ڈاکٹر علیم خان فلکی صدر ،سوشیو ریفارمس سوسائٹی ، حیدر آباد
ہر جگہ ریالی نکال کر گلے پھاڑ پھاڑ کر"لے کے رہیں گے آزادی "چلا چلا کر لوگ خوش تھے کہ اب یہ فاشسٹ ٹولہ ڈر جائے گا اور کالے قانون کے بل کو واپس لینے پر مجبور ہوجائے گا۔ ٹولے کو اچھی طرح علم تھا کہ جلسے،جلوس اور تقریریں سب ہوا میں رہ جاتی ہیں، چائے میں ایک بار ابال آجائے تو بعد بار بار نہیں آتا، نیشنل میڈیا میں جب ایسی تمام ریالیز کا مکمل بائیکاٹ کروادیا جائے تو لولکل اردو اخباروں یا واٹس اپ اور فیس بک پر ان فوٹوز کو دیکھ کر خود ریالی نکالنے والے ہی خوش ہوجائینگے، اور ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے مطمئن ہوجائینگے۔ ٹولے نے کہا تھا کہ ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے وہ نہیں ہٹے، این پی آر کی زور و شور سے تیاریاں شروع ہوجانے کے بعد جگن، شیوسینا، اور کے سی آر جیسے لوگوں کا بھی اصلی چہرہ سامنے آگیا تو لوگ جوسرکٹائیں گے یا سر کاٹیں گے والے جوش میں تھے اتنے خوفزدہ ہوچکے ہیں کہ سر جھکا کر یہ درخواست کررہے ہیں کہ این پی آر میں کچھ سوالات کم کردیجئے ،یہ شکست کا پہلا قدم ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی یاد رہے کہ یہ کم ازکم مسلمانوں کیلئے طابوت کی آخری کیل ہے ۔ فاشسٹ ٹولے نے آج تک بے شمار فسادات کروائے ، ہر فساد پر ہم لکھتے رہے کہ اب حد ہوچکی ہے بالکل اسی طرح جس طرح سڑک پر ایک کمزور مکا کھاکر کہتا ہے تونے مجھ پر ہاتھ اٹھایا ؟ اب اٹھا کر دکھا، میں بھی بتاؤنگا۔
وہ پھر مکا کھاتا ہے اور پھر یہ وہی دھمکی دیتا ہے ، اور مارنے والا مکے مارتے ہوئے اسے بہت دور تک بھگا کر آتا ہے ۔ یہی حال مسلمانوں کا سالہا سال سے ہوتا آیا ہے ۔ لیکن اس ایک مہینے کے بعد پھر نہ جلسے جلوس کام آئینگے نہ کوئی ان کی مدد کو آئے گا۔ یکم اپریل 2020کے بعد این پی آر کے شروع ہوجانے کا مطلب یہ ہوگا کہ ان لوگوں نے خود قانونی طور پر تسلیم کیا ہے کہ یہ شہریت کے قوانین کے پابند ہیں۔ اب اس کی پابندی میں ایک کاغذ کی بھی کمی ہوگی تو یہ خود اپنے حقوق سے دستبردار ہونے کے پابند ہونگے۔ یہاں سے مسلمانوں کی بربادی کے آخری اسٹیجس شروع ہوجائینگے۔ پاکستان کہہ چکا ہے کہ اس کی فوجیں تین دن سے زیادہ لڑ نہیں سکتیں، سعودی اور دوسر ے خلیجی تخت اور دولت کیلئے نہ اسلام دیکھتے ہیں نہ غیر اسلام، انڈیا ان کا بہت بڑا تیل خریدنے والا ملک ہے ، وہ انڈیا سے تعلقات ہرگز خراب نہیں کرسکتے کیونکہ اگر انہوں نے ذرا سی بھی ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں اگر بات کی تو انڈیا انہیں چھوڑ کر ایران کی طرف دوڑ سکتا ہے ۔ آج تک کوئی فساد ایسا نہیں ہوا جس کے بعد ہمارے مضامین نگاروں نے یہ نہیں لکھا کہ مسلمان اگر اب بھی نہ جاگے تو کہ ہوجائیگا اور وہ ہوجائیگا۔ "وہ"اب بالکل سر پر آچکا ہے لیکن مسلمان اب بھی جاگنے تیار نہیں ۔جو لوگ جگانے کی کوشش کررہے ہیں وہ اتنے مقبول عام نہیں کہ لوگ فوری ان کی بات مان کر سرکٹانے کی ہمت کے ساتھ سڑکوں پر آجائیں۔ ریالیز کی بات اور تھی اس میں دو چار گھنٹے کے اڈوینچر میں ایک تفریخ بھی تھی اور سوشیل میڈیا پر لائکس کا ایک انجوائمنٹ بھی تھا، اس لئے لوگ نکل آئے ، لیکن اس کا اگلا قدم اب جان دینے کے تھا جس کیلئے کوئی تیار نہیں۔
نہ وقت سے اور نہ جیب کے مال سے، یہ لوگ اسی وقت چیختے چلاتے باہر نکلیں گے جب ان کا کوئی یا تو ڈٹینشن سنٹر میں بند ہوگا، یا پھر ان کے بنک اکاؤنٹ ، یا ووٹ دینے کا حق یا گھر کی ملکیت چھینی جائیگی۔ یہ یوپی میں شروع ہوچکا ہے ۔ کئی لوگوں کے مکانات ضبط کرلئے گئے ہیں اور کئی پر ایک ایک کروڑ کے جرمانے عائد کئے جاچکے ہیں۔ لوگ جن کی بات مانتے ہیں وہ ہیں علمائ، مشائخین اور لیڈر ۔ یہ کیوں خاموش ہیں یہ راز جاننے کیلئے پہلے آ پ کو چدمبرم، سنجیو بھٹ، ہیمنت کرکرے، اشوک سنگھل، موہن تگاڑیہ، نرین پانڈے، گوگوئی ، لویا وغیرہ جیسے لوگوں کے انجام پر غور کرناہوگا۔ یا پھرا ی ہفتے تلوین سنگھ کا انٹرویو جو اس نے "وائر "پر کرن تھاپر کو دیا ہے اس پر غور کرنا ہوگا۔ یہ خاتون اس فاشسٹ ٹولے کی بہت کٹر حامی تھیں۔ انڈین ایکسپریس کے ہر آرٹیکل میں مسلمانوں کے خلاف مسلسل زہر اگلتی تھیں ۔ اگرچہ ان کا شوہر مسلمان تھا، بیٹا بھی مسلمان ہے لیکن یہ مودی کی تائید میں مسلسل لکھتی رہیں۔ لیکن جب لنچنگ کے واقعات میں نہتے مسلمانوں کو مارا جارہا تھا تو ان کا ضمیر جاگا اور انہوں نے مودی اور آر ایس ایس کے لوگوں سے سوال کیا کہ یہ کیسا ہندوراشٹرا ہے جس میں نہتے لوگوں کو مارا جارہا ہے تو ان سے کہا گیا کہ "چلو ہندو مارتو رہا ہے۔
کچھ آر ایس ایس کے زیر تربیت غنڈوں نے یہ جواب دیا کہ ـ"ہم ہندو عورتوں کو مسلمانوں سے بچارہے ہیں"،اس وقت تلوین سنگھ کے اندر کی انسانیت جاگی ، اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئیں کہ "مودی اور آر ایس ایس کے ڈی این اے میں مسلمانوں کا قتل عام ہے "۔ انہوں نے ایک اہم راز کی بات یہ بتائی کہ بی جے پی کا ہم ہتھیار وہ سارے راز ہیں جو اس نے پولیس اور آئی بی کے ذریعے حاصل کرلئے ہیں اور وہ اس کے ذریعے ہر شخص کو بلیک میل کرکے کچھ بھی کرواسکتی ہے ۔ محترمہ کی بات کا ثبوت ہم اس طرح دیکھ سکتے ہیں کہ اب نہ کوئی سپریم کورت یا ہائی کورٹ کا جج منہ کھول رہا ہے نہ فوج کا سربراہ اور نہ کوئی لیڈر یا عالم یا مرشد، ہاں چند ایک علماء ، لیڈر اور مشائخین ضرور ایسے ہیں جو حق بات کہنے میں ڈرے نہیں ہیں اور وہ ہر احتجاج اور ریالی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ ان لوگوں کے پاس لوگوں کو دینے صرف تقوی اور تزکیہ ہے ۔ عوام کو یہ نہیں چاہئے ، عوام کو ان کے مفادات چاہئے ۔ مال چاہئے یا پھر شفاعت اور مغفرت کی گیارنٹی چاہئے ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ مسلمان جن کی بات سن کر اب بھی سڑکوں پر نکل سکتے تھے ان لوگوں کو سانب سونگھ گیا ہے ۔
کئی جرائم کے افشاء ہوجانے کے ڈر اور انکم تیکس کے چھاپوں کے خوف سے جن جن لیڈروں نے اوقاف کی کئی کئی سو کروڑ کی زمینات بیچ کھائی ہیں وہ بری طرح ڈرے ہوئے ہیں ، تقریریں بھی کررہے ہیں تو شہر سے بہت دور جاکر کررہے ہیں۔ کئی علماء جن کے مدرسین کی تیس تیس چالیس چالیس ہزار کی تنخواہیں سرکاری پے رول سے ملتی ہیں ، تنخواہیں لینے والے ان کے بیٹے داماد اور بھانجے بھتیجے ہیں لیکن پڑھانے والے کوئی اور بے چارے تین چار ہزار کے مولوی، حافظ و قاری ہیں۔ کئی مدارس ہیں جہاں کروڑوں کا چندہ آتا ہے لیکن اگر کوئی گورنمنٹ سختی سے آڈٹ کروادے تو مدرسے بند ہونے کی نوبت آسکتی ہے ۔ کئی مرشد جن کی درگاہوں کے ہراج کئی کئی کروڑ میں بکتے ہیں ، جہاں اندھے معتقدین کی تعداد ہزاروں بلکہ لاکھوں میں ہے ان کے غلے چھینے جاسکتے ہیں، اس لئے علما، لیڈر اور مشائخین نہ اب منہ کھولیں گے او ر نہ اپنے پیروکاروں کو اس کی اجازت دیں گے۔ چند ایک سر پھرے، خالی جیب جذباتی لوگ جن کے پاس نہ سلیقے کی رعب دا ر سومو اور لینڈ کروزر جیب ہیں اور نہ جلسوں میں بے دریغ خرچ کرنے لاکھوں روپیہ ہے ۔ نہ مقدمہ لڑنے بڑے وکیل کی وہ قیمت دے سکتے ہیں اور نہ میڈیا کے رپورٹروں سے لیکر مالکان تک انہیں ہزارو ں کا نذرانہ دے سکتے ہیں، اب ایسے لوگ لڑیں گے بھی تو کہا ں تک ؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں