دیوبند،رپورٹ ریحان اعظمی (یواین اے نیوز 2فروری2020)آج درس حدیث کے دوران طلبہ کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے مولانا ارشد مدنی صاحب نے کہا کہ بنگلور میں جو میں نے تقریر کی تھی اسکو لوگوں نے آدھی ادھوری سن کر میرے اوپر الزام لگانا شروع کردئیے جبکہ میں نے وہ باتیں آر ایس ایس لیڈر موہن بھاگوت کی نقل کررہاتھا،موہن بھاگوت اور میری ملاقات کے درمیان جو باتیں ہوئی تھیں،ان میں سے کچھ باتوں کا میں ذکر کررہاتھا اسی میں یہ بھی باتیں تھیں۔ اب وہ انکا نظریہ ہے،میں کل بھی ہندوستانی کو ہندی کہتا تھا آج بھی کہتاہوں۔مولانا نے مزید کہا کہ لوگوں کے اندر سے خدا کا خوف نکل چکا ہے،تبھی لوگ اسطرح کی باتیں دوسروں کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔جبکہ حالیہ دنوں میں شاہی مدرسے کے بارے میں بھی یہ افواہیں گردش کرائی گئی تھی کی اب وہاں یوگا ہوگا۔ جبکہ اس میں صرف کعب رشیدی ہی شامل ہوئے تھے،باقی جامعہ میں دور دور تک اسکا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے،اور ناہی جامعہ میں یہ یوگا کا پروگرام منعقد ہوا تھا۔ وہ تو کسی کالج میں ہوا تھا جہاں پر مولانا کعب رشیدی گئے ہوئے تھے۔
مولانا نے کہا کہ آج کے دور میں گورنمنٹ کے خلاف آپ تقریر نہیں کرسکتے،میں بنگلور پروگرام سے ایک دن پہلے کیرل میں تقریر کی تھی جس میں حکومت کے خلاف باتیں کہیں تھیں،اسی کے مد نظر بنگلور میں،ہمارے کارکنان کوجلسہ سے ایک گھنٹہ پہلے بلایا گیا اور باقاعدہ لیٹر پیڈ پر لکھوایا گیا تھا کی اگر سی اے اے، این آر سی،این پی آر کے خلاف بولیں گے تو پرمیشن نہیں دی جائے گی،اور اگر پرمیشن لینے کے بعد ان چیزوں کی مخالفت کی گئی تو ایک سال کی قید اور دس لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔جب میں دیکھا وہاں جتنے بھی لوگ تھے ہندو مسلم سکھ عیسائی سب این آر سی اور حکومت کے خلاف بول رہے ہیں،میں کہا انکی مصبت ٹالنی ہے،تو میں نے وہ واقعہ جو میرے ساتھ ہوا تھا یعنی آر ایس ایس کے صدر موہن بھاگوت اور میری ملاقات کے وقت جو کچھ ہوا تھا اس کا میں تذکرہ کیا،مولانا نےمزید کہا کہ میں یہ نہیں کہا کہ میں ہندو ہوں،بلکہ میں موہن بھاگوت کی باتیں نقل کررہاتھا۔
میں نے اسکی تحقیق کی آیا اسکے اندر کوئی چیز ہے،یا کوئی دلیل ملتی ہے،یہ تو کوئی قرآن و حدیث کا مسئلہ تو ہے نہیں وہ اگر ہندی کو ہندو کہتے ہیں،ہمارا مقصد صرف اتنا ہے کی یہ جو پچاسوں ہزار مسلمان قتل کردئیے گئے ہماری عربوں اور کھربوں کی دولت لٹ چکی ہے،مسلمان تباہ ہوگیاملازمتیں ختم ہوگئی مسلمانوں کی،وہ گندی بستیوں کے اندر رہتے ہیں،کہیں بھی فساد ہوجائے،اگر اس بنیاد کے اوپر جو جی چاہیں کہیں ہندی کہیں ہندو کہیں،اگر مسلمان اور ہندو کے درمیان میں نفرت ختم ہو جاتی ہےتو ہمارا کیا جاتا ہے۔میں نے کبھی بھی ہندی کو ہندو کہا یہ میرے اوپر الزام ہے کہ میں ہندی کو ہندو کہتا ہوں،میں نے تو یہی باتیں کہیں،اللہ کا خوف کسی کے دل میں نہیں تو وہ اسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔جبتک کسی بات کی تحقیق ناکرو تب کوئی بات کسی کی طرف منسوب ناکرو۔اسی طرح مدرسہ شاہی کے اوپر بھی الزام ہے،حالانکہ کچھ بھی حقیقت نہیں ہے۔جاؤ جاکر مدرسے کے اندر معلومات حاصل کرلو۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں