تازہ ترین

پیر، 20 جنوری، 2020

زندہ باد ائے انقلاب ائے شعلۂ فانوسِ ہند " ہندوستان کی موجودہ انقلابی عوامی تحریک کی جان "اردو زبان:

سمیع اللّٰہ خان جنرل سیکرٹری: کاروانِ امن و انصاف 

 یہ حقیقت ہے جسے تاریخ میں رقم کیا جائیگا کہ جس وقت ہندوستان جمہوریت کے پردے تلے چھپی ہوئی آمریت کے خلاف صف بستہ ہوا تھا اسوقت صفِ اول کی روحانی کمان اردو زبان کے ہاتھوں میں تھی آج بھی بہت سے ذہنوں میں یہ خیال پنپتا ہیکہ اردو زبان محض رومانوی وقت گزاری کی زبان ہے لیکن اردو زبان کی تاریخ نے بارہا اسے عملی طورپر غلط ٹھہرایا ہےاردو زبان کی تاریخ میں جھانکیں تو یہ حقیقت وا ہوتی ہیکہ اردو زبان کی نظم و نثر اور شعروسخن میں تاریخ نگاری، حقیقت بیانی اور انقلابی چنگاری کا مؤثر بیانیہ ہمیشہ موجود ہی نہیں بلکہ سرگرم رہاہے دکنی عہد سے لے کر مغل فرماں رواؤں کی تاریخ دیکھیں تو متذکرہ عہد کے باضمیر شعراء کے کلام اس حقیقت سے بھرپور نظر آتے ہیں انگریزوں کے سامراجی عہد سے لے کر جنگ آزادی کا بگل بجنے تک اور بعدازاں نام نہاد آزادی کے بعد تک تمام ادوار اردو زبان کے تاریخی کردار سے روشن نظر آتے ہیں محمد شاہ کے عہد کے نامور شاعر محمد رفیع سوداؔ گزرے ہیں ان کے اشعار پڑھیے تو سماجی حالات کی پر درد عکاسی نظر آتی ہے 

شام سے صبح تک یہی ہے شور 
دوڑ یو گھڑی لے چلا ہے چور 
خلق جب دیکھ کر کے یہ بیداد
کرتی ہے کوتوال سے فریاد
بولے ہے وہ کہ میں بھی ہوں ناچار 
گرم ہے چوٹٹوں کا یہ  بازار 
یارو کچھ چل سکے ہے میرا زور 
دیکھ تو ٹک کہاں کہاں ہے چور 
مٹ سکے  مجھ غریب سے یہ خلل 
ہے امیروں کے گھر میں چور محل 
کس کو ماروں میں کس کو دوں گالی 
چوری کرنے سے کون ہے خالی 


اب نظیر کے ان اشعار کو پڑھیے:
واں سر جھکا کے کیجے ڈنڈوت اور سلام 
اس واسطے کہ خاص یہ روٹی کے ہیں مقام  
آٹا نہیں ہے چھلنی سے چھن چھن گرے ہے نور 
پیڑا ہر ایک اس کا ہے برفی و موتی چور 
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے 
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے 
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے 
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے 
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں 
پھر پوچھا اس نے کہیے یہ ہے دل کا طور کیا 

اس کے مشاہدے میں ہے کھلتا ظہور کیا 
وہ بولا سن کے تیرا گیا ہے شعور کیا 
کشف القلوب اور یہ کشف القبور کیا 
جتنے ہیں کشف سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں 

یہ سخنوری سماج کی اقتصادی اور معاشرتی صورتحال کی دردناک داستان یے_

 انگریزی سامراج کے خلاف بغاوت انگیز کرنے والوں کو پڑھیے: 
ظفر علی خان لکھتے ہیں: 
حق کا نہ کر اظہار کہ قانون یہی ہے 
فرماتی ہے سرکار کہ قانون یہی
 ہے پھٹ جائے جو تلی تو نہ ٹھوکر سے گلہ کر 
مر کر بھی نہ دم مار، کہ قانون یہی ہے 
کیڑوں کی طرح پیٹ کے بل رینگ کر ان کو 
شکریے کے دے تار، کہ قانون یہی ہے 
فتویٰ علماء کا ہو کہ، گاندھی کی نصیحت 
دونوں سے ہو بیزار، کہ قانون یہی ہے 

اہل اسلام پر ہنگامہ طرابلس اور بلقان کے تناظر میں شہر آشوب اسلام کے تحت شبلی نعمانی لکھتے ہیں، پڑھیے اور سر دھنیے: 

حکومت پر زوال آیا تو پھر نام و نشان کب تک
چراغ کشۂ محفل سے اُٹھے گا دُھواں کب تک
قبائے سلطنت کے گر فلک نے کر دیے پرزے
فضائے آسمانی میں اڑیں گی دھجیاں کب تک

مراکش جا چکا، فارس گیا اب دیکھنا یہ ہے
کہ جیتا ہے یہ ٹرکی کا مریض سخت جاں کب تک

یہ سیلاب بلا بلقان سے جو بڑھتا آتا ہے
اُسے روکے گا مظلوموں کی آہوں کا دہواں کب تک
یہ مانا گرمئ محفل کے سامان چاہییں تم کو
یہ مانا تم کو شکوہ ہے فلک سے خشک سالی کا
ہم اپنے خون سے سینچیں تمھاری کھیتیاں کب تک
کہاں تک لو گے ہم سے انتقام فتح ایوبیؔ
دکھاؤ گے ہمیں جنگ صلیبی کا سماں کب تک
سمجھ کر یہ کہ دُھندلے سے نشان زفنگاں ہم ہیں
مٹاؤ گے ہمارا اس طرح نام و نشان کب تک

 اسی طرح آپ تاریخ کھنگالتے جائیے، تصویر درد میں اقبال کو پڑھیے، معرکہء کانپور کی داستان شبلی سے جانیے، مظالم پنجاب کی روداد ظفر علی خان سے سنیے،  نظیر اکبرآبادی کو  اشتراکیت اور مارکس کی حریت پسندی کے تناظر میں دیکھیے، شعور کی شور انگیز گہار کے لیے شورش کو چھانیے، پستئ شعور کا درد عامر عثمانی سے لیجیے،ساحر لدھیانوی، سردار جعفری، کیفی اعظمی کو پڑھیے  اور ایسے بیشمار اہلِ اردو کو شعور کی نگہ سے پڑھتے جائیے اردو کا پورا لٹریچر، نثری و نظمی ہر دو صنف ایک مبسوط تاریخی دستاویز تو ہے ہی،

یہ سب انقلابی ترنگ و آہنگ کا ایک عجیب اثر رکھتی ہیں 
موجودہ ہندوستان میں جو انقلابی تحریک آر ایس ایس کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف برپا ہے، جو تحریک ہندوستان کے موجودہ ڈکٹیٹر حکمرانوں نریندرمودی، امیت شاہ اور یوگی آدتیہ ناتھ کے مظالم کے خلاف برپا ہے یہ ایک انقلابی اور عوامی ہنگامے کی تحریک ہے، عوامی ہنگاموں کی تحریکات میں کبھی بھی کوئی قائدِ کُل نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے فلک شگاف، قصر شکن، نعروں، نظموں اور وجد آفریں للکاروں کے تحت سیلِ رواں ہوتے ہیں اور موجودہ عوامی تحریک کا بنیادی نعرہ ہے " ہم لے کے رہیں گے آزادی "
اور آزادی کا یہ نعرہ دینے والے حسرت موہانی ہی تھے_
اس تحریک میں ظالم حکمرانوں کے خلاف قیادت کرنے والی نظم ہے 
" ایسے دستور کو، صبحِ بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا " یہ ہے 

اس تحریک کو ہمت و شجاعت اور شوقِ شہادت کا پاکیزہ دودھ پلانے والی خواتین کے ماتھوں پر جو عبارت کندہ ہے وہ یہ ہے 
" سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے "
" دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے " 

 یہ وہ نعرے، نظمیں اور سلوگن ہیں جنہوں نے اس وقت ہندوستان میں جمہور کے جگر کو انقلاب کی آگ سے دہکا دیا ہے، قوم کا جوش و خروش انگیز ہورہاہے، زنجیرِ عدل کو آہنی دلوں سے زندہ کرنے کا اعلان ہورہاہے، تحریکِ احتجاج سیلاب کے مانند امڈ امڈ آتاہے، ہندوتوائی شہنشاہیت کے خواب آور بتوں کو جالب اور فیض کے الفاظ کی گولیاں چھلنی کررہی ہیں، اترپردیش میں شہداء کے لہو کی طغیانی نے " گھنٹہ گھر سے " آزادی کا نعرہ دیکر یوگی آدتیہ ناتھ کو تھپیڑوں پر رکھ لیا ہے، شاہین باغ دہلی، خوریجی اور ملک بھر کی شاہین صفت بہادر خواتین کے شاہین باغوں سے حرّیت انگیز مترنم انقلابی نظمیں نریندرمودی، امیت شاہ اور موہن بھاگوت کے غرور پر تھپڑ رسید کررہی ہیں ہندوستان میں برسہابرس سے جاری وحشت کے ننگے ناچ کے خلاف اردو کی قیادت میں ایک ایسا ہنگامہ داروگیر برپا ہے جس کی جبینِ احتجاج پر حرّیت ضوفگن ہے 

ظفر علی خان کے اس مصرعے کو اس تحریک کے حوالے کرتاہوں: 

زندہ باش اے انقلاب اے شعلۂ فانوس ہند 
گرمیاں جس کی فروغ منتقل جاں ہو گئیں 

بستیوں پر چھا رہی تھیں موت کی خاموشیاں 
تو نے صور اپنا جو پھونکا محشرستاں ہو گئیں 

جتنی بوندیں تھیں شہیدان وطن کے خون کی 
قصر آزادی کی آرائش کا ساماں ہو گئیں 

مرحبا اے نو گرفتاران بیداد فرنگ 
جن کی زنجیریں خروش افزائے زنداں ہو گئیں 

زندگی ان کی ہے دین ان کا ہے دنیا ان کی ہے 
جن کی جانیں قوم کی عزت پہ قرباں ہو گئیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad