ 

مثال کے طور پر، ادونیس کی شاعری کے تراجم نے ہندوستانی قارئین کو جدیدیت اور وجودیت کے فلسفوں سے متعارف کرایا۔ اس کے علاوہ، عربی ادب کو ہندی اور اردو ادب کے ساتھ موازنہ کرنے والی تحقیقیں بھی نئے فکری امکانات کو جنم دے رہی ہیں۔  

*بین الشعبہ جاتی مطالعہ*
عربی مطالعات اب سیاسیات، تاریخ، اسلامیات، اور جینڈر اسٹڈیز جیسے شعبوں سے مربوط ہو رہے ہیں۔ یہ بین الشعبہ جاتی زاویہ عربی زبان کی تعلیم کو ایک جامع شکل دیتا ہے۔ مثال کے طور پر، عرب اسپرنگ کے تناظر میں عربی ادب کا مطالعہ سیاسیات کے طلبہ کے لیے عالمی تحریکات کو سمجھنے کا ایک نیا زاویہ فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح، عرب خواتین ادیبوں کی تحریروں نے جینڈر اسٹڈیز کے طلبہ کو صنفی مساوات کے مسائل پر غور و فکر کی دعوت دی ہے۔  

*اداروں اور حکومت کا کردار*  
ہندوستانی حکومت اور اداروں نے عربی تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) اسکالرشپس اور فنڈنگ کے ذریعے عربی شعبہ جات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ نیشنل کونسل فار پروموشن آف اردو لینگویج (این سی پی یو ایل) عربی اور اردو کے لسانی رشتے کو مضبوط کرنے میں معاون ہے۔

 انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز (آئی سی سی آر) عرب ممالک کے ساتھ ثقافتی تبادلے کو فروغ دیتا ہے، جیسے کہ طلبہ و اساتذہ کے ایکسچینج پروگرامز اور ادبی میلوں کاانعقادعرب ممالک کے سفارت خانوں نے بھی ہندوستان میں عربی زبان کے فروغ کے لیے قابل ستائش اقدامات کیے ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور قطر جیسے ممالک کی جانب سے جامعات میں عربی چیئرز کے قیام اور ثقافتی تقریبات کے انعقاد نے علمی روابط کو مضبوط کیا ہے۔  

*چیلنجز: راہ میں حائل رکاوٹیں* 
اگرچہ ہندوستان میں جدید عربی زبان و ادب کے فروغ کی کوششیں قابل تحسین ہیں، لیکن چند چیلنجز اب بھی موجود ہیں:  

1. *وسائل کی کمی*: کئی جامعات میں جدید نصابی کتب، ڈیجیٹل لیبز، اور آڈیو ویژول مواد کی کمی ہے۔  
2. *روایتی نصاب*: بعض اداروں میں اب بھی کلاسیکی عربی پر زور دیا جاتا ہے، جس سے طلبہ جدید ادب اور میڈیا کے لیے تیار نہیں ہو پاتے۔  
3. *تربیت یافتہ اساتذہ*: جدید ادبی نظریات اور عربی زبان دونوں پر عبور رکھنے والے اساتذہ کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔  

4. *روزگار کے مواقع*: عربی کے فارغ التحصیل طلبہ کو اکیڈمیا یا دینی اداروں سے باہر محدود مواقع میسر ہیں۔  

*تجاویز: ایک روشن مستقبل کی جانب*
ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے درج ذیل اقدامات اہم ہو سکتے ہیں:  1. *نصاب کی جدید کاری*: نصاب میں مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل میڈیا، اور عالمی ادبی رجحانات شامل کیے جائیں۔  
2. *اساتذہ کی تربیت*: جدید لسانی ٹیکنالوجی اور ادبی نظریات پر مبنی تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے۔  3. *عربی میڈیا لیبز*: جامعات میں عربی میڈیا لیبز قائم کی جائیں، جہاں طلبہ عملی تربیت حاصل کر سکیں۔  

4. *اسکولوں میں عربی تعلیم*: اسکول کی سطح پر عربی زبان کی تعلیم کا آغاز کیا جائے تاکہ طلبہ جلد سے اس سے آشنا ہو سکیں۔ 
 
5. *ہند و عرب تعاون*: عرب ممالک کے ساتھ طلبہ و اساتذہ کے تبادلے، مشترکہ تحقیقی منصوبوں، اور ادبی کانفرنسز کو فروغ دیا جائے۔  6. *روزگار کے مواقع*: عربی زبان کے ماہرین کے لیے سفارت کاری، ترجمہ، اور بین الاقوامی اداروں میں مواقع پیدا کیے جائیں۔  

*مستقبل کی راہ: ایک عالمی مرکز کا خواب*
ہندوستان میں جدید عربی زبان و ادب کا فروغ نہ صرف ایک علمی و فکری ارتقاء کی علامت ہے، بلکہ یہ ایک تہذیبی پل کی تعمیر بھی ہے۔ عالمی سطح پر عربی زبان و ثقافت کی بڑھتی اہمیت کے تناظر میں ہندوستان ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اصلاحات، تخلیقی تحقیق، اور عرب دنیا کے ساتھ گہرے علمی روابط کے ذریعے ہندوستان جدید عربی مطالعات کا ایک فعال مرکز بن سکتا ہے۔  

عربی زبان، جو قلب و روح کو مسخر کرتی ہے، ہندوستان کی علمی سرزمین پر نئے رنگ بکھیر رہی ہے۔ یہ زبان نہ صرف ہمارے ماضی کا عظیم ورثہ ہے، بلکہ مستقبل کے امکانات کی ایک روشن شمع بھی ہے۔ آئیے، اس شمع کی لو کو مزید فروزاں کریں، تاکہ ہندوستان اور عرب دنیا کے درمیان فکری و تہذیبی رشتے مزید مضبوط ہوں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad